سوئی ہوئی اُمت اور امیر المجاھدین کا کردار

Article By Yasir Arfat Shah
ایک وقت تھا جو دین کے پہرے دار تھے وہ دین کے ٹھیکے دار بن چکے تھے اس وقت ہر طرف سے گستاخیاں ہو رہی تھیں لیکن کسی کی اس اہم مسئلہ پر توجہ نہ تھی۔
وہ لوگ جن کو اپنے مذہبی معاملات میں ہماری عوام رہنما سمجھتی تھی وہ کہیں پر اپنی گدیاں بچا رہے تھے تو کہیں پر وہ بڑے بڑے پیر اپنے مریدوں پر فخر کرتے تھے لیکن اس وقت ناموس رسالتﷺ کے معاملات سے یہ بڑی شخصیات پیچھے ہٹ گئیں۔
لیکن وہ رب اپنے نبیﷺ کی عزت کے بارے میں بڑا غیرت مند ہے۔
اور اس وقت رب تعالیٰ نے ایک ایسے آدمی کو اس کام کے لیے منتخب کیا، جس نے حضورﷺ کی عزت و ناموس کا مسئلہ پوری امتِ مسلمہ میں اجاگر کیا اور یہ باور کروایا کہ اس سے کروڑوں مسلمانوں کی دل آزاری ہوتی ہے۔
اس وقت ایک آپ کی آواز دنیا میں اس مسئلہ پر گونج رہی تھی ، پھر اللّٰہ پاک نے اپنے نبی ﷺ کی عزت و ناموس کا کام ویل چیئر پر بیٹھے ایک باباجی سے لے لیا اور اس محترم شخصیت کا نام “امیر المجاھدین علامہ خادم حسین رضوی رحمتہ اللّٰہ علیہ” ہے۔
ملکی صورتحال:–
اُس وقت ملک میں تفرقہ بازی ایک اہم پہلو سمجھا جاتا تھا اور لوگ ایک دوسرے سے فرقہ بازی کی وجہ سے دور ہوتے جارہے تھے۔ آئے دن کوئی نا کوئی ایسا واقعہ ہوتا جو فرقہ بازی کو ہوا دیتا اور جو لڑائی جھگڑے کا ذریعہ بن جاتا تھا لیکن اُس وقت ان کو متحد کرنے والی کوئی ایسی شخصیت نہ تھی۔
اور دوسرا یہ کہ ہمارے لوگ لسانی اور قومی طور پر بھی دست و گریباں تھے۔ ہمارے صوبوں
کے لوگ اپنے اپنے حقوق کی جنگ کا کہتے اور اس جنگ میں ہمارے لوگوں کو ملک کے خلاف استعمال کیا گیا. نتیجتاً بلوچستان، پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات ایک معمول بن گئے اور ملک میں امن و امان کی صورتحال میں اضطرابی کی کیفیت تھی۔ پھر ہماری افواج نے آپریشن کیے اور اپنے ملک اور اسلام کی خاطر قربانیاں دیں جس سے کچھ نہ کچھ ملکی امن و امان کی صورتحال میں فرق آ گیا۔
اس کے علاوہ پھر بھی ہماری جو نوجوان نسل تھی ان کی رہنمائی کرنے والی ملک میں ایسی کوئی شخصیت نہیں تھی، وہی نوجوان جو اسلام اور مملکت کا سرمایہ ہوتے ہیں وہ بے حیائی اور برے کاموں میں برباد ہو رہے تھے ناچ گانے، غیر شرعی کام کرنا ان کا ایک معمول بن چکا تھا۔
آپ کی حق گوئی کی وجہ امیر المجاھدین کا لقب:–
پھر ویل چیئر پر بیٹھے باباجی اٹھے جنہوں نے سب سے پہلے ناموسِ رسالتﷺ پر آواز بلند کی اور ابتدا ہی میں آپ قید و بند کی تکالیف برداشت کیں لیکن اسکے باوجود بھی اس مشن سے پیچھے نہ ہٹے۔ آپ اپنی حق گوئی کی وجہ سے اس وقت زمانے میں ایک الگ حیثیت رکھتے تھے۔ آپ زندگی بھر کسی طاقت سے مرعوب نہیں ہوئے۔ اپنے ہوں یا پرائے، وقت کا حاکم ہو یا پھر کوئی عالم، کفر کا کوئی لیڈر ،کوئی نامی گرامی پیر ہو یا مرید، عالمی شہرت یافتہ نعت خوان ہو یا اپنا کوئی کارکن سب کی برملا اصلاح فرمایا کرتے تھے۔ ایک سچا عاشقِ رسول ﷺ ہونے کی حیثیت سے آپ نے کھل کر عقیدۂ ختمِ نبوت ﷺ پر بات کی اور آپ نے ایک نیا نعرہ “تاجدارِ ختمِ نبوتﷺ، زندہ باد زندہ باد زندہ باد” اور “لبیک یا رسول اللّٰہﷺ” دیا۔ اسی بے باکی اور سچائی کی بنیاد پر آپ کو “امیر المجاھدین” کا لقب دیا گیا۔
آپ اپنے مدلل اور پر اثر خطابات کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہو گئے۔ آپ کی شخصیت کو سوشل میڈیا، مغربی کلچر اور انڈین میڈیا نے دنیا میں شدت پسندی کے ساتھ جوڑ دیا۔
قبلہ امیرالمجاھدین علیہ الرحمہ نے ساری زندگی اپنی ذات پر کیے جانے والے اعتراضات کے، منفی تاثر کو زائل کرنے کی کوئی کوشش نہیں فرمائی، نہ آپ نے زندگی بھر اپنے کارکنان سے کوئی اپنی ذات کے لیے نعرہ نہیں لگوایا بلکہ یہ بات آپ رحمتہ اللّٰہ علیہ اکثر فرمایا کرتے تھے:–
“نعرے ہمیشہ مالکوں کے ہوتے ہیں کتوں کے نہیں۔”
آپ نے ہر جگہ پر حضورﷺ کی عزت و ناموس کے مسئلے کو اولین ترجیح دی۔ آپ نے اپنی تقریروں میں اس موضوع کو باربار اجاگر کیا۔ آپ کی خطابت کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کی زندگیاں بدل گئیں۔
“آپ وہ مردِ قلندر ہیں جنہوں نے لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کے دل حضورﷺ کے عشق کی طرف پھیر دیے۔
کل تک وہ نوجوان جو گانے وغیرہ گنگناتے تھے، آج انہی نوجوانوں کی زبان پر یہ نعرہ ہے لبیک یا رسول اللّٰہ ﷺ ۔ جو لوگ شیطان کے چنگل میں پھنسے ہوئے تھے انہیں اب حضورﷺ کی عزت کا پہرے دار بنا دیا.
اور وہ نوجوان جو فرقہ پرستی اور قومیت کے مسائل میں گھرے ہوئے تھے تحریک لبیک پاکستان نے ان کو ایک کر کے ملک کی محبت کے ساتھ ساتھ عشقِ رسول ﷺ کا جام بھی پلا دیا۔ اب وہی نوجوان آپ کے خطابات سن کر روتے ہیں کہ ہم نے اپنی اتنی زندگی ایسے ہی گزار دی۔
آپ کی مؤثر تقریریں حرارت ایمانی کا سبب ہوا کرتیں، لہذا آپ کی ولولہ انگیز اور جوش و جذبے سے پھرپور آواز کو خاموش کروانے کے لیے وقت کے حکمرانوں نے ہر ممکن کوشش کی۔ کئی مہینے آپ کو جیل میں رکھا گیا، اذیتیں دی گئیں، ڈرایا دھمکایا، دہشت گردی کے کیسز کیے گئے مگر اللّٰہ تعالیٰ کی توفیق سے آپ علیہ الرحمہ کے پایۂ استقلال و استقامت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ آپ علیہ الرحمہ ہر میدان میں سروخرو ہوئے اپنی آخری سانس تک پہرہ داری کا کردار ادا کیا۔
“سنے کون قصۂ درد دل، میرا غمگسار چلا گیا
جسے آشناؤں کا پاس تھا، وہ وفا شعار چلا گیا”
آپ امتِ مسلمہ کے لیے درد رکھتے تھے دنیا میں جہاں بھی ظلم ہوتا آپ تڑپ اٹھتے چاہے وہ کشمیر ،چیچنیا، بوسنیا، شام، مصر، عراق، افغانستان ،فلسطین ، برما ہوں۔ آپ نے اپنے نوجوانوں کو یہ باور کروایا کہ آخر کار دنیا کے ہر کونے میں مسلمانوں پر کیوں ظلم ہو رہا ہے؟
اور مسلمانوں کو یہ شعور دیا کہ ہمیں اپنے حق کے لیے آواز اٹھانی چاہیے۔
سیاست:-
آپ نے سیاست میں قدم اس لیے رکھا کہ یہ سیاست تو انبیاء کرام علیہما السلام نے بھی کی ،یہ تو خدمت کا ذریعہ تھا لیکن ہمارے چند نام نہاد سیاست دانوں نے اس کا امیج خراب کر دیا۔ آپ علیہ الرحمہ نے ایک سیاسی و مذہبی جماعت کی بنیاد رکھی جس کا نام تحریک لبیک یا رسول اللّٰہﷺ پاکستان رکھا اس پارٹی کی بنیاد دو مقاصد پر رکھی گئی
1: حضور ﷺ کی عزت و ناموس کی حفاظت
2: دین کو تخت پر لانا.
مسئلہ ناموسِ رسالت ﷺ کی حساسیت:–
امیر المجاھدین علیہ الرحمہ نے قربانیاں دیں اور حضور ﷺ کی عزت و ناموس کا یہ مسئلہ اجاگر کروایا اور اس مسئلے کی حساسیت کے بارے میں سمجھایا۔
“آپ علیہ الرحمہ اکثر امام مالک رحمۃ اللّٰہ علیہ کا یہ قول بیان کرتے تھے کہ حضور ﷺ کی گستاخی ہو تو امت اس کا بدلہ لے،اگر بدلہ نہ لے سکے تو امت کو چاہیے کہ وہ مر جائے۔”
آپﷺ کے دور میں ایک کافر نے حضور ﷺ کی بے ادبی تو صحابہ کرام رضی اللّٰہ عنھم اسے تلاش کر رہے تھے تو پتا چلا کہ وہ خانہ کعبہ کے غلاف میں چھپا ہوا ہے تو آپﷺ نے فرمایا چاہے وہ خانہ کعبہ کے غلاف میں چھپا ہے اس کے لیے کوئی معافی نہیں۔
اس بات سے بھی اندازہ لگائیں کہ جب صحابہ رضہ اللّٰہ عنھم ایک گستاخ کو پکڑ کر آپﷺ کے سامنے لائے تو اس نے کہا کہ میرے بچے کہاں جائیں گے تو آپ ﷺ نے فرمایا آپ کے بچے جہنم میں جائیں۔
ان باتوں سے آپ اندازہ لگا لیں کہ کتنا حساس معاملہ ہے اور جب یہ موضوع دورانِ خطابات آپ کرتے تو امیر المجاھدین فرماتے ہیں:-
اس بات پر میں اپنے آپ کو سنبھال نہیں سکتا کہ گستاخ کے بارے میں نرم الفاظ استعمال ہوں یہ میرے بس میں نہیں رہتا ،کبھی کبھی آپکی آنکھوں سے حضورﷺ کے ذکر کے وقت بے ساختہ آنسو نکل پڑتے۔اور آپ علیہ الرحمہ کا جلال اور سخت الفاظ اسلام دشمنوں کے لیے تھے۔
امیر المجاہدین رحمتہ اللّٰہ علیہ نے فرمایا:-
“گستاخِ رسول ﷺ کے لیے میرے پاس نہ ٹھنڈا ذہن اور نہ نرم زبان ہے۔”
آپ نے جب اس مسئلے کو اجاگر کیا تو بہت سارے نوجوان جو گانے باجے اور غیر شرعی مسائل میں گھرے ہوئے تھے، اس بات وہ سب بھی اکٹھے ہوگئے۔ جو فرقہ بازی اور لسانی مسائل میں تھے لیکن امیر المجاھدین علیہ الرحمہ کی اس پاور فل آواز نے سب کو جمع کر دیا اس لیے تو اہلِ کفر تحریک لبیک یا رسول اللّٰہﷺ سے پریشان ہے۔
امیر المجاھدین علامہ خادم حسین رضوی رحمتہ اللّٰہ علیہ فرماتے تھے:–
کہ علامہ اقبال رحمۃ اللّٰہ علیہ کہتے ہیں:–
“اگر امت کو ایک جگہ پر جمع کرنا ہے تو وہ رسول اللہﷺ کی ہی ذات (یعنی عشق رسولﷺ)ہے۔”
امیر المجاہدین علیہ الرحمہ ایک بیان میں فرماتے ہیں:-
“ہم نے آپ کے نوجوانوں کو نہ نشہ پر لگایا اور نہ کسی اور دوسرے کام پر لگایا۔ ہمارے نوجوان تو اکثر اوقات کیبل اور انڈین ڈرامے دیکھا کرتے تھے۔ اس لیے انڈین ایکٹر سونیا گاندھی نے کہا ، ہم نے پاکستان کو ہتھیاروں کے ساتھ نہیں بلکہ تہذیب کے ساتھ فتح کر لیا لیکن یہ لوگ اللّٰہ پاک کا شکر ادا نہیں کرتے کہ آج وہی نوجوان ناچ کر لبیک یا رسول اللّٰہﷺ کا نعرہ لگاتے ہیں۔”
علامہ خادم رضوی علیہ الرحمہ کا پیغام:–
علامہ خادم رضوی ملکی سالمیت اور دین کی حرمت پر ایک لفظ سننے یا برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتے تھے، حضور پاک ﷺ کی عزت اور وطن کی آن پر ہمیشہ جان دینے کو تیار رہتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے جانثار ان سے والہانہ محبت اور عقیدت رکھتے ہیں۔
علامہ خادم رضوی علیہ الرحمہ کا سانحہ ارتحال ملک کیلئے ایک بڑا نقصان ہے، علامہ خادم رضوی رحمہ اللّٰہ کی رحلت تمام عالمِ اسلام کیلئے ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔
آج ملک میں ہر آنکھ اشکبار ہے اور عقیدت مندان ان کی وفات پر نہایت غمزدہ ہیں ۔ علامہ خادم حسین رضوی علیہ الرحمہ حق پر ڈٹ جانے اور سچ بات پر قائم رہنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے اور ان کا پیغام بھی حق اور سچائی پر مبنی تھا جس کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
اب وہ وقت دور نہیں ہے کہ ان شاءاللّٰہ ہمارے نوجوانوں سے لے کر بوڑھوں تک یہ شعور آگیا ہے کہ ہم نے دین کو تخت پر لانا ہے۔ جس طرح ان کا جنازہ ہوا ،اس نے پوری دنیا کے لوگوں کو حیران کر کے رکھ دیا کہ ایک ویل چیئر پر بیٹھے باباجی کو دنیا سے جاتے وقت اللّٰہ پاک نے وہ عزت دی جو اتنے بڑے بڑے حکمرانوں کو بھی حاصل نہ ہوئی جن کے پاس دنیا کی ہر چیز موجود تھی.
ایک آسٹریلین تجزیہ کار کے مطابق آپ علیہ الرحمہ کے جنازے میں لوگوں کی تعداد (1 کروڑ 75 لاکھ) تھی۔
آخری میں یہ بات کرتا چلوں کہ ہمارے بزرگانِ دین فرماتے ہیں:-
“جو شخص حضورﷺ کی عزت و ناموس کے لیے کام کرتا ہے اللّٰہ پاک اس شخص کے لیے محبت اور ادب لوگوں کے دلوں میں پیدا کر دیتا ہے”
بے شک آپ علیہ الرحمہ ہی وہ شخص ہیں جنہوں اس پر فتن دور میں سچے عاشقِ رسولﷺ ہونے کا کردار ادا کیا.
اللّٰہ پاک ہمیں انکی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.
رہے گا یونہی ان ﷺ کا چرچا رہے گا
پڑے خاک ہو جائیں جل جانے والے
یاسر عرفات شاہ قریشی ہاشمی
❣ آیا آیا دین آیا ❣
❣ آیا آیا دین آیا ❣
❣ آیا آیا دین آیا ❣