شہادتِ حضرت عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ
Article by Hina Mirza
محرم کیا ہے، کیا آپ کو پتہ ہے؟
محرم میں کیا ہوا تھا پہلا عشرہ محرم تاریخِ اسلام کا سب سے دردناک پہلو ہے جب ہمارے پیارے نبیﷺ کے پیارے پیارے نواسے جنّت کے نوجوانوں کے سردار حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ اور اُن کے خاندان پر کون سی قیامت ٹوٹی تھی اُن پر کیا ظلم و ستم ہوا تھا کربلا ظلم و ستم کے خلاف استقامت کا نام ہے کربلا وہ جگہ ہے جہاں ننھے علی اصغر کو پیاس کی شدت نے رُلایا ظالموں نے اُن پر پانی بند کر دیا اُن عظیم ہستیوں نے پانی تو نہ پیا لیکن شہادت کا جام ضرور پیا حضرتِ عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ جب خیمے میں داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کے ایک کہرام مچا ہوا ہے بچے پیاس سے تڑپ رہے ہیں پیاس کی وجہ سے علی اصغر کی حالت دیکھی نہ جاری تھی کبھی سکینہ پکارتی ہے چچا جان پانی
کبھی چھ ماہ کا علی اصغر اپنی سوکھی زبان نکال کر دیکھاتا ہے دوسری طرف بیمار زین العابدین رضی اللہ تعالی عنہ کا جسم بخار سے جھلس رہا ہے پیاس کی شدت اور تڑپ سے جسم کانپ رہے ہیں ہر طرف سے العطش العطش (پیاس پیاس) کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں حضرتِ عباس علمدار رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ غضبناک حالت میں اُٹھے ،مشکیزہ اٹھایا اور گھوڑے کی باگیں فرات کی طرف موڑیں امام عالی
مقام رضی اللہ عنہ نے فرمایا ! بھائی عباس کدھر جارہے ہو؟
عرض کی ! آقا اجازت دو میں فرات پر پانی لینے جارہا ہوں۔ یہ سنا تو آقاحسین رو پڑے اور فرمایا! عباس تم میری چھوٹی سی جماعت کے علمبر دار ہو، تمہارے چلے جانے سے یہ سارا سلسلہ ختم ہو جائے گا تم بھی جارہے ہو کیا یہ چاہتے ہو کہ جب حسین آنکھ کھولے تو اسے کوئی اپنا نظر نہ آئے اور کسی کا سہارا نہ رہے، خدا کیلئے میرا نہیں تو عورتوں کی بے کسی کا خیال کرو۔
مجھے تو پتہ ہے کہ ظالم کسی صورت بھی زندہ نہ چھوڑیں گے، اگر تم بھی نہ ہو گے تو ان کا وارث کون بنے گا اور یہ کس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھیں گی۔
حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی!
یا امام ذرا خیموں میں ایک نظر جا کر دیکھو کہ بچے کس طرح پیاس سے تڑپ رہے ہیں، سکینہ نے بار بار مجھے کہا
چچا جان کوشش کرو، شاید دوگھونٹ پانی مل جائے، اس لئے یا امام مجھے آپ اجازت دیں۔
میرے امام رضی اللہ عنہ نے اشک بار آنکھوں سے حضرت عباس علمدار رضی اللہ عنہ کوالوداع کیا، حضرت عباس علمدار رضی اللہ تعالی عنہ لشکر یزید کے سامنے پہنچ گئے اور آپ نے تمام حجت کے لئے ایک خطبہ ارشاد فرمایا
اوکوفیو بتاؤ کس کے امتی ہو؟ اگر تم مانتے ہو کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلمہ پڑھا ہے تو پھر اس آل رسول پر پانی بند کیوں کیا؟ ظالموں یہ کہاں کا انصاف ہے کہ تمہارے جانور تو پانی پئیں مگر اہل بیت کے لئے پانی کا ایک قطرہ بھی میسر نہیں ہوسکتا، بتاؤ خدا تعالی کی بارگاہ میں کیا جواب دو گے، ابھی ایک قطرہ بھی میسر نہیں ہوسکتا بتاؤ خدا تعالی کی بارگاہ میں کیا جواب دو گے، ابھی وقت ہے سو چو اور دوگھونٹ پانی کے دو میں تمہیں کل قیامت کے دن حوض کوثر کے جام پلاؤں گا۔
مگران نام نہاد مسلمانوں پر آپ کی تقریر کا کوئی اثر نہ ہوا، بالآخر آپ لشکر جرار کی صفوں کو چیرتے ہوئے نہر فرات کی طرف بڑھے، جب عمرو بن سعد نے دیکھا کہ حیدر کا لال بڑے ہی عزم و ہمت کے ساتھ آگے بڑھتا جارہا ہے۔
اشقیاء نے راستہ روکنا چاہا، سیدنا عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے تلوار میان سے باہر نکالی جو بجلی کی طرح چمکی اور قہر خدا بن کر دشمنوں پر گری حیدر کرار کی ہیبت و شجاعت نے دشمن کی صفوں میں راستہ بنا دیا اور دشمنوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹتے ہوئے لب دریا تک پہنچ گئے
جب نہر فرات کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا پانی دیکھا تو خیال آیا کہ ایک چلو بھر کر پی لوں مگر جب پینے لگے تو سکینہ کی پیاس یاد آ گئی اور علی کا شدت پیاس سے زبان کا باہر آنا آنکھوں کے سامنے آ گیا، پانی اسی جگہ پھینک دیا اور جلدی سے پانی کا مشکیزہ بھرا کندھے پہ لٹکا کر چلنے لگے تو شمر لعین چلا اٹھا کہ اگر یہ پانی اہل بیت کے خیموں میں پہنچ گیا تو یادرکھو پھر زمین پرکوئی یزیدی باقی نہ رہے گا۔
چنانچہ حضرت عباس رضی اللہ کی پوری کوشش تھی کہ کسی طرح یہ پانی صحیح سلامت خیموں میں پہنچ جائے اور میرا یہ وعدہ بھی پورا ہو جائے مگر دشمن کے نرغہ میں آگئے انہوں نے تیروں کی بارش کر دی، جس سے مشک چھلنی ہوگئی۔
ادھر خیموں والے خوشی منا رہے ہیں کہ یا اللہ تیرا شکر ہے کہ عباس پانی لے آئے، مگر وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ حوض کوثر کے مالک آج کر بلا کے میدان میں اپنے ہی نانا کا کلمہ پڑھنے والے بے وفا امتیوں کے ہاتھوں پیاسے ہی تڑپ تڑپ کر جانیں دیں گے، پھر ہرطرف سے تیروں، نیزوں اور تلواروں کے جھنکارتڑپ کر جانیں دیں گے۔
آپ ان کے حملوں کا جواب دیتے ہوئے، خیموں کی طرف بڑھتے چلے آرہے تھے کہ نوفل بن ورقہ مردود نے چھپ کر حضرت عباس پر وار کیا کہ آپ کا دایاں بازو کٹ گیا، جوش شجاعت دیکھئے کہ آپ نے فورا نہایت ہی دلیری کے ساتھ مشک کو دوسرے کندھے پر اٹھالیا اور بائیں ہاتھ سے تلوار پکڑ کر دشمن کا مقابلہ کرتے رہے کوشش یہی تھی کہ کسی طرح پانی خیموں میں پہنچا دوں، آپ بڑھتے آرہے تھے کہ ملعون نے آپ پر دوسرا وار کیا اور حضرت عباس کا بایاں بازو بھی قلم کر دیا، آپ نے مشک کے تسمہ کو دانتوں سے پکڑ لیا اور خیموں میں پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر صد افسوس کہ اس سقائے اہل بیت کی تمام امیدوں پر پانی پھر گیا کہ ایک تیر آکر مشکیزہ میں پیوست ہو گیا جس سے سارا پانی بہہ گیا اور ایک دوسرا تیر آیا جو حضرت عباس کے سینئہ اقدس پر لگا ایک اور سیاہ کار نے سر اقدس پرلوہے کی گرز ماری کہ آپ زخموں سے لاچار ہوکر زمین پر گر پڑے اور امام عالی مقام کو آواز دی اے بھائی حسین
میری طرف سے آخری سلام ہو۔ اس آواز کو سن کر حضرت امام عالی مقام رضی اللہ تعالی عنہ دوڑتے ہوئے آپ کے قریب آئے اور پیکر وفا عباس علمدار کو دیکھ کر رو پڑے آپ کی لاش کے ساتھ چمٹ گئے اور کہا اے عباس ! اب میری کمر ٹوٹ گئی ہے آپ حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی لاش اٹھا کر خیموں میں تشریف لائے تو خیموں میں ایک کہرام مچ گیا حسین ابن علی نے سکینہ کوفر مایا! بیٹی تو بھی اور اے علی اصغرتو بھی اپنے چچا کو معاف کردینا وہ تم سے کیا ہوا وعدہ پورا نہ کر سکے یہ کہا اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی روح جنت کے اعلی مقام میں پہنچ گئی۔
اناللہ وانا الیہ راجعون
تحریر: حِنا مرزا