“مستقبل کو خوشگوار بنانے کا راز”

Article by Kaneez Qadria
ہم مستقبل کو کیسے خوشگوار بنائے تو اس کے لیے ہم سب سے پہلے بات کریں گے، دماغ کے بارے میں، انسان دماغ سے ہی سوچتا ہے اور دماغ سے ہی سوچ کر ہر کام کو انجام دیتا ہے تو اس کی مثال یوں ہے کہ انسان کا دماغ اس باغ کی طرح ہے کہ جس کی شادابی اور بربادی باغبان کے قبضے میں ہوتی ہے اگر باغبان چاہے تو ویران کو گلزار بنا سکتا ہےاور اگر اس کی پرواہ نہ کرے تو باغ کی سر سبزی اور شادابی چند روز میں تباہ ہو جائے گی اور باغ ویران ہو جائے گا اور اگر ہم لوگ اس باغ میں عمدہ پودے نہ لگائیں تو قدرتی طور پر گھاس اور روکھی سی جھاڑیاں پیدا ہو جائیں گی جو باغ کی خوبصورتی کو تباہ اور برباد کر دے گی جس طرح ایک ہوشیار باغ بان اس روکھی اور مرجھائی ہوئی گھاس سے باغ کو صاف کرتا ہے اور اس میں اچھے اور بہت پیارے اور خوبصورت پودے لگاتا ہے جو باغوں میں پھلوں اور پھولوں کا اضافہ کرتا ہے، اس طرح ایک سمجھدار انسان بھی اپنے دماغ کو لغو اور بیہودہ خیالات سے پاک رکھے اور ہمیشہ ایسی باتیں سوچے جو اس کی زندگی کو بہتر بنائے تو اس طرح کے خیالات اور باتوں سے انسان اپنے مستقبل کو خوشگوار بنا سکتا ہے
دنیا میں ہم ایسے ہزاروں لوگوں کی مثالیں سنتے ہوئے آ رہے ہیں یا بہت سی موجود ہے کہ بہترین دماغ کے انسان دماغ کی طرف سے لاپرواہی اختیار کرنے کی وجہ سے اور اس دماغ کا غلط استعمال کرنے کی وجہ سے پستی کی طرف چلے جا رہے ہیں اور ان کے دماغ برے خیالات اور بری باتوں سے آلودہ ہوچکا ہے اور دل گناہ کر کر کے سیاہ ہو چکا ہے جس کی وجہ سے نہ اس پر کوئی اچھی بات اثر کرتی ہے اور نہ وہ خود اچھی بات کر سکتا ہے
تو اس پتا چلا کہ انسان کا دماغ کہ غلط استعمال کرنے سے کتنا نقصان ہوتا ہے اور اگر اس کی دماغ کو اچھا استمعال کریں اور قوت اور پختہ ارادے اور بلند حوصلے کے ساتھ ہر کام کو سر انجام دے تو وہ جو چاہیں کر سکتا ہے
تو اب ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ دماغ کو کیسے اچھے طریقے سے استعمال کیا جائے؟
تو اس کا جواب ہمیں ایسے ملتا ہے کہ ہم اپنے خیالات اور سوچ کو بدلیں کیونکہ انسان کے خیالات ہی اس کے مستقبل کو روشن کرنے میں کس قدر کام آتے ہیں اور وہ خیالات اس کی زندگی میں کامیاب ثابت ہوتے ہیں تو ہمارے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے خیالات کو ہمیشہ بلند رکھے اور اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کرے کیونکہ جب انسان کے اندر خود اعتمادی یعنی خود پر بھروسا کرنے کی قابلیت نہیں ہوگی تو وہ کیسے اپنی زندگی کو خوشگوار بنا سکیں گے اور پھر اس طرح کرنے سے وہ کامیابی کی منزل تک نہیں پہنچ سکیں گے، تو ہمارے نوجوانوں کو چاہیے کہ اپنے دماغ کے باغ کو ویران ہونے سے بچائیں اور اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کرے اور اپنے خیالات کو بلند رکھے کیونکہ خیالات کی جزباتی قوت کا مقابلہ دنیا کی کسی شئے سے نہیں کیا جاسکتا
یہ وہ شعلہ ہے جو ترقی کی مشعل کو روشن کرتا ہے کیونکہ خیالات ایسی کنجی ہے جو دل کہ اور ذہن کے قفلوں کو کھول دیتی ہے اور یہی وہ طاقت ہے جو بڑی سے بڑی قوتوں پر حکمرانی کرتی ہے یہی وہ قوت ہے جس کے باعث انسان اپنے وسیع ترین اور حوصلہ افزاء ارادوں کے حیرت انگیز نتائج سے بہرہ اندوز ہو جاتا ہے اور اپنا نام ہمیشہ کے لیے روشن کر جاتا ہے
اگر ہم اپنی زندگی کا بغور محاسبہ کرے تو ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ ہماری زندگی کہ زیادہ تر لمحات بے عنوانی اور غفلت کے ساتھ بیکار اور ضائع ہو جاتے ہے اسی طرح ہر خیال میں کوئی نہ کوئی جذبی کیفیت بھی ضرور ہوتی ہے اب یہ فیصلہ ہمارے اوپر ہے کہ ہم کس چیز کو چنتے ہیں اور اپنے خیالات کو کیسے ابھارتے ہیں اس طرح مستقبل کو اچھا بنانے کے لیے وقت کی ضرورت ہے اپنے قیمتی لمحات کو کیسے گزارتے ہیں جس قدر ہم وقت کو ناکامی کو ظھور میں لانے کے لیے ضائع کرتے ہیں اسی طرح ان لمحات کو اگر اہم کاموں کے لیے صرف کریں تو ہم کامیاب ہو سکتے ہے پھر کیا وجہ ہے؟ ہم کہاں گم ہیں؟ ہمارا دل اور دماغ کہاں ہے؟ کہ ہم ان خیالات پر متوجہ نہیں ہورہے تو ہم اپنے ذہن میں عزم و استقلال و ہمت اور خود اعتمادی کے خیالات کو تقویت دے اور ان کے جذباتی تاثرات کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کریں تو پھر آگے کوئی وجہ ہی نہیں رہتی کہ ہم نا کام ہیں ہم کامیاب نہیں ہو سکتے، اگر ہم اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں مستقل ارادے کا آدمی بننا چاہیے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم مخالف خیالات کو قریب نہ آنے دیں تاکہ ہمارے خیالات مضبوط اور اچھے ہو جائیں اور ہم کامیاب ہو جائیں
اب ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کامیابی کیسے حاصل ہو؟ اگر وہ مخالف حالات کا مقابلہ کرنے کے بجائے اچھے خیالات کا مقابلہ کرتا ہے اور اس نے جب کوشش کرنا شروع کر دی تو قدرت خود اس کے راستے کو صاف کر دیتی ہے اور وہ کامیاب ہو جاتا ہے اگر ہم کوشش کریں تو ہم ضرور کامیاب ہونگے مخالف حالات سے گھبرانا نہیں چاہئے بلکہ ان کا مقابلہ کر کے انہیں اپنی موافقت پر لانے کی کوشش کرنی چاہیے
مثبت سوچ سے ہم اپنے آنے والے کل کو خوبصورت بنا سکتے ہیں اورایک خوشگوار مستقبل کو خوش آمدید کہہ سکتے ہے جو ہماری آنے والی نسلوں کے لیے بھی خوشگوار ہوگا
ان شاء اللہ
ناکامیابی سے نہ گھبراؤ کیونکہ ستارے ہمیشہ اندھیرے میں چمکتے ہیں
تحریر: کنیز قادریہ