آخر کلمہ تو پڑھ رکھا ہے نا
Article by Ali Abbas Rizvi
شکیل کو سپیشلائزیشن کے لئے یورپ گئے چار سال ہو چکے تھے ان چار سالوں میں اس کی والدہ نے اپنے لاڈلے بیٹے کے بارے میں کیا کیا خواب دیکھے تھے، اب شکیل وطن واپس لوٹنے والا تھا اور اس کی والدہ محلے اور برادری میں اس کے لئے اپنے جیسی دیندار لڑکی ڈھونڈ رہی تھی، واپسی سے چند دن پہلے شکیل نے فون کر کے بتایا کہ اس نے یورپ میں ایک انڈین نژاد یورپی لڑکی سے شادی کر لی ہے اور وہ اسے بھی ساتھ لا رہا ہے، والدہ کے ارمانوں پر اوس پڑ گئی. ماں کے زیادہ تاسف پر شکیل نے کہا امی پریشان نہ ہوں اس نے “کلمہ پڑھ رکھا ہے” ماں آخر ماں ہوتی ہے بیٹے کی خوشی میں خوش اپنی گوری بہو کےاستقبال کی تیاریاں کرنے میں لگ گئی۔
شکیل ایئرپورٹ پر اترا تو اس کے ساتھ ایک ادھیڑ عمر کی موٹی بھجنگ عورت تھی گھر والوں نے پوچھا تو شکیل نے کہا یہ انڈین نژاد ہے نا اس لیے ایسی ہے مگر بے فکر رہیں اس نے کلمہ پڑھ رکھا ہے، گھر میں نئی نویلی دلہن آئی تو محلے اور رشتہ داروں کی عورتوں کا تانتہ بندھ گیا، بہو رانی اس سب کی عادی نہیں تھی لہذا سب کو منہ پہ بول دیا میرے کمرے میں رش نہیں لگاؤ۔ عورتوں نے شکیل کی ماں سے گلہ کیا کہ یہ کیا بے مروتی ہے تو جواب ملا وہ اس ماحول کی عادی نہیں مگر خیر ہے اس نے کلمہ تو پڑھ رکھا ہے نا۔
وقت اپنی رفتار سے چلتا رہا، ایک دن سسر نے بہو کو کچن میں دیکھا تو چائے فرمائش کر دی جس پر انہیں ٹکا سا جواب ملا کہ میں ملازمہ نہیں ہوں شکیل جو یہ منظر دیکھ رہا تھا کھسیانا سا ہوا اور والد کو کہنے لگا پاپا یہ الگ معاشرے سے آئی ہے تھوڑا وقت لگے گا سب سیکھ جائے گی لیکن اطمینان کی بات یہ ہے کہ چلو کلمہ تو پڑھ رکھا ہے نا۔
پہلے پہل تو بہو رانی نے مشرقی لباس پہنا مگر چند دنوں بعد ہی منی سکرٹس اور شارٹس پہننا شروع کردیے کہ مجھے گرمی لگتی ہے میں بھاری بھرکم کپڑے نہیں پہن سکتی۔ ایک دن شکیل کے تایا ان کے گھر آئے تو دیکھا کہ شکیل کی بیگم اور دونوں بہنیں شارٹس پہنے صوفے پر بیٹھی میوزک سن رہی ہیں اور بہو رانی انہیں حقوقِ نسواں پر لیکچر دے رہی ہیں، تایا جلالی طبیعت کے تھے فوراََ گھر سر پر اٹھا لیا، سب اکٹھے ہوئے تایا کی ڈانٹ سن کر شکیل کہنے لگا تایا جان اب ماڈرن زمانہ یہ سب چلتا ہے اور آپ کی بہو کوئی غیر مسلم تھوڑی نا ہے آخر کلمہ پڑھ رکھا ہے اس نے۔
ان ہنگاموں میں وہ دن بھی آیا جب اللہ تعالیٰ نے شکیل کو چاند سا بیٹا عطا کیا سب گھر والے گلے شکوے مٹا کر بہورانی کے مشکور تھے کہ اس نے انہیں وارث عطا کیا، محلے میں مٹھائی بانٹی گئی صدقہ دیا گیا۔ ساتویں دن بچے کو ختنے کیلئے لے جانے لگے تو بہو رانی نے شور مچایا کہ یہ ظلم ہے میں اپنے معصوم بچے کے ساتھ ایسا نہیں ہونے دوں گی سب حیرت سے شکیل کا منہ تکنے لگے شکیل نے سائیڈ پر لے جا کر ماں کو سمجھایا کہ تھوڑا صبر کر لیں بچہ بڑا ہوا تو کروالیں گے اور اپنی بہو سے بد گمان نا ہوں آخر اس نے بھی تو کلمہ پڑھ رکھا ہے یہ معاملہ ٹلا تو بچے کا نام رکھنے کی باری آئی سب اپنی اپنی تجاویز دے رہے تھے کافی بحث و مباحثے کے بعد “یوسف” نام پر اتفاق ہوا۔
شکیل کی ماں نے کہا بہورانی کی تجویز بھی لے لیں جب بہو سے بات کی تو وہ بدک گئی کہ یوسف تو اسلامی نام ہے اور میں اپنے بچے پر کسی مذہب کا لیبل نہیں لگاؤں گی زبردستی۔ بڑا ہوکر جو اسے پسند ہوگا یہ وہی مذہب اختیار کرے گا یہ سننا تھا کہ شکیل کی ماں چکرا کر گر پڑی اس کے کانوں میں شکیل کے آخری الفاظ یہ تھے کہ اماں خیر ہے آپ کی بہو نے خود تو کلمہ پڑھ رکھا ہے نا
یہی صورتحال وطن عزیز کی ہے لاکھوں قربانیاں دے کر وطن حاصل کیا تاکہ یہاں اسلام کا قانون نافذ کیا جائے لیکن یورپی نژاد بوڑھی جمہوریت مسلط کر دی گئی اسلام پسندوں نے مزاحمت کی تو اسلامی جمہوریہ کا نام دے کر عذر تراش لیا گیا کہ کلمہ تو پڑھا ہے نا۔
پھر ختم نبوتﷺ کا ایک قانون پاس کروانے کیلئے دس ہزار مسلمان اس وطن عزیز میں شہید کردیے گئے اس بد معاشی کا عذر بھی یہی تھا کہ خیر ہے مارنے والے بھی تو مسلمان ہیں۔
بے حیائی، فحاشی اور عریانی پھیلائی گئی، سرعام سود کھلایا گیا، شراب کے لائسنس جاری کئے گئے پاکستان بنانے والے تلملائے تو عذر لنگ پیش کیا گیا کہ خیر ہے جی حکمرانوں نے بھی تو کلمہ پڑھ رکھا ہے آپ کوئی زیادہ مسلمان ہیں۔
قوم نے خون پسینے کی کمائی سے ٹیکس دے کر ایٹم بم بنوایا، عالم اسلام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کشمیر اور فلسطین کی بچیاں آس لگا بیٹھی کہ اب ان کی مدد کی جائے گی لیکن بہو رانی نے شور ڈال دیا کہ سب سے پہلے پاکستان باقی جائیں بھاڑ میں۔
ختم نبوتﷺ پر ڈاکہ ڈال دیا گیا۔ لگا کہ اب پاکستان میں ن لیگ کو کوئی ووٹ نہیں دے گا مگر عوام اسی پر خوش تھے کہ موٹر وے بن رہے ہیں اور آخر نواز شریف نے بھی تو کلمہ پڑھ رکھا ہے۔
نبی کریمﷺ کی ناموس پر حملہ کیا سلمان تاثیر نے، ممتاز قادری شہید رحمۃ اللہ علیہ نے اسے واصل جہنم کر دیا۔
چاہیے تھا ممتاز قادری شہید رحمۃ اللہ علیہ کیلئے آواز بلند کی جائے مگر قوم مطمئن رہی خیر ہے پھانسی سنانے والے ججوں نے بھی تو کلمہ پڑھ رکھا ہے آخر۔
ناموس رسالتﷺ پر حملہ کرنے والی آسیہ ملعونہ کو نیازی نے رہا کر دیا احتجاج کیا گیا تو جواب ملا عمران بھی تو عاشق رسول صل اللہ علیہ والہ وسلم ہے۔
فرانسیسی صدر ملعون نے گستاخی کی، مطالبہ ہوا فرانس کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کیے جائیں جواب آیا نیازی بھی تو اسلامو فوبیا پر اقوام متحدہ میں تقریر کرکے آیا ہے۔
پاکستان میں یہودی لابی کی جانب سے سیکولر ازم کا پرچار سرعام کیا گیا اس کے خلاف بات کی تو جواب ملا ہم بھی تو ریاست مدینہ بنا رہے ہیں۔
نواز شریف نے قادیانیوں کو بہن بھائی کہا، بلاول بھٹو مورتیوں پر دودھ چڑھاتا رہا، عمران نیازی نے مسلمانوں کے ٹیکس سے دس لاکھ مسلمانوں کے قاتل سکھوں کے گردوارے بنا کر مسلمانوں کا دل چھلنی کیا انہیں منع کیا تو جواب آیا یہ مولوی شدت پسند ہیں اور آخر نواز، بلاول اور عمران نے بھی تو کلمہ پڑھ رکھا ہے۔
قصہ مختصر کب تک اس قوم کو اسلام اور نظام مصطفیﷺ سے دور رکھا جائے گا؟
کب تک محض اسلامی ٹچ دے کر ورغلایا جائے گا؟
اور یہ ملت کب تک سود، بے حیائی، انگریز کے نظام قانون، اسلام دشمن حکمرانوں اور بےحس سیاستدانوں کو محض اس بات پر نظام مصطفیﷺ کے مقابلے میں منتخب کرتے رہیں گے کہ خیر ہے آخر انہوں نے بھی تو “کلمہ پڑھ رکھا ہے”
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے
نوٹ:اس تحریر کا مرکزی خیال بچپن میں نے ایک ادبی رسالے میں چھپے ناول سے پڑھا ہے مصنف کا نام یاد نہیں رہا ورنہ وہ بھی لکھ دیتا
تحریر:علی عباس رضوی