سانحہ سیالکوٹ اور تحریک لبّیک پاکستان
Article By Maria Ibadat Awan
آج بات کرنی ہے سانحہ سیالکوٹ کی جس میں نذر آتش کیا جاتا ہے ایک زندہ انسان کو اور مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے تحریک لبّیک پاکستان کو۔
کیوں؟
کیونکہ اسے نذر آتش کرنے والوں کی زبان پر مشہور زمانہ نعرہ ہے
“لبّیک یارسول اللّٰہﷺ”
مقام افسوس ہے ان کیلئے جو اپنے ذاتی مقاصد میں استعمال کرتے ہیں دین اسلام کو شریعت محمدیﷺ کو.
اور دین کو اتنا لاوارث سمجھ لیتے ہیں کہ جہاں کہیں اپنے نفس کی تسکین کرنی ہو، اپنی انا کو راحت پہنچانی ہو، لے لو دین کا نام کون پوچھنے والا ہے
اور یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہوا کہ دین کے نام کو استعمال کیا گیا۔
چاہے پھر وہ مشال خان سے ذاتی بغض ہی کیوں نہ ہو لیکن گستاخ رسولﷺ کا لیبل لگا کر اسے مشتعل ہجوم میں مار دیا جائے اور یہاں پر بھی دین کے نام کو استعمال کیا جائے،
پھر چاہے وہ سانحہ سیالکوٹ ہی کیوں نہ ہو جہاں ایک غیر ملکی منیجر کو ذاتی رنجش کی وجہ سے زندہ نذر آتش کیا جائے لیکن دین کا لبادہ اوڑھ کر، سوال یہ ہے کہ
ہمیشہ مذہب کو ہی کیوں نشانہ بنایا جاتا ہے؟
سانحہ سیالکوٹ میں مشتعل ہجوم نے ایک زندہ انسان کو نذر آتش کیا اور نعرے بلند کیے
“لبّیک یارسول ﷺ”
اس نعرے کی بنیاد پر اس ظلم کا کھاتہ لبّیک پاکستان پر ڈال دیا گیا
کیوں؟
اس لیے کہ تحریک لبّیک پاکستان والے لبّیک یارسول اللّٰہﷺ کا نعرہ ہر آن لگانے والے ہیں،
لیکن یہ نعرہ صرف تحریک لبّیک پاکستان کا تو نہیں ہے یہ نعرہ ہر اس مسلمان کا ہے جس نے کلمہ رسول اللهﷺ کا پڑھا ہے
اس نعرے کے داعی تو بہت آئے لیکن جہاں اپنی ذات پہ خوف محسوس کیا، جہاں یہ احساس اُجاگر ہوا کہ دولت شاہی ہاتھوں سے نہ نکل جائے وہیں اس سے منحرف ہو گئے۔
واہ رے تمہاری طرز منافقت۔۔!
لیکن اس نعرے کو ہر آن لگایا، موت میں بھی، حیات میں بھی، آندھی میں بھی، طوفان میں بھی، حالت امن میں بھی اور حالت جنگ میں بھی، فیض آباد کی یخ بستہ ٹھنڈی راتوں میں بھی، آنسو گیس میں بھی، شیلنگ کھاتے ہوئے بھی سٹریٹ فائر سے سینے چھلنی کرواتے ہوئے بھی یتیم خانہ چوک سے لے کر وزیر آباد آنے تک بھی
اگر لگایا ہے تو صرف تحریک لبّیک پاکستان والوں نے.
اور ان پر الزام لگایا جاتا ہے ایک انسان کو نذر آتش کرنے کا،
ہم گستاخ رسولﷺ کے بارے میں سخت سے سخت موقف کے قائل ہیں لیکن وہ حقیقتاً گستاخ رسول ﷺ ہو تو پھر اسے واصل جہنم کرنے والے کو ہم آنکھ کا تارا بنا کر رکھتے ہیں۔ ذاتی عناد کی بنیاد پر کسی انسان کو زندہ نذر آتش کرنے والا عاشق رسول ﷺ نہیں ہو سکتا۔
اگر ہو وہ گستاخ رسولﷺ کو واصل جہنم کرنے والا تو پھر ہم اس کو اپنے سر کا تاج بنا کے رکھتے ہیں بعد شہادت بھی اسے یاد رکھتے ہیں اور اس کے مزار پر دیے روشن تا حیات رکھتے ہیں، اسے ملک ممتاز قادری کے نام سے ہمیشہ دلوں میں آباد رکھتے ہیں مگر ہو گستاخ رسولﷺ کو واصل جہنم کرنے والا۔
یہ شیطانی چالیں یہ منافقانہ طرز روایات ہمیں مٹا نہ پائے گا۔
تم چلو سو چالیں پر میرے رب کی خفیہ تدابیر کے آگے سب ہیں زیر۔
بہت کوششش کی سیاسی و سماجی مخالفین نے سانحہ سیالکوٹ میں تحریک لبّیک پاکستان کو پھسانے کی مگر میرا رب کبھی جھکنے نہیں دے گا انشاء الله۔
بابا جی فرماتے ہیں
مالک کدی گنڈ نہیں لگن دیندے
تحریک لبّیک پاکستان سانحہ سیالکوٹ کی بھرپور مذمت کرتی ہے۔
ہم اس طرح انسانیت کی تذلیل کے مخالف ہیں، اقلیتوں کے حقوق کے حامی ہیں،
ہم تو قانونی راستوں کو اپنانے والے ہیں، ہمارا قائد سات ماہ جیل اس لیے کاٹ کر آتا ہے کہ قانون کے راستے ہی باہر آؤں گا
وہ کس طرح ایک انسان کو نذر آتش کرنے کا کہہ سکتے ہیں؟
ہم دین اسلام کے داعی ہیں اور اسلام تو اتنا خوبصورت مذہب ہے جو اپنے ماننے والوں کو تو عزت و سربلندیاں عطا کرتا ہے ساتھ ساتھ اقلیتوں کو بھی ان کے حقوق مکمل ضابطہ کے ساتھ فراہم کرتا ہے۔
سانحہ سیالکوٹ پر یہ سن کر افسوس ہوا کہ بغیر کسی تحقیق کے اس کا الزام تحریک لبّیک پاکستان پر ڈالا گیا،
غیروں سے کیا گلہ جب اپنی ہی آستینوں میں سانپ چھپے ہوں
ہمیں افسوس ہے اور بہت ہے ایک جان کے جانے کا اور ناحق جانے کا مگر
یہاں تو سب کو اسلام کی انتہا پسندی یاد آ گئی لیکن یہ انتہا پسندی تب کہاں مردہ پڑی تھی
جب برما میں مسلمانوں کو کبابوں کی طرح بھونا جا رہا تھا، تب کہاں تھی جب دو حفاظ قرآن کو جن کے سینے کلام الہی سے جگمگا رہے تھے انھیں زندہ آتش نذر کیا جا رہا تھا، تب کہاں تھی جب کینیڈا میں پورے مسلمان خاندان پر ٹرک چڑھا کر انھیں صفحہ ہستی سے مٹایا جا رہا تھا۔
تب کہاں تھی جب فلسطین میں مسلمانوں کے بچوں کو یتیم کیا جا رہا تھا، ان کی عورتوں کو بیوہ کیا جا رہا تھا معصوم کلیوں کو مسلا جا رہا تھا، بنت حوا کی سر بازار توہین کی جا رہی تھی تب کہاں تھی جب شام کی بچیاں کسی صلاح الدین ایوبی اور محمد بن قاسم کی راہیں تک رہی تھیں۔
لیکن یہ تو سب ہوا ہے ان کے ساتھ جو تھے کلمہ گو، جرم تھا مسلمان ہونا، شریعت محمدیہﷺ کا پاسدار ہونا، عظمت مصطفیٰﷺ کا محافظ ہونا لہذا ہونے دو جو ہوتا ہے۔
اختتام کروں گی اس بات پر کہ تحریک لبّیک پاکستان ایک پرامن جماعت تھی ہے اور ہمیشہ رہے گی ان شاء اللّٰہ عزوجل
یہ جماعت بریانی کی پلیٹوں کے عوض وجود میں نہیں آئی
یہ جماعت فیض آباد کی ٹھنڈی ہواؤں میں سیدھی گولیاں کھا کے آٹھ لاشے اٹھا کے، ہزاروں زخمی کروا کے، دین اسلام کا پرچار کر کے، ناموس نبیﷺ کی محافظ بن کے، اپنے بچوں کو یتیم کرا کے، نبیﷺ کی ناموس پر جان دے کے وجود میں آئی ہے اس کو مٹانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے.
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بارکر چکا ہے تو امتحاں ہمارا
تحریر: ماریہ عبادت اعوان