پاکستان بنانے کے مقاصد
Article by Yasir Arfat Shah Qureshi Hashmi
پاکستان بننے سے پہلے مسلمانوں کے حالات انگریز جب برصغیر میں آیا تو اس نے تجارت کے بہانے برصغیر پر قبضہ کیا اور سب سے پہلے انہوں نے ہندوؤں کے ساتھ مل کر اس خطے پر اپنے قدم جمائے، ہندوؤں نے بھی اس سے خوب فائدہ اٹھایا اور 1857 کی جنگ آزادی میں جب سب سے پہلا فتویٰ انگریز کے خلاف جہاد کا جنہوں نے دیا وہ “علامہ فضل حق خیرآبادی” تھے اور انہوں نے انگریز کے خلاف جہاد کا علم بلند کیا اور اس جنگ میں نمایاں کردار علمائے کرام کا تھا، جس میں 300 علماء کرام کو توپ کے منہ پر باندھ کر گولے سے اڑا دیا گیا، اس کے علاوہ خاص طور پر مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی اور ہر جگہ مسلمانوں ہی کی لاشیں نظر آتیں، یہ جنگ تو مسلمان نہ جیت سکے لیکن مسلمانوں پر ظلم و ستم اور غلامی کا طوق اور بڑھ گیا۔ مسلمانوں کو تعلیم سے دور رکھا گیا کہ علم حاصل کر کے کہیں انہیں شعور نہ آ جائے اور روزگار کے معاملے میں مسلمانوں کوئی بڑا عہدا نہیں دیا جاتا تھا بلکہ ان کو نچلے لیول پر نوکری دی جاتی، جہاں ان کی ہر وقت سرزنش کی جاتی اور اسکے ساتھ اگر ہم اناج کی طرف آئیں تو اس میں بھی سارا سال ان سے محنت مزدوری کروائی جاتی اور سال بھر کا معاوضہ دینے کی بجائے 6 مہینوں کا اناج وہ بھی وقفے کے ساتھ دیا جاتا تھا، اس مشکل وقت میں اگر کوئی مسلمان اپنے حقوق کی بات کرتا تو اس کو مار دیا جاتا یا پھر اس کو قید کر دیا جاتا اس وقت ایسی شخصیات کی ضرورت تھی جو سب مسلمانوں کو اکھٹا کر کے مسلمان ریاست بنانے اور غلامی کی زنجیر سے نکالتے۔ اب مسلمان ہر طرف سے غلامی کی زنجیروں میں مکمل طور پر جکڑ چکے تھے کوئی امید نظر نہیں آ رہی تھی پھر ایسی شخصیات اللہ کے حکم سے اٹھیں جنہوں نے تاریخ کا رخ بدل کے رکھ دیا اور ان شخصیات میں نمایاں کردار قائد اعظم محمد علی جناح، علامہ محمد اقبال کا ہے اس کے علاوہ پاکستان بنانے کی جدو جہد میں اور بھی افراد ہیں لیکن ان کا کردار سب سے بڑھ کر ہے علامہ محمد اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے سوئی ہوئی امت کو جگایا اور بتایا کہ ہمارا کیا مقصد ہے قائد اعظم محمد علی جناح نے کلمے کی بنیاد پر ان سب کو جمع کر دیا اور بغیر کوئی جنگ کیے صرف لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ﷺ کی بنیاد پر ملک پاکستان حاصل کر لیا۔ اب پاکستان کی جدو جہد ایک وسیع باب ہے جس کے پیچھے انتھک محنت اور درد بھری قربانیاں اور ظلم و ستم کی کئی داستانیں ہیں لیکن بات سوچنے والی یہ ہے کہ مظالم اور کوششوں کے بعد ریاست پاکستان بنائی گئی تھی لیکن ہمارے بہت سارے لوگ اس سے نا آشنا ہیں کہ ریاست پاکستان کن مقاصد کے لیے بنائی گئی تھی پاکستان بنانے کے مقاصد جن سیاست دانوں کو تحریک پاکستان میں قائد اعظمؒ کی قیادت میں کردار ادا کرنے کا اعزاز حاصل ہوا، جن ممتاز افراد کو قائد اعظمؒ سے براہِ راست راہنمائی لینے کا شرف حاصل ہوتا رہا، وہ قیام پاکستان کے مقاصد کی تشریح کرتے ہوئے ہمیں بتاتے ہیں کہ نظریۂ پاکستان کیا تھا حقیقی پس منظر کو سمجھ لینا، ہمارے لئے بہت ضروری ہے، بالخصوص نوجوان نسل تک قیام پاکستان کے مقصد اور اساسی نظریے کے حوالے سے تحریک پاکستان کے راہنماؤں کا یہ پیغام ضرور پہنچنا چاہیے۔۔۔تحریک پاکستان کے ممتاز راہنما، قائد اعظمؒ کے معتمد ساتھی اور قائد اعظمؒ کے حوالے سے ایک انتہائی اہم اور مستند کتاب کے مصنف جناب ابو الحسن اصفہانی کہتے ہیں کہ ’’مسلمان اپنی تہذیب و تمدن کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہتے تھے اور اپنی کھوئی ہوئی شان و شوکت حاصل کرنے کے لئے اپنے لئے الگ وطن کے قیام کے آرزو مند تھے۔ اسلامی جذبے اور مسلم قومیت کا شعور ہی تحریک پاکستان کا اصل محرک تھا۔ ہم ہندوؤں سے الگ قوم تھے۔ہمارا مذہب، ہماری معاشرت اور ہماری تہذیب ہندوؤں سے یکسر مختلف تھی۔ اسی لئے ہم ہندوؤں سے الگ ہو کر ایک آزاد ملک میں ایک آزاد قوم کی حیثیت سے اپنی زندگی گزارنا چاہتے تھے۔ قائد اعظمؒ ایک سچے اور پکے مسلمان تھے، وہ پاکستان میں اسلامی عدل و انصاف پر مبنی نظام قائم کرنا چاہتے تھے۔ قرآن مجید ہمیں معاشی عدل و انصاف کا حکم دیتا ہے۔ یہاں مختصر طور پر دوبارہ دُہرا دیتا ہوں کہ تحریک پاکستان میں ہمارے جوش و جذبہ کے محرک یہ عوامل تھے کہ ہم مسلمان اسلامی نظریے کے مطابق اپنی زندگی بسر کریں گے۔ مسلم قومیت پاکستان کی بنیاد تھی۔ اسلامی جمہوریت اور اسلامی سماجی انصاف ہمارا نصب العین تھا تحریک پاکستان کی ممتاز راہنما بیگم شاہنواز نے قیام پاکستان کے مقاصد کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ ’’ برصغیر کے مسلمان اپنے لئے ایک ایسا گوشۂ عافیت چاہتے تھے، جہاں وہ اسلامی تعلیمات اور روایات کے مطابق خوشحال اور مطمئن زندگی بسر کرسکیں۔ قیام پاکستان کے مقاصد کی تکمیل اسی صورت میں ہوسکتی ہے، جب ہم اپنے قول و عمل اور کردار و اطوار سے دنیا پر یہ ثابت کردیں کہ اسلام پوری انسانیت کا نجات دہندہ بن کر اور دنیا کے ہر انسان کی راہنمائی کے لئے آیا ہے سردار شوکت حیات نے تحریک پاکستان کو پنجاب میں مقبول بنانے کے لئے انتہائی اہم اور موثر کردار ادا کیا تھا۔ پاکستان کے قیام کا مقصد بیان کرتے ہوئے انہوں نے دوٹوک انداز میں کہا تھا کہ ’’قائد اعظم پاکستان کو صحیح معنوں میں ایک اسلامی اور رفاہی مملکت بنانا چاہتے تھے اور وہ اس حوالے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور کے نظام حکومت کے تصور کو ایک مثال کے طو ر پر پیش کرتے تھے۔ قائد اعظمؒ کہا کرتے تھے کہ خلافت راشدہ کے طرزِ حکومت میں نسلی وراثت اور شخصی آمریت کی گنجائش نہیں تھی قائد اعظمؒ کے افکار و ارشادات کی روشنی میں یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ پاکستان اسلام کی خاطر حاصل کیا گیا تھا اور اسلام میں معاشی مسئلے سمیت ہمارے تمام مسائل کا حل موجود ہے۔ جو لوگ قائداعظمؒ کے افکار و تعلیمات سے واقف ہیں۔ انہیں علم ہے کہ قائداعظمؒ پاکستان میں کوئی ایسا نظام نافذ کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے، جو نظریۂ پاکستان کے منافی ہو، یعنی اسلامی تعلیمات سے متصادم ہو۔ قائد اعظمؒ اور ان کی عظیم بہن محترمہ فاطمہ جناحؒ ہمیشہ اسلامی سوشل جسٹس کی ترکیب استعمال کیا کرتے تھے۔ سردار شوکت حیات نے یہ بھی فرمایا کہ ’’ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت عوام کے ذہنوں سے نظریۂ پاکستان کو نکال کر مادہ پرستی کے تصور کا زہر بھرا جارہا ہے اور لوگ قیام پاکستان کے اصل مقاصد کو بھول کر دولت کے پیچھے بھاگنے لگے ہیں۔ اس سازش کی سب سے بڑی شکار نئی نسل ہوئی ہے۔ میری یہ دیانت دارانہ رائے ہے کہ جب تک نوجوان نسل کو نظریۂ پاکستان کے بارے میں آگہی نہیں ہوگی اور وہ حصولِ پاکستان کے صحیح محرکات کو جان نہیں سکے گی تو وہ ملک کی سالمیت اور بقا کا حق ادا نہیں کرسکے گی تحریک پاکستان کے رہنماؤں کی زبانی قیام پاکستان کے مقاصد کو بیان کرنے سے میرا مقصود یہ ہے کہ ہمارا نشان منزل کبھی ہماری نظروں سے اوجھل نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا راز بھی اس بات میں مضمر ہے کہ ہم اس نظریے کو فراموش نہ کریں، جو ہماری آزادی کا سب سے بڑا محرک اور آج بھی ہماری بقاء اور سلامتی کا ضامن ہے۔ قائد اعظمؒ نے مارچ 1944ء میں اپنی ایک تقریر میں ارشاد فرمایا تھا کہ ’’تصور پاکستان ہم مسلمانوں کا عقیدہ بن چکا ہے کیونکہ یہ ہماری نجات اور حفاظت کا مسئلہ ہے۔ پاکستان وہ ملک ہوگا، جہاں سے پوری دنیا کو یہ پیغام جائے گا کہ یہ مملکت اسلام کی عظمت گزشتہ کو ازسرِنو زندہ کرے گی‘‘۔ اسلام صرف نعروں سے نافذ نہیں کیا جاسکتا اور اسلام کو نافذ کرکے ہی جب ہم پاکستان کو ایک عادلانہ اور منصفانہ معاشرتی اور معاشی نظام کے ماڈل کے طور پر پوری دنیا کے سامنے پیش کریں گے، صرف اسی صورت میں اسلامی نظام کی تمام تر رعنائیوں اور خوبصورتیوں کو دوسروں سے متعارف کروا سکتے ہیں۔ پاکستان کی صورت میں مسلمانوں کے لئے علیحدہ مملکت کے قیام کا واحد جواز ہی یہ تھا کہ ہم ایک آزاد مملکت میں اپنی اسلامی آئیڈیالوجی پر عمل کرسکیں۔ اس حوالے سے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور علامہ محمد اقبالؒ کے افکارو تعلیمات سے بھی تائید و تصدیق کی جاسکتی ہے کہ مملکتِ پاکستان کا مقصد محض ایک علاقے کا حصول نہیں بلکہ اس کا مقصود اسلامی آئیڈیالوجی اجتماعی طور پر نافذ کرنا تھا۔ اسلامی تصورات اور اصولوں پر اگر ہم عمل کریں تو دہشت گردی، معاشرتی اور معاشی مسائل کے ناسور سے بھی نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ جب اسلام کے ضابطۂ حیات اور اس کی روایات پر اس کی حقیقی روح کے مطابق عمل کریں گے تو پوری دنیا کو ایک مثبت پیغام جائے گا کہ اسلام وہ نہیں ہے جو مغرب پیش کرتا ہے بلکہ اسلام وہ ہے جو تمام عالم کے لئے ایک رحمت بن کر آیا تھا اور آج تک رحمت بنا ہوا ہےتحریر: یاسر عرفات شاہ قریشی ہاشمی
Masha’Allah bahout ala
Aap k es mission ko Allah Paak kamyaab frmay
Aap ny bri sanjedgi sy es nukta e nazir pa roshni dali