ایک کتا اور گستاخ رسول ﷺ
Article by Bint E Hassan
شارح بخاری حضرت امام حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے ایک کتے کا ذکر کیا ہے، جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دشمن کو کاٹ کھایا تھا۔
ہمارے حکمرانوں میں کتے جتنی بھی غیرت باقی نہیں ہے، کتا کتا تو ضرور ہے پر وہ گستاخ نہیں ہے، ایک کتے کو ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا معاملہ سمجھ آ گیا لیکن پاکستان کے حکمرانوں کو سمجھ نہ آسکا ۔
حجر عسقلانی کے مطابق جب منگولوں نے پوری مسلم دنیا پرقبضہ کرلیا اور وہ دن بڑے دردناک تھے بغداد میں خون بہہ رہا تھا اورغرناطہ لٹ رہا تھاجب جامعہ نظامیہ کی لائبریری دجلہ کی موجوں کی زدمیں تھی جب تہہ خانوں میں پانی چھوڑ دیا گیا اور مسلمانوں نے سوا لاکھ لاشیں وہاں بھی اٹھائیں۔ وہ دن بڑے دردناک دن تھے۔ ایک منگول سردارعیسائی ہوگیا اوراس نے بہت بڑا اجتماع کیا۔ ابن حجر لکھتے ہیں کہ اس بدبخت عیسائی بادشاہ نے دریدہ دہنی کرتے ہوئے اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان میں گستاخی کی تواس بڑے اجتماع کے اندرایک بھی مسلمان نہیں تھا۔
جب وہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم خلاف بھونکا تو پاس بندھا ہوا ایک کتا جوش میں آگیا اور وہ زور زورسے بھونکنے لگا، سب نے اسے کہا کہ تو مسلمانوں کے نبی کے خلاف بولے ہو اس لیے یہ کتا زور زورسےبھونک رہا ہے۔ تواس نے کہا کہ نہیں نہیں یہ ویسے ہی بڑاغیرت مند ہے میں نے ہاتھ سے اشارہ کیا تو یہ سمجھا کہ مجھے مارنے لگا ہے اس وجہ سے غیرت میں آیا، تواس نے دوبارہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی کرنا شروع کردی اتنا مجمع تھا لیکن اس میں سے کوئی بھی حضوراکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا غلام نہیں تھا تو تاریخ نے بتایا ہے کہ وہ کتا ایک دم رسہ توڑ کرجھپٹ کرشیر کی طرح اس پرحملہ آورہو گیا اور اس نے اپنے دانت اس کی گردن میں گاڑھ دئیے اورچھوڑا تب جب اس کو جہنم میں پہنچادیا۔ ابن حجرلکھتے ہیں کہ اس واقعہ کو دیکھ کر چالیس ہزار منگولوں نے اسلام قبول کیا
(الدرر الکامنہ ۲۰۳/۳)
اور امام الذھبی نے اس قصے کو صحیح اسناد کے ساتھ معجم الشیوخ صفحہ ۳۸۷ میں نقل کیا ہے، اس واقعے کے عینی شاہد جمال الدین نے کہا ہے کہ
اللہ کی قسم کتے نے میری آنکھوں کے سامنے اس ملعون گستاخ کو کاٹا اور اس کی گردن کو دبوچا جس سے وہ فوراٙٙ ہلاک ہو گیا
آج کچھ دین کا لبادہ اوڑھے علمائے سُو اور کچھ دو نمبر پیر اپنے حجرے اور گدیاں بچا رہے ہیں کیسی کم بختی آ گئی ہے گدیاں اور آستانیں ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے زیادہ پیارے ہو گے ہیں، بد بخت حکمران دو نمبر پیر و مولویوں کے آستانوں پر جاتے ہیں، بلکہ پیر خود ڈھول کی تاپ پر ناچتے گاتے ان کے ساتھ کھڑے ہیں، بڑی بڑی گدیاں آج ان گستاخوں کے حمایتیوں کے حق میں ہیں، عام انسان تو عام رہا، آلِ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پشت پناہی ان گستاخوں کے حمایتیوں کو حاصل ہے۔
کس منہ سے یہ روزِ محشر شفاعت حاصل کریں گے؟ کن آنکھوں سے قبر میں رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو پہچانے گے؟ ایک کتا ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مسئلہ سمجھ کر گستاخ کو مار دیتا ہے لیکن یہاں تو سرِ عام اعلانیہ گستاخی ہوتی ہے اور ہمارے بد بخت حکمران ان سے خوش گیپیوں میں مصروف نظر آتے ہیں، ان سے ہنس ہنس کر مل رہے ہیں۔
یا اللہ ہم بے بس ہیں ان کو تو ہی نشانِ عبرت کی جاہ بنا دے ان کو نیست و نابود کر دے کیوں کہ اب تو ان میں ایک کتے جتنی بھی غیرت نہیں بچی، کتا توہین رسالت صلی اللہ علیہ والہ وسلم برداشت نہ کر سکا، تو یہ حکمران انسان ہوتے ہوئے اس گستاخ سے بغل گیر ہو رہے ہیں، توہین رسالت صلی اللہ علیہ والہ وسلم ناقابل معافی جرم ہے۔
گستاخ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ایک کتے نے برداشت نہ کیا لیکن افسوس صد افسوس ہمارے حکمرانوں کو دنیاوی لالچ نے اس قدر اندھا کر دیا ہے کہ ایک فٹ کی دور پر بیٹھا گستاخ ایک وفد مسلمانوں سے جنم واصل نہ ہو سکا، کتے کا ردِ عمل اس پورے وفد کے ایمان پر سوالیہ نشان لگا گیا، وہ منگولوں کا کتا بھی سوچتا ہو گا اور شکر کر رہا ہو گا کہ شکر ہے اللہ عزوجل نے مجھے ان حیوان پرست لالچی مفاد پرست انسانوں سا نہیں بنایا۔
تحریر: بنتِ حسن