تعلیمی اداروں میں تربیت کا فقدان
Article By Hiba Sharazi
(تعلیم ہے مگر تربیت نہیں)
عصرِ حاضر کی مائیں نہایت ہی آسانی سے یہ جملہ کہہ کر اپنی جان چھڑا لیتی ہیں کے آج کے دور کے بچے نہیں اچھے, مگر بات اس کے اُلٹ ہے وہ اپنی کمزوری کو چھپاتے ہوئے یہ دلیل بڑی آسانی سے بیان کر دیتی ہیں کہ ہم تو اپنے سارے فرائض بخوبی سر انجام دے رہے ہیں مگر بچے نہیں اچھے.
جب ماؤں کی مصروفیات بچوں کی تربیت کے بجائے موبائل فون پر سارا دن لگے رہنا, ٹیلی ویژن پر سٹار پلس کے ڈرامے دیکھتے دن گزارنا, بازاروں میں شاپنگ کرنے بغیر حجاب کے جائیں گی تو پھر بچوں کی نہیں ماؤں کی تربیت پر سوالیہ نشان اُٹھتا ہے؟
دورِ حاضر میں مائیں اپنے بچوں کے سکول میں داخلے سے پہلے یہ تسلی کرنا چاہتی ہیں اور تسلی کے لئے نہایت پریشان بھی دیکھائی دیتی ہیں کہ ہم اپنے بچے کا داخلہ ایسے سکول میں کروائیں جو بنیاد اچھی بنائیں مگر ان نادان اور نا سمجھ ماؤں کو کون سمجھائے کے بچے کی بنیاد بنانا سکول کا نہیں ماں کا کام ہے,
“ماں دی شان” پنجابی کلام میں کسی نے کیا خوب کہا ہے:
ماں دی گود اے درس گاہ پہلی
جِتھوں زندگی دا نصب العین بن دا اے
جِتھوں داتا, خواجہ, فرید بن کے دُکھی دلاں دے واسطے چین بن دا اے
جے ماں شرم و حیاء دی ہوے پیکر
فیر پُتر وی غوث الثقلین بن دا اے
جو تربیت بچے کی ماں کرتی ہے وہ اور کوئی بھی نہیں کر سکتا, جو وقت بچے کا ماں کی گود میں پرورش پانے کا ہوتا ہے اس وقت میں مائیں بچوں کو ڈائپر پہنا کر انکو روتا دھوتا سکول والوں کے سپرد کر آتی ہیں کہ آپ جانیں اور بچہ جانے, ہم تو اچھے اور مہنگے سکول میں داخلہ کروا کر اپنا فرض ادا کر چکے ہیں.
جس ماں نے پیدا کیا جس کا فرض ہے پرورش اور تربیت کرنا وہ نہیں تیار تربیت کرنے کو اس عمر میں جو عمر, جو وقت بچے کا ماں کے پاس رہنے کا ہے اس وقت میں بچے کو سکول والوں کے سپرد کر دیا اور پھر سکول والوں سے اُمید رکھنا کے وہ ہمارے بچوں کی اچھی تربیت کریں گے, ان کو اچھا انسان بنا کر ہمیں دیں گے تو یہ سوائے بیوقوفی کے اور کچھ بھی نہیں.
سمجھ سے بالا تر بات اور سوالیہ نشان یہ ہے کہ ہم واقعی بیوقوف ہیں یا بیوقوف بننے کی اداکاری کر رہے ہیں؟
کیا واقعی ہمارے تعلیمی ادارے اس قابل ہیں کے ہم ان پر اتنا بھروسہ کرنے پر تیار ہو گئے ہیں کہ خود سے زیادہ یقین ان پر ہے جو زیادہ پیسے لے کر ہمارے بچے کی اچھی تربیت کریں گے جن کا مقصد صرف اور صرف پیسہ کمانا ہے جہاں تعلیم صرف اور صرف برائے نام ہے جہاں آئے دن کسی نا کسی طریقے سے پیسے بٹورنے کا ذریعہ بنایا ہوا ہے یہ کیا ہمارے بچوں کی تربیت کریں گے؟
بچے اگر خراب ہو جائیں تو ان کو ٹھیک کیا جا سکتا ہے مگر جہاں مائیں خراب ہو جائیں تو پھر نسلیں تباہ ہو جاتی ہیں, معاشرے ترقی کے بجائے پستی کی طرف چلے جاتے ہیں اور ہمارے معاشرے کی زوال پذیری کی اصل وجہ یہی ہے کہ ہماری ماؤں کی ترجیحات اپنی اولاد کی تربیت کے بجائے اپنی فضول خواہشات ہو گئی ہیں, جس پر وہ بڑی آسانی سے یہ اس جملے کی چادر چڑھا دیتی ہیں کے آج کل کے بچے نہیں اچھے, جو ماں خود گانے سنتی ہو وہ اپنے بچے کو کیسے گانے سننے سے منع کرے گی؟ جو ماں خود سر پر دوپٹہ نہیں لیتی وہ بیٹی سے یہ کیسے کہے گی کے بیٹی سر پر دوپٹہ لیا کرو؟ جو ماں خود ٹی وی ڈراموں کی شوقین ہو گی وہ اپنے بچوں کو کیسے دین کی تعلیمات سے آگاہ کرے گی؟
وہ کیسے اپنے دین کی محبت اپنے بچوں کے دلوں میں پیدا کرے گی؟
بچوں کی تربیت سکول کا کام نہیں سکول صرف اور صرف تعلیم حاصل کرنے کے لئے ہیں مگر معذرت وہاں اب وہ بھی میسر نہیں.
تربیت کی ضرورت بچوں کو نہیں ماؤں کو ہے
پہلے انکی تربیت ہونی چاہیئے جب ماں دین دار ہو گی تو پھر ہمیں اپنے بچوں کی تربیت کے لئے سکولوں کی ضرورت نہیں ہو گی.
تحریر: حِبا شیرازی