تین سو پینسٹھ دن خاتم النبیین صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ
Article by Hafiz Muhammad Rehan
نوٹ: یہ تحریر عربی سے اردو میں ترجمہ کر کے پیش کی جارہی ہے۔
پہلا دن
وہ اس جہاں میں تشریف لانے والے ہیں
زمین رنگ برنگے پھولوں چڑیوں اور تتلیوں سے آراستہ ہوچکی تھی، اور طرح طرح کے پھلوں اور طرح طرح کی نباتات سے سجی پڑی تھی حتی کہ راستے بچوں کی ہنسی اور آوزوں سے گونج رہے تھے، نہروں کی آوازیں اور لہریں خوشی سے بلند ہورہی تھیں، اور سارا جہان خوبصورت موسم سے لبریز تھا، اور سارا جہاں مختلف خوبصورتی سے جگمگارہا تھا لیکن اس کے باوجود لوگوں کی زندگیوں میں مایوسی ومصائب چھائے ہوئے تھے اور ہر جگہ مختلف عجائب وغرائیب دیکھنے کو مل رہے تھے۔
وہ لوگ اللہ عزوجل کو بھول گئے جس نے ان کو ان ساری نعمتوں اور خوبصورتیوں سے نوازا تھا ، بلکہ وہ اس حد تک غفلت وگمراہی میں چلے گئے کہ انھوں نے اس کی عبادت کرنا چھوڑی دی اور اس ایک وحدہ و لاشریک ذات کی عبادت کرنے کی بجائے بہت سے مجسموں کو بنا کر اپنا خدا بنا لیا ان میں سے کچھ آگ کی عبادت کرنے لگ گئے اور کچھ سورچ کو پوجنے لگ گئے ، یہاں تک بعض نے مویشیوں کو اپنا معبود بنا لیا اور بعض نے اپنے ہاتھوں سے لکڑی مٹی سے طرح طرح کی مورتیاں اور بت بنا رکھے تھے اور حقیقت یہ تھی کہ اللہ ہی نے اس آگ اور پتھر اور درخت کو پیدا کیا تھا اور اسی نے آگ سورج کو پیدا کیا تھا اور وہ اللہ ہی مستحق عبادت ہے، اس وقت اس حد درجہ کی پستی میں لوگ چلے گئے تھے کہ غریب لوگوں کو کچھ نہ سمجھتے تھے بیٹیوں سے عار محسوس کرتے تھے انکی خواہش نہیں کرتے تھے فقیروں پر فخر کرتے تھے اور ضعیف کمزور لوگوں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے اور نہ انکا علاج ومعالجہ کرتے تھے ، اخلاقیات میں کافی حد تک پستی میں گر چکی تھی اور انسانیت کا کچھ احترام دور دور تک نظر نہیں آتا تھا اور نہ ہی لوگوں کے دلوں میں رب کے نازل کردہ قوانین و احکام کا پاس تھا بلکہ وہ ایک جہالت کی زندگی گزار رہے تھے ایسے کٹھن حالات میں ان کے دلوں میں محبت و شفقت اور اچھے اخلاق کا مزین ہونا دور دور دکھائی نہیں دیتا تھا ۔
اللہ تعالی نے لوگوں کی ہدایت کے لئے زمانہ سیدنا آدم علیہ السلام سے بہت سے رسولوں کو بھیجا کہ صرف اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی جائے اور سیدھے راستے پر چلا جائے نیک کام کئے جائیں اور زندگی کے ہر معاملے میں سچائی کو اپنایا جائے لیکن ہر دفعہ شیطان لوگوں کو کچھ عرصہ بعد پھسلا دیتا اور رب کے وہ احکام جو اس کے پاک پیغمبروں نے بتائے جن کے کرنے کا رب نے حکم دیا تھا اور جن سے رکنے کا حکم دیا تھا ان سے دور کردیتا۔
یہاں تک چھ سو سال سیدنا عیسی علیہ السلام کو آئے ہوئے گزر چکے تھے۔ یہاں تک اب سارا عالم نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے استقبال کے لئے تیار اور انتظار میں تھا جن کی شخصیت ظلم و ستم کے درمیان حد فاصل تھی جو ظلم و قوت لوگوں کے درمیان شائع تھا۔ عنقریب اس سب ظلم وستم کو مٹانے والے اور معاشرے میں عدل و انصاف کو قائم کرنے والے آنے والے تھے لیکن کب؟
مترجم الکتاب من العربیہ: حافظ محمد ریحان