ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
Article by Amina Bint-e-Sajjad
ارضِ وطن جسے لازوال قربانیوں کے بعد ایک عظیم مقصد کی تکمیل کے لئے حاصل کیا گیا۔ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے اور اسے حاصل کرنے کا مقصد صرف برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ ہی نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کی ترجمانی کرنا تھا۔
لیکن افسوس ہم بحثیت قوم اس مقصد کو فراموش کر بیٹھے۔ پوری امت مسلمہ کی ترجمانی تو درکنار آج ہماری قوم خود لسانی و علاقائی تفریق میں بٹ گئی ہے۔ حکمرانوں کو حصول اقتدار کی آپسی جنگ سے ہی فرصت نہیں، کرپشن جیسے ناسور نے اداروں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، سود جیسی لعنت نے معاشی نظام کو تباہ کن نتائج کی طرف دھکیل دیا ہے، اخلاقی قدریں دم توڑتی جا رہی ہیں اور بے حسی اپنے عروج پر ہے۔ جہاں کسی کا بس چلتا ہے کمزور کے استحصال میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔
سوال یہ ہے کہ کیا ان حالات کے ذمہ دار اکیلے حکمران اور عہدوں پر برا جمان بااختیار لوگ ہیں؟
یہ بات سچ ہے کہ مسائل بہت زیادہ اور پچیدہ ہیں ایک عام آدمی کے اختیار سے باہر لیکن دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو قومیں افراد کے ملنے سے ہی بنتی ہیں۔ قوم کی مثال ایک مشینری کی طرح ہے اور افراد اسکے پرزے، اور مشین اسی وقت کارآمد ہے جب اسکے تمام پرزے درست کام کریں۔ بالکل اسی طرح افراد کی انفرادی قوت، محنت اور فکر ہی قوم کی اجتماعی کامیابی ہے۔ کیوں کہ بقول شاعر مشرق
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
قوم کا ہر فرد ملت کے مقدر کا ستارہ ہے۔ اگر ہر شخص یہی سوچ کر مایوس ہو کر بیٹھ جائے کہ ایک میرے کام کرنے سے یا کوشش کرنے کیا فرق پڑ جانا ہے، سسٹم نے کونسا تبدیل ہو جانا ہے تو پتہ بھی نہیں چلتا اور آہستہ آہستہ وہ بھی اسی سسٹم کا حصہ بن جاتا ہے۔ اگر قائد اور اقبال بھی یہی سوچتے تو کیا حصول آزادی کبھی ممکن تھا؟ اگر محاذ پر کھڑا ہر سپاہی انفرادی کردار ادا نہ کرے تو جیت کیسے ممکن ہوگی؟ قطرہ قطرہ ملنے سے سمندر بنتا ہے اور اینٹ سے اینٹ ملتی ہے تو بلند و بالا عمارتیں کھڑی ہو جاتی ہیں ۔ قومیں بھی اپنے افراد کی انفرادی فکر، سوچ، نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ محنت کرنے سے ہی تعمیر و ترقی کی منازل طے کرتی ہیں ۔
لیکن ہماری قوم کا المیہ ہے کہ بجاۓ اپنی اصلاح کرنے کے ہم بس ایک دوسرے پر تنقید بازی پر وقت ضائع کرتے رہتے ہیں۔ اگر ہم آج ہی اپنا احتساب کریں کیا ہم اقبال کے اس شعر میں چھپے پیغام پر عمل پیرا ہیں ! کیا ہم خود اپنے فرائض بخوبی انجام دے بھی رہے ہیں۔۔!!
مثلاً ہم کہتے ہیں کہ ملک و قوم کا سب سے بڑا ایک مسئلہ کرپشن ہے لیکن کیا کبھی ہم نے سوچا کہ کرپشن کے معنی کیا ہیں؟ لفظ کرپشن خرابی، بد عنوانی اور ابتری کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر ہر شخص اپنا احتساب کرے تو پتہ چلے گا کہ ہماری اکثریت کسی نہ کسی لیول پر کرپشن جیسے مرض میں مبتلا ہے۔ کسی بھی دفتر میں ایک فائل آگے پہنچانے کی بات ہو یا فائل پر افسر کے دستخط درکار ہوں سفارش یا رشوت سے کام لیں تب ہی آپکی سنوائی ہو گی ورنہ ایک لمبے عرصہ تک دفتروں کے چکر لگواۓ جاتے ہیں۔ افسر شاہی کی تو کیا بات دفتروں کے عام ملازم بھی رشوت خوری یا کام چوری سے باز نہیں آتے۔ کاروباری معاملات کو دیکھیں تو ہیراپھیری، جھوٹ، ملاوٹ ہر جگہ عام ملے گی۔ کیا مالک، کیا ملازم اور کیا مزدور ہر ایک کی کوشش ہوتی جتنا ہو سکے ہیرا پھیری سے کام لیا جائے۔
ہم سب چاہتے ہیں ملک میں قانون کا راج چلے اور بیٹھ کر قانون و انصاف کے اداروں پر تنقید کرتے رہتے ہیں لیکن جب بات خود پر آ جائے کبھی ہم نے غور کیا کہ سڑکوں پر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی ہمارا روز کا معمول ہے۔ آۓ روز لوگ سڑکوں پر گتھم گتھا اور گالی گلوچ کرتے نظر آتے ہیں۔ اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے سست روی سے کام لیں گے تو کیا ہمارا فرض نہیں جہاں تک ممکن ہو مل جل کر اپنی اور دوسروں کی حفاظت اور آسانی کا خیال رکھیں۔
ایک طرف ہمیں اپنا ماحول صاف ستھرا چاہیے اور دوسری طرف ہم جگہ جگہ کوڑا کرکٹ پھینکنے سے باز نہیں آتے، سفر کر رہے ہیں یا کسی پبلک پلیس پر ہر جگہ کو کچرا کنڈی بنننے میں دیر نہیں لگتی، بارش ہو جائے تو یہی کچرا نکاسی آب کا نظام بھی خراب کرتا ہے۔ گلی محلوں کے نالے کی صفائی کروانی ہو تو تعاون نہیں کرنا لیکن انتظامیہ سے شکوہ ضرور کرنا ہے کیوں کہ وہ ہمارا حق ہے۔ اگر انتظامیہ سستی دکھا بھی رہی ہے تو کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اپنی مدد آپ کے تحت اقدامات کریں۔ تعلیمی ادارہ ہو یا دفتر، سڑکیں، بازار ہوں یا تفریحی مقامات ہر شخص اگر ڈسٹ بن میں کوڑا پھینکے تو یقیناً ماحول کافی حد تک صاف ستھرا ہو جائے گا۔ اسی طرح ہم گھروں میں، کام کرنے کی جگہوں پر یا سڑکوں پہ اگر شجر کاری کا بندوبست کریں تو ماحول کی خوبصورتی میں اضافہ کے ساتھ بڑھتی آلودگی بھی کنٹرول ہو سکے گی۔
ملکی معشیت کا نظام جب سود پر چلتا ہو تو قومی خزانے کیسے بڑھیں گے اسی طرح ہماری گھریلو معشیت کس طور درست رہ سکے گی، مال کو شادی بیاہ کی فضول رسموں کی نذر کرنے میں خوشی لیکن زکٰوة ادا کرنا دشوار لگے۔ افسوس مملکتِ اسلامیہ میں پورے حق کے ساتھ زکوٰة ادا کرنے والے چند ہی لوگ ہوں گے۔ اگر ہم میں سے ہر صاحب حیثیت فرد حق دار تک زکوة پہنچاۓ تو نہ صرف ہمارے اپنے مال کی برکت بڑھے گی بلکہ معاشرہ میں آپسی محبت و بھلائی، باہمی تعاون اور احساس ذمہ داری کو بھی فروغ ملے گا۔
معاشرے میں بڑھتی ہوئی لادینیت اور بے راہ روی کی وجہ کہیں نہ کہیں تربیت میں کمی ہے۔ کسی بھی قوم کے تہذیب و تمدن کی پہچان اسکے افراد کی سوچ کے معیار سے ہوتی ہے۔ ہمیں نہ صرف اپنی زندگی اسلام کے تابع کرنی ہے بلکہ اپنی نسلوں کی دینی و اخلاقی تربیت بھی ہماری ذمہ داری ہے۔
تیرہ نومبر 1939ء میں یوم عید کے موقع پر قائد اعظم ؒ نے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
ہمیں قرآنی دلائل کی روشنی میں اپنے اخلاق و عقائد کو درست کرنا چاہئیں اور اِسی روشنی میں حق و صداقت کی جستجو بھی کرنی چاہیے، اگر ہماری صداقت پرستی بے لاگ ہے تو ہم ضرور اپنی منزل کو پا لیں گے۔ صداقت کے راستے پر چلتے ہوئے ہمیں اتنے ہی حصے پر قناعت کرنی چاہیے جس کو ہم دوسروں کی حق تلفی کئے بغیر حاصل کر سکتے ہیں،آخر میں میری یہ تاکید نہ بھولنا کہ اسلام ہر مسلمان سے توقع رکھتا ہے کہ وہ اپنی قوم کے ساتھ مل کر اپنا فرض ادا کرے
اگرچہ مسائل بہت زیادہ ہیں اور یہ بات بھی درست ہے کہ ایک عرص سے پڑوان چڑھنے والی مشکلات کوحل کرنے کے لئے بہت زیادہ وقت لگے گا۔ لہذا ہر فرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے گھر اپنے ملک کی بہتری اور اپنی نسلوں کے روشن مستقبل کے لئے احساس ذمہ داری پیدا کرے۔ ہر فرد اگر اخلاص، باہمی تعاون، اور نیک نیتی کے ساتھ اپنے فرائض منصبی ادا کرے تو جلد ہی یہ اندھیرے چھٹ جائیں گے اور روشن سویرا قوم کا مقدر بنے گا۔
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کِشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
انشاء اللّه ہمارا پیارا وطن ایک نا ایک دن ضرور اپنی منزلِ مقصود حاصل کرے گا۔ ملک و قوم کی باگ دوڑ دیندار اور مخلص ہاتھوں میں ہوگی اور ہم سب دیکھیں گے ایک خود مختار، مستحکم اور خوشحال پاکستان۔ آمین
ہم دیکھیں گے، ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوحِ ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اُڑ جائیں گے
اٹھّے گا انا الحق کا نعرہ
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
اور راج کرے گی خلقِ خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
تحریر: آمنہ بنت سجاد