عورت اور اس کی مرضی
Article by Shehla Noor
ہمارے معاشرے میں عورت جب حجاب کے اندر اللہ اکبر کا نعرہ لگاتی ہے تو سب اسے تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور فخر محسوس کرتے ہیں ،خود عورت اپنے آپ کو ایک بااعتماد، با اختیار جنس تصور کرتی ہے، وہ یہ جانتی ہے کہ وہ چاہے تو باپردہ باحجاب طریقے سے بھی ہر شعبے میں کام کرسکتی ہے، وہ چاہے تو ملکی و بین الاقوامی سطح پر نمایاں کردار ادا کرسکتی ہے۔ لیکن دوسری طرف معاشرے کے قلیل عناصر یہ جاننے کے باوجود کہ عورت باحجاب ہوکر بھی ترقی کرسکتی ہے اور ترقی میں معاون و مددگار ہوسکتی ہے پھر بھی تقاضا کرتے ہیں کہ عورت کو آزادی دی جائے۔
سوال یہ ہے کہ ان کا عورت کی آزادی سے آخر مراد کیا ہے؟
کیا عورت کو لباس سے آزاد کرنا آزادی ہے؟
عورت کو رشتوں سے آزاد کرنا آزادی ہے یا عورت کو مذہب سے ہی آزاد کرنا آزادی ہے؟
ان کی تسکین اسی میں ہے کہ عورت بازاروں کی رونق نظر آئے، ان کا مدعا یہ ہے کہ عورت لباس سے عاری ہو، وہ چاہتے ہیں کہ عورت کے ساتھ وہی سلوک ہو جو مردوں کے ساتھ ہوتا ہے، درحقیقت ان کو عورت سے کوئی ہمدردی نہیں ہے بلکہ انھیں اس معاشرے سے دشمنی ہے جو اسلامی اصولوں پر استوار ہو، انھیں نفرت ہے اس خاندانی نظام سے جو اللہ رب العزت کی طرف سے عطا کردہ رشتوں سے بناہے، انھیں چڑ ہے تو اس عزت سے جو عورت کو ایک بیٹی، ایک ماں، ایک بہن اور ایک بیوی ہونے کی حیثیت سے اسلام دے رہا ہے۔
اگر معاشرے میں چند جاہل افراد عورت کے ساتھ ناانصافی کریں تو اسے دلیل نہیں بنایا جاسکتا۔ اگر کوئی ڈاکٹر اپنا فریضہ ادا نا کرے تو آپ اس ڈاکٹر کو غلط کہیں گے نا کہ تمام ہی ڈاکٹرز کو یا میڈیکل کے شعبے کو تو اگر کہیں کسی مقام پر عورت کے ساتھ ناروا سلوک ہے تو آپ اسے غلط کہیے اور اس کے سدباب کی کوشش کیجیے ناکہ آپ ان اصولوں کو غلط کہیں جو اسلام دیتا ہے۔ آپ عورت کواپنی من مانی کا درس دے کر یہ سمجھائیں کہ یہ آزادی ہے تو یاد رکھیں عورت کی آزادی مذہب سے وراء نہیں ہوسکتی۔ اس کا مطلب تو یہ ہے آپ عورت کو اس مذہب سے ہی دور کرنا چاہتے ہیں۔ لادینی عناصر کے پیروکار بن کر عورت کے نازک جذبات کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ آپ عورت کو حدود سے آزاد کر کے، عریانی و فحاشی کا سبق پڑھا کر کس طرح معاشرے میں ان کی عزت کو محفوظ کرسکتے ہیں؟
مغرب کی عورت جس کی کوئی منزل نہیں، اسے مسلمان عورت کے لیے کیسے رول ماڈل بنا کر پیش کرسکتے ہیں۔ شاید آپ کی باتوں میں کچھ عورتیں آجائیں لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوگی کیونکہ ایک مشرقی مسلمان عورت اچھی طرح جانتی ہے کہ ان کی عزت کیسے محفوظ ہوگی، ان کا مقام کس طرح بلند ہوگا اور وہ کس طرح معاشرے کا ایک اہم و بااثررکن بن سکتی ہیں۔ میرا جسم میری مرضی اور عورت مارچ کا جواب خود عورت بہترین طور پر دے سکتی ہے۔
آئیے اب آپ کا میدان عمل میں آنے کا وقت ہے اپنی تحریر اپنی تقریر اپنے عمل کے ذریعے ثابت کیجیے کہ الحمدللہ ہم مذہب کی حدود کے اندر آزاد ہیں اور ہماری وہی مرضی ہے جو ہمارے رب کی مرضی ہے۔
تحریر: شہلا نور
Very Nice
Very Nice God Bless You