وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا شباب جس کا ہے بے داغ
Article by Bint E Hassan
“گلستانِ رضوی کے سپاہیو”
وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہے بے داغ، ضرب ہے کاری
نگاہِ کم سے نہ دیکھ اُس کی بے کُلاہی کو
یہ بے کُلاہ ہے سرمایۂ کُلہ داری
کسی بھی تحریکی اور انقلابی سرگرمی میں متحرک نوجوانوں کا ولولہ و جذبہ، استقامت اور مسلسل جدوجہد اس کی کامیابی کی ضامن ہوتی ہے 2017 میں تحریک لبیک کے قیام سے قبل ہی اس کی بنیادوں میں نوجوانوں کے عزم مصمم اور آہنی ارادے شامل ہوچکے تھے۔ ان نوجوانوں میں سرِ فہرست علامہ الشیخ الحدیث خادم حسین رضوی رحمتہ اللہ علیہ کے بڑے بیٹے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی حافظ سعد حسین رضوی برکاتہم العالیہ تھے۔ جو اپنے والد صاحب کی قیادت میں نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نفاذ اور اُمت و اِنسانیت کی خدمت میں جان و دل سب کچھ نچھاور کرنے کا پختہ ارادہ کیے ہوئے تھے۔ لیکن ان کے والد محترم کی زندگی نے وفا نہ کی اور یہ گوہرِ نایاب قیامِ تحریک کے تقریباٙٙ تین سال بعد 19 نومبر 2020ء جمعرات و جمعہ کی درمیانی شب کو اِس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ “جن کا جانا گویا ہر چاہنے والے کی دھڑکن بند ہونے کے مترداف تھا؛ آپ کاسایہ اٹھنا گویا اہلسنت حنفی بریلوی مکتب والے یتیم ہو گئے۔ آپ کیا گئے جیسے سمندر میں اٹھتی پُرجوش لہریں ایک دم سے ساکن ہو گئی ہوں،آہ_ وہ کیفیت لکھنا کسی رضوی کے بس کی بات نہیں؛ باوجود رستے زخموں اور ٹوٹے دلوں سے دن رات ایک کیے جو اُن کے مشن پر گامزن ہیں؛ جو بنا کسی لالچ کے اپنی زندگیوں کا مقصد عظیم رضوی مشن کو بنا چکے ہیں؛ جو اپنی ذات کو پیچھے چھوڑ کر نگاہ منزل پر جمائے ہیں۔ اے پہلی منزل کے آشنا سے مسافرو سنو آج
گلستان رضوی میں منتظر انقلاب، ولولہ انگیز پر عزم دیوانہ وار جوانیاں لٹانے کے ترانے الاپنے والے مایہ ناز رضوی سپوتو! قائدِ غیرت و عزیمت رضوی کے جواں ہمت، جرات حمزوی کے امین روحانی بیٹو اور بیٹیو! انقلاب میں حائل آہنی چٹانوں سے ٹکرانے والے رضوی جوانو! توقیرِ رداے زہرا بتول رضی اللہ عنھا پر قربان رضوی جوانو! دخترِ علی کرم اللہ وجہہ الکریم خطیب شام حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی کنیزو! اے شعلہ فشاں شمعِ اِنقلاب پر رقصِ بسمل کناں جاں نثار انقلابی پروانو اور فرزانو! فقط آپ کے نام
قارئین محتشم! جب بحر چاہت خانوادۂ انقلاب میں گم گشتہ یادوں کے سفینے میں سوار جزیرۂ عشق پر اترتے ہیں۔ تو پھر ہر طرف ان کی روشنی سے مردہ دل چمکنے لگتے ہیں ایسے ہی تھے بابا جی رحمتہ اللہ علیہ۔
ہر پل بابا جی دی کیا بات ہے۔
تو_ اپنے فرائض سے روح گردانی کیوں کر برتتے ہو؟
اے نوردِ انقلاب کے بھائیو
دیکھا ہے تمہاری بہنوں نے بھی خواب ایک خلافت کا، خواب ایک آزادی کا حقیقی اسلامی آزادی کا، خواب ایک آزاد بیت المقدس کا۔
اے جوانانِ تحریکی بھائیو
تم ہی تو ہو جنہوں نے حق کا علم اٹھائے ایک دن بیت المقدس آزاد کروانا ہے، تم ہی تو ہو جنہوں نے کشمیر کی سسکتی ماوں بہنوں اور بیٹیوں کو ظالموں کے شکنجے سے چھڑانا ہے۔
اے راہِ حق کے سپاہیو
تم ہی تو ہو جنہوں نے بلوچی و سندھی ماؤں کی نوحہ کناں خشک آنکھوں میں خوشی کی لہر ابھارنی ہے۔ کپکپاتی بوڑھی اور جذبات سے منتشر ہوئی آنکھوں میں احساس کا خواب بننا ہے۔ جن سہاروں نے انھیں دھوکے دئیے ان ٹوٹی بیساکھیاں کا حوصلہ بننا ہے۔
اے جوانانِ انقلابی بھائیو
تم ہی تو ہو جن کی نسلوں نے آگے جا کر اس عظیم رضوی مشن کو بروئے کار لا کر دین مصطفیﷺ کو تخت نشین کرنا ہے؛ ہاں تم نہ سہی ہم نہ سہی لیکن یہ چنگاری ہم نے جو جلائی ہے اسے جلتے رکھنا ہے تا کہ خواب جو خلافت کا دیکھا ہے وہ شرمندہ تعبیر ہو سکے۔
اے رضوی مجاہدو
تم جیتے رہو تم شاد رہو تم آباد رہو ،سبق اپنی نسل نو کو یہ یاد کرواتے رہو؛ کہ ملک پاکستان ہمارے بڑوں نے بنوایا تھا لاکھوں علمائے حق نے گردنیں کٹوائی تھیں تب جا کر ہم ایک اسلامی ریاست بنا سکے ؛ دوبارہ اس پر غلامانِ انجمن یہود و نصارا مسلط ہو گئی ہے ہمیں ان سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے؛ سبق خلافت کا اپنی نسل کو ازبر کراتے رہا کرو؛ سبق نظامِ مصطفیﷺ کا ان کے ذہنوں میں ڈالتے رہا کرو ، سبق غیرتِ ایمانی اجاگر کرتے رہا کرو ، اپنی نسلوں کو اچھے سے بتلا دو کہ اسلامی ریاست میں ایک دن رسولﷺ کے نام کا پرچم لہرانا ہے، چاہے پھر ہماری ایک نہیں کئی نسلیں قربان ہو جائیں لیکن نظامِ مصطفیﷺ کو نافذ کرنا ہے۔
اے گلستانِ رضوی کے سپوتو
یہ تحریک یہ مشن رضوی بہت عظیم ہے، تم ہر ظلم کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر آج تک فتح یاب ٹھہرے ہو، تم نے وقت کے ہر فرعون کا مقابلہ کیا ہے، تم نے ظالم حکمران کے سامنے حق کا علم بلند کیا ہے، تم نے نسلوں کی بقا کے لیے ہر درد ہر تکلیف کو ہنس کر سہا ہے؛
گزارش ہے اس عظیم مشن پر آخری سانس تک یوں ہی ڈٹے رہنا؛ کیوں کہ تم ہی ہو جو اپنے لہو سے گلستانِ رضوی کو مہکاتے ہو اور خوشی خوشی نعرہ حق لگاتے ہوئے قربان ہو جاتے ہو۔
اپنے کردار و گفتار سے ثابت کر دیجیے کہ اس ویران گلستان میں امید نو بہار لا کر رہیں گے؛ ذاتیات پشت پردہ ڈال دیجیے اور رضوی سفر پر دل و جان سے گامزن ہو جائیے۔ اس مشن کے لیے بابا جی رحمتہ اللہ بہت دشوار اور پُر درد گزر گاہوں سے گزرے ہیں؛ ان راہوں سے کانٹے چنے ہیں نہ کہ مزید کانٹے بچانے ہیں تاکہ منزل کے آشنا سپاہی آسانی سے منزل تک پہنچ سکیں۔
ناامیدی، محرومی، مایوسی، بزدلی اور کم ہمتی وغیرہ نام کی کوئی چیز بابا جی رضوی رحمتہ اللہ علیہ میں موجود نہیں تھی بلکہ یقین محکم، عمل پیہم، بلند حوصلگی اولوالعزمی، ثابت قدمی اور بلند پروازی کا تصور ان کے دماغ میں موجزن تھا۔ اور یہی وہ صفات ہیں جو انسان کو اس کی منزل مقصود تک پہنچاتی ہیں؛ ہمیں ان کے عمل کو خود پر لاگو کرنا ہے۔
اس ظلم کے سورج کو مٹانے کے لیے تم ہی ہو جو اپنا سورج لاو گے؛ تم ایک زندہ و جاوید شریعت و روایت کے چراغ بن کر ابھرو گے؛ جس کے چراغوں کی روشنی کے لیے ایک طویل صبح صادق درکار ہے جس کی مشعل اٹھائے تم ابھی محوِ سفر رہنا ہے۔
تحریر : بنت حسن