یاد مدینہ

Article by Abrish Noor
میں اپنے درد مدینے والے کو سناؤں گی
کبھی کبھی دل کرتا ہے دکھوں کی پوٹلی اٹھاؤں اور مدینے چلی جاؤں، وہاں کے ذرے ذرے کو اپنے ہاتھ سے اٹھا کر چوموں، وہاں کی مٹی اپنے چہرے پر مل لوں، محبوب کے در پر بیٹھی بلیوں کے پاؤں چوموں اور مسجد نبوی ﷺ کے صحن میں بیٹھ جاؤں اور مدینے والے کا تصور کروں اور اتنا روؤں اتنا روؤں، رو رو کر ہلکان ہو جاؤں۔ روتے روتے سو جاؤں اس چوکھٹ پر کہ اتنے میں قمست جاگ جائے اور تمام دکھیوں، مجبوروں، محتاجوں، درد مندوں، کے تاجدار کائنات مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائیں وہ کالے سیاہ بال مبارک جیسے گویا چاند گھنے بادلوں میں ہو، وہ خوبصورت آنکھیں، پلکیں، ابرو مبارک، جسکی کوئی مثال نہیں ملتی، آپ کے قدموں کے حسن پر فدا جاؤں، آپکی ایڑیوں سے نکلنے والی روشنی میری آنکھوں میں پڑے میں تڑپ کر اٹھوں اور نظریں ان قدمین مبارک سے آگے بڑھنے کی جسارت نہ کریں۔ دل مچل جائے، تڑپ بڑھ جائے کہ دیکھوں مدینے والے کے چہرہ انور کو مگر میری آنکھیں میرا ادب جواب دے جائے میں قدموں کے حسن سے نہ نکل سکی تو چہرہ کیسے دیکھوں یہ سوچ کر دو زانوں ہو کر بیٹھ جاؤں، ادب ایسا ہو کے زمین اور سر کے درمیان ایک بالشت کا فاصلہ رہ جائے، آپ فرمائیں اے دکھوں کی ماری دردوں کی ماری بتا تجھے کس چیز نے تھکا دیا، کس درد نے اتنا رلایا ہے میری آنکھوں میں ایک سیلاب اتر آئے اور ہچکیاں بندھ جائیں، عرض کروں یارسول ﷲﷺ
میرے ماں باپ آپ پر قربان
زبان سے کیا میں کہوں آپ سے چھپا کیا ہے
بس آپ جانتے ہیں دل کا ماجرا کیا ہے
میرے اندر کے زخموں کو آپ جانتے ہیں، کانٹوں بھرے رستوں پر چلتے چلتے پاؤں زخمی ہوچکے ہیں، دل چھلنی ہوگیا ہے، یارسول ﷲﷺ مجھے کسی چیز کی تمنا نہیں، ایک عرض ہے اپنی غلامی میں قبول فرمائیں یارسول ﷲﷺ زندگی گناہوں میں گزری، یارسول ﷲﷺ یہ دل آپکا وفادار رہا ہے ہمیشہ، میں درد سناتی رہوں وہ سماعت فرماتے رہیں کہ اچانک آنکھ کھل جائے اور خود کو مسجد نبوی کے صحن میں پاؤں ایک نگاہ ڈالوں روضہ انور پر آنسووں سے بھیگا چہرہ صاف کرنے کی بھی مہلت نہ ملے اور میری روح پرواز کر جائے
دیکھنے والے جب میرے قریب آئیں میرے ہاتھ میں پڑا رقعہ کھول کر دیکھیں اور پڑھیں۔
یہ مانا کے اک دن آنی قضا ہے
مگر دوستو تم سے یہ التجا ہے
کہ شہر محمد ﷺ کی ہر اک گلی میں
جنازہ اٹھانا گھماتے گھماتے
تحریر؛
ابرش نور