معاشرے میں بڑھتے ہوئے باہمی رشتوں کے قتل کے واقعات (وجوہات و اسباب)
Article by Shehla Noor
آئے روز کوئی نا کوئی ایسا واقعہ سامنے آرہا ہے کہ شوہر نے بیوی کو قتل کردیا، بیوی نے شوہر کو قتل کردیا، باپ نے بیٹی کو قتل کردیا یا اولاد نے والدین کی جان لے لی، یا بھائی بہن وغیرہ نے قتل کردیا۔عجیب سی صورت حال ہے۔ حالات اس نہج پر کیوں پہنچ رہے ہیں جو ایک مسلم معاشرے کے شایانِ شاں نہیں، جو اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ اسلام تو وہ مذہب ہے جو ایک جان کے ناحق قتل کو انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے، اسلام تو وہ دین ہے جو جانوروں ، پرندوں ، پودوں تک کے حقوق مقرر کرتا ہے ، جو امن پسند ہے اوربھائی چارے کا درس دیتا ہے ، رشتوں کی ڈور سے باندھنے والا یہ مذہب ان رشتوں کی پاس داری پر زور بھی بہت دیتا ہے، والدین کو اف کہنے سے منع کرنے والے مذہب کے پیروکار آج ان کے ہی درپے ہورہے ہیں، زوجین کو ایک دوسرے کا لباس قرار دینے والے مذہب کے ماننے والے آج اسی لباس کو تارتار کررہے ہیں ، بیٹی کو رحمت الٰہی پکارنے والے مذہب کے دعوے دار اسی بیٹی سے پھر سے بیزار ہورہے ہیں، بہت نازک صورت حال ہے ۔ دور جاہلیت کی یاد تازہ ہوگئی اورنبی محترم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے فرمان کی سچائی سامنے آرہی کہ اسلام آخر میں اجنبی ہوجائے گا جیساکہ شروع میں تھا۔ ان حالات کی متعدد وجوہات میں سے اہم، تعلیمات اسلامیہ سے دوری اور ناواقفیت، عدم برداشت اور قانون کی کمزور گرفت ہے۔
تعلیمات اسلامیہ سے دوری
مسلمان ہونے کے باوجود دین سے ناواقفیت عروج پر ہے۔ حقوق العباد تو دور کی بات ، حقوق اللہ تک کی ادائیگی انتہائی کم ہے۔ مساجد جانا ، دینی مجالس میں بیٹھنا، نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنا وغیرہ ختم ہوتا چلاجارہا ہے۔ دن بھر کی پانچ نمازیں ادا کرنے کی بجائے نماز جمعہ تک خود کو محدود کرلیا گیا ہے ، نماز کے اجتماع سے جو فوائد و ثمرات حاصل ہوتے تھے ساتھ ہی وہ ختم ہورہے ہیں۔ ایک وہ دور تھا کہ لوگ دنوں اور مہینوں کا سفر کر کے ایک مسئلہ پوچھنے جایا کرتے تھے اور آج وہ دور ہے آپ اپنی جگہ پر بیٹھے ہوئی کوئی بھی مسئلہ معلوم کرسکتے ہیں ، دین سے وابستہ افراد ، مسجد و مدارس میں علم کی شمع روشن کرنے والے اشخاص اس کوشش میں ہیں کہ لوگ اپنی زندگیوں کو حکم خدا کے مطابق بسر کریں۔ لوگ آ نہیں سکتے تو آن لائن بہت سے ادارے کام رہے ہیں جو اسلامی تعلیمات گھر گھر پہنچا رہے ہیں ، لیکن پھر بھی اس طرف توجہ کم ہے۔ اور پھر اس کا خمیازہ ایسے واقعات کی وجہ سے ہی بھگتنا پڑتاہے، جب اس بات کا علم ہی نا ہو کہ والدین ، زوجین ، بھائی بہن اور اولاد کے کیا حقوق و فرائض ہیں ، حقوق و فرائض کی ادائیگی کس قدر ضروری ہے، کیا فائدے اور اجر ہیں اور ادائیگی نا کرنے کی صورت میں کیا نقصانات وعیدیں ہیں ، تو پھر کسی بھی رشتے کا پاس نہیں رہتا۔ جو شخص اسلامی احکامات کی معرفت رکھتا ہے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتا ہے اس کے دل میں خوف خدا اور آخرت میں جواب دہی کا جذبہ اسے غلط کاموں سے روکتا ہے۔ آہ تعلیمات اسلامیہ سے دوری اور قوانین اسلام پر عمل درآمدنا ہونے کی وجہ سے معاشرہ اس تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے۔
عدم برداشت
ایک دوسرے کو اور ایک دوسرے کی بات کو برداشت نا کرنے کا رویہ بڑھتا جارہا ہے، انٹرنیٹ کے استعمال نے لوگوں کو نفسیاتی طور پر ایک غیر مرئی قوت کے سحر میں مبتلا کردیا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی وجہ سے ہر بندہ ہی خود کو کُچھ سمجھتا ہے اور کئی تو خود کو عقل کل سمجھتے ہیں۔ لہذاٰ اپنی بات کو سب سے اوپر دیکھنا چاہتے ہیں اور جب ایسا نہیں ہوتا تو وہ ہوتا ہے جو نہیں ہونا چاہیے۔ مختلف گیمر اور ویڈیوز ذہن پر اس قدر گہرا اثر ڈالتی ہیں کہ بندہ ان کی گرفت میں حقیقی زندگی کو بھی ایک فلمی یا ڈرامائی رنگ میں دیکھنے لگتا ہے اور عملی طور پر وہ کرنے لگ جاتا ہے جو وہ گیمز اور ویڈیوز میں دیکھتا اور کرتا رہا ہے ۔ نیز متعدد انتخاب موجود ہونے کی وجہ سے بیوی کو شوہر اور شوہرکو بیوی بھاری محسوس ہونے لگ جاتی ہے اور برداشت کرنا کم ہوجاتا ہے کہ یہ نا سہی تو کوئی اور سہی۔ موبائل فون کے استعمال کی وجہ سے گھر میں موجود ہو کر بھی حاضر نا ہونا ، ایک دوسرے کے ساتھ نا بیٹھنا، نا سمجھنا ہو تو ایک دوسرے کو برداشت کیسے کریں؟ نیز مہنگائی اور دیگر معاشرتی عناصر نے بھی عوام کی برداشت کو تقریباً ختم کردیا ہے ظاہری بات ہے اپنے غصے اور جھنجھلاہٹ کو اپنے سے قریب شخص پر اتارا جاتا ہے اور پھر ایسے واقعات جنم لیتے ہیں جو کہ تشویش ناک ہیں۔
قانونی گرفت کی کمزوری
جب عوام کو اپنے قانون کی کمزوریاں علم میں ہوں کہ بڑے سے بڑے معاملے میں بھی کس طرح خود کو بچایا جاسکتا ہے، جب یہ پتہ ہو کہ پیسہ اورسفارش اپنے حق میں فیصلہ کرواسکتی ہے اور جب یقین ہو کہ قانون بکتا ہے تو کون قانون کو سنجیدہ لے گا؟ جب قانونی ادارے خود ہی اپنا وقار کھو بیٹھیں تو عوام اپنی من مانی کرتی ہی نظر آئے گی۔ اگر فوری اور انصاف پر مبنی فیصلے اور سزائیں سامنے آئیں تو ہی عوام پر بھی اثر پڑے گا۔ اگر اسلامی مملکت میں اسلامی سزائیں نافذ ہوں تو اس کے اثرات فوری معاشرے میں نظر آئیں گے۔
ارباب اختیار سے درخواست ہے کہ عوام الناس کے لیے آگہی مہم چلائی جائے جس میں ان کی اخلاقی تربیت پر توجہ دی جائے، ایسا مواد اور لٹریچر میڈیا پلیٹ فارمز پر شائع کیا جائے جو مثبت رویئے پیدا کرے۔ قانون کا اثر عوام پر نظر آئے یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب قانون کی کمزوریاں دور کرتے ہوئے اس پر عمل درآمد کروایا جائے۔ مجرموں کو فوری اور سخت سزائیں دی جائیں ان کی تشہیر کی جائے تاکہ بقیہ لوگ عبرت حاصل کریں۔ نیز ہم میں سے ہر شخص کو اپنی ذات پر بھرپور توجہ درکار ہے، ہم خود کو اتنا اونچا نا سمجھ لیں کہ سب نیچے نظر آئیں ۔ اگر ہم خود کو سنوار لیں تو بروز قیامت یہ تو کہ سکیں گے ہاں میں نے ایک شخص کی اصلاح کی ہے اور وہ میں خود ہوں۔
تحریر:شہلا نور