دنیا کھونا کیا اُسکے جانے کے بعد کیسا غم
Article by (انیقہ ملک رائٹس)
یہ وہ دن اور وقت ہے جب میں نے ابو کو آخری دفعہ مجھ سے بات کرتے ہوئے دیکھا تھا جو بولنا چاہتے تھے پر اُن کی زبان ساتھ چھوڑ گئی تھی پھر بھی وہ کچھ کہنا چاہتے تھے پر بول نہیں پا رہے تھے اپنی زندگی کی آخری نماز ادا کرنے کے بعد وہ اپنے آخری سفر کی تیاری میں لگ گئے تھے یاد ہے مجھے اُن کا دیکھنا بولنے کی کوشش کرنا جانتے ہیں وہ یہ کہنے کی کوشش کر رہے تھے کے اُن کی جیب میں آخری کچھ پیسے ہیں جو بہن کے لیے رکھے تھے وہ نکال لو میں نے کہا اچھا اچھا لے لیے ہیں آپ پریشان نہ ہوں پر وہ تو سب جانتے تھے کہ وہ آخری سفر میں ہیں زندگی کے اور ہم سب پاگل ہو گئے تھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی جب انکو ہسپتال لے جا رہے تھے تب اُن کی آنکھیں مجھ پر ٹکی تھیں جیسے بول رہے ہوں کہ مجھے روک لو اور میں پاگلوں کی طرح بول رہی تھی کہ جلدی کریں ابو کی آنکھوں میں نمی تھی وہ آخری بار مجھے اور میری بہن کو اور نانو کو دیکھ رہے تھے اور بس ہمارا ساتھ گھر کی دہلیز پار ہوتے ہی ختم ہو گیا اور دو گھنٹے بعد ہی ان کی آخری سفر کی اطلاع آ گئی اور پھر جیسے میری پوری دنیا ہی ختم ہو گئی تھی جب میں نے سنا کہ ابو نہیں رہے تب بہن بیہوش ہو گئی امی سکتے میں چلی گئیں اور میں بیساختہ گھر کے باہر پاگلوں کی طرح چیخیں مار کر بھاگنا چاہتی تھی پر پھر خود کو سنبھالتے ہوئے امی بہن نانو سب کو دیکھا اور پھر اُن کو سنبھالنے لگی اور جیسے خود کو بھول گئی اور اس دن میری زندگی کا ایک نیا سفر شروع ہوا تھا اور اس وقت میں بڑی ہو گئی تھی جو سب کے لیے ایک چھوٹی بچی تھی جو بس ہنسنا جانتی تھی شرارتیں کرنا جانتی تھی سب کو روتے ہوئے بھی ہنسانا آتا تھا جسے آج وہی چھوٹی بچی اتنی بڑی ہو گئی کہ اب سب کو سنبھالنا سب کو ہنسانا سب کی خوشی کو دیکھنا بس یہی مقصد بن گیا ہے جو نو سال پہلے شروع ہوا تھا وہ آج بھی قائم ہے جانتے ہیں اذیت کیا ہوتی ہے اپنی آنکھوں کی نمی کو چھپا کر اپنے درد کو دبا کر اپنوں کو ہنسانے کیلئے خود پاگلوں کی طرح ہنسنا مذاق کرنا اور پھر کسی کونے میں اکیلے جا کر چیخیں مار کر رونے کی کوشش کرنا پر پھر بھی رو نہ پانا یہ ہوتی ہے اذیت یہ دن اور یہ وقت نہ کبھی بھول سکتی ہوں اور نہ کبھی بھول پاؤں گی۔
ہاں ابو کے آخری الفاظ بھی یاد ہیں مجھے اور ہر پل مجھے وہ الفاظ یاد آتے ہیں پر ابو کے جانے کے بعد ایک نئی انیقہ کو دیکھا میں نے جو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں ایسی بھی ہو سکتی تھی پر وقت نے مجھے وہ سب سیکھا دیا جو ابو کے ہوتے ہوئے کبھی نہیں سیکھ پائی یا پھر سیکھنا نہیں چاہتی تھی اور وہ سب کرنا جو میں نے کبھی نہیں چاہا تھا وہ سب کیا اور کرنا میری زندگی کا حصہ بن گیا کچھ لوگ آئے اور کچھ لوگ چلے گئے اور کچھ قیمتی رشتے جنہوں نے ابو کے جانے کے بعد مجھے سنبھالا وہ بھی اپنی زندگی کا آخری سفر ختم ہونے پر ساتھ چھوڑ گئے اور ان کی بھی فکر میں میرے لیے بولے گئے الفاظ یاد ہیں مجھے جن میں سے میری ایک نانو ہیں جن کو 5 دسمبر کو دو سال ہو جائیں گے جن کا مسکراتا ہوا چہرہ شفقت بھرا ہاتھ میرے سر سے اٹھ گیا جب اُن کے جانے کی تکلیف سہہ لی تو کسی اور کے جانے کی اتنی تکلیف نہیں ہوتی مجھے کیوں کہ جب پوری دنیا کو ہی کھو دیا تو باقی سب کے جانے سے مجھے فرق نہیں پڑتا کیوں کہ جب میری دنیا کو کھونے کا غم سہہ لیا تو باقی سب تو بہت چھوٹے غم ہیں جو سہنا مشکل نہیں ہیں آسان ہیں
انیقہ ملک رائٹس ✍🏻