سادگی میں ہی زندگی کا سکون ہے

Article by Bint e Sajjad
دورِ حاضر میں جہاں سائنس اور ٹیکنالوجی نے نت نئی ایجادات سے انسانی زندگی کو سہل اور آسان بنا دیا ہے وہیں دوسری طرف ترقی کی دوڑ نے لوگوں کی زندگیوں میں عجب نفسا نفسی کی فضا پیدا کر رکھی ہے جس کے نتائج معاشرے کو بڑھتے ہوئے عدم برداشت کی صورت میں بھگتنے پڑ رہے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑے اور خون خرابے کی سرخیاں اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کے معمول کا حصہ ہیں۔ مقابلہ بازی اور آگے بڑھنے کی دوڑ نے جہاں ایک طرف انسانی زندگی سے سکون اور چین ختم کیا تو دوسری طرف مادہ پرستی اور مال و دولت کے جنوں نے ہماری اخلاقی قدریں ہم سے چھین لیں۔ بے حسی اپنے عروج پر ہے اور اس کا مظاہرہ ان سڑکوں پر روز ہوتا ہے جب ٹریفک حادثات سے متاثرہ زخمیوں کو ہسپتال منتقل کرنے کی بجاۓ لوگ ہجوم کی شکل میں بس تماشا دیکھ رہے ہوتے ہیں اور کچھ تو محض لاچار پڑے زخمیوں کا سامان ہتھیانے کے چکر میں رہتے ہیں کہ کب موقع ملے اور کب انکی چاندی ہو، افسوس.!
جب سے ہم نے سادگی کا دامن چھوڑا ہے زندگی کے مختلف پہلوؤں میں محض مشکلات اور مسائل کا سامنا ہی کرنا پڑ رہا ہے۔
مثلاً خاندانی نظام کی بات کریں تو یہ ہمارے مشرقی معاشرے کا ایک اہم جزو ہے. معاشرتی استحکام کا حصول ایک مضبوط، مستحکم اور خوشحال خاندانی نظام کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
آگے بڑھنے کی دوڑ اور آسائشوں کے حصول کی تگ و دو نے خاندانی نظام کو بھی اچھا خاصا متاثر کیا ہے جس کی عکاسی بڑھتے ہوئے گھریلو معاشی مسائل کرتے ہیں۔ اگرچہ ان مسائل کے دیگر اسباب میں ہر سال مہنگائی میں اضافہ اور بے روزگاری بھی ہیں لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہم نے بہت سی جگہ مالی پریشانیاں خود پیدا کی ہیں مثلاً شادی بیاہ اور فوتگی جیسے مواقع کی بات کریں تو بہت سے لوگ ان خاص مواقع پر محض ناک کٹوانے کے خوف سے ہی حیثیت سے بڑھ کر خرچ کرتے ہیں بلکہ قرض اور ادھار جیسی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ نتیجتاً معاشرے کا ایک بڑا متوسط طبقہ دیکھا دیکھی کی آڑ میں پِس کر رہ گیا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سی گھریلو ناچاقیوں اور جھگڑوں کا باعث معاشی مسائل اور قناعت پسندی کا فقدان ہے۔ افسوس کہ پچھلے کچھ سالوں میں طلاق کی شرح میں بھی خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق پاکستان کے %58 لوگ مانتے ہیں کہ 2021-2019 کے اندر اندر طلاق کی شرح ماضی کی نسبت کئی گنا بڑھ گئی ہے ۔ تحقیق کے مطابق صرف کراچی میں ہی طلاق کی شرح سال 2020 کے مقابلہ میں 2021 میں طلاق کی شرح میں 700 گنا تک اضافہ پایا گیا ہے۔
لوگ سٹیٹس اور معیارِ زندگی کو بہتر بنانے کی دوڑ میں اس قدر مصروف ہیں کہ والدین اپنی اولاد کو بہتر سے بہتر لائف سٹائل دینے کے چکر میں ان کی تربیت پر بھی باقاعدہ توجہ نہیں دے پا رہے نتیجتاً اولاد میں والدین کی خدمت کا جذبہ بھی جیسے ختم ہوتا جا رہا ہے۔
ذاتی آرائش و زیبائش سے لے کر گھریلو سجاوٹ و بناوٹ، کھانے کے پکوان سے لے کر کھانے کے برتنوں تک ہر چیز میں نمود و نمائش کا عنصر شامل کر دیا گیا ہے۔ آج لوگ جب تک اپنے خاص مواقع کے سٹیٹس سوشل میڈیا پر نہ شئیر کر لیں انھیں چین نہیں ملتا۔ حالانکہ اپنی تفریح و خوشیوں کا چرچا کرنے سے حسد کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ اسی طرح آرائش و زیبائش کی بےجا نمائش بہت سے تنگ دست لوگوں کی دل آزاری اور احساسِ محرومی کا موجب بنتی ہے۔ دوسرا بڑھتا ہوا سیلفی کلچر بہت سے حادثات کا باعث بھی بنتا ہے کوئی ٹرین کے نیچے آ جاتا ہے تو کوئی ڈوب کر جان سے جاتا ہے۔
کھانے پینے کی بات کریں تو آج کل فاسٹ فوڈ اور بازاری کھانوں کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے. تحقیق کے مطابق فاسٹ فوڈ کی تیاری میں چینی اور نمک کثرت سے شامل کیا جاتا ہے جو صحت کے لئے کسی طور مفید نہیں۔ مزید برآں فاسٹ فوڈ کے زیادہ استعمال سے چھوٹی عمر میں ہی ذیابیطس اور دل کے مریض بڑھ گئے ہیں۔ 2019 کی ایک تحقیق کے مطابق فاسٹ فوڈ کا زیادہ استعمال قوتِ مدافعت کو کمزور کرتا ہے اور کولیسٹرول اور موٹاپے جیسے امراض کا بھی موجب ہے۔
ٹیکنالوجی کی ایجادات نے جہاں ایک طرف زندگی کی رفتار تیز کی تو دوسری طرف ایک دوسرے کو دینے کے لیے وقت کی کمی بھی ہوئی، جس کے نتائج بڑھتے ہوئے ڈپریشن اور دیگر نفسیاتی امراض ہیں۔ تحقیق کے مطابق کتھارسس بہت سے نفسیاتی مسائل کا حل ہے لیکن آج ہمارے معاشرے کے زیادہ افراد خود ڈپریشن اور پریشانیوں کا شکار ہیں، کتھارسس تو کجا کون کس کی سنے۔ بقول شاعر کے:
”عجب دور ہے عاطؔر یہ نفسا نفسی کا
دعا خریدنی پڑتی ہے، رشتے داروں سے“
(ڈاکٹر یٰسین عاطر)
ایسے حالات میں بڑھتی ہوئی بے چینی و بے سکونی کی فضا اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ اعتدال کی راہ اپنائی جائے۔ وقت کے ساتھ چلنے اور جدید دور کے تقاضے نبھانے میں اور آگے بڑھنے کی چاہ میں کوئی برائی نہیں لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں اعتدال اور حسنِ توازن برقرار رکھیں۔ ضرورت کے مطابق وسائل اور حصولِ سہولیات پر خرچ کریں اور کھانے پینے، پہننے اوڑھنے، گھروں کی تعمیر، شادی بیاہ اور دیگر تمام معاملات میں جہاں تک ممکن ہو سادگی، نفاست اور میانہ روی کا پہلو مدِ نظر رکھیں۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں۔ “
ہمارا دینِ اسلام ہمیں سادگی کا درس دیتا ہے۔ اگر ہم سیرتِ طیّبہﷺ کا مطالعہ کریں تو ہمیں سادگی کا سبق ملتا ہے۔ کھانے پینے کا معاملہ ہو یا رہن سہن کا پیارے پیارے آقا کریم ﷺ نے ہر معاملے میں سادگی کو پسند فرمایا۔
نہ فصیل ہے نہ محل سرا
تیراﷺ فرش ہے وہی بوریا
تیرےﷺ جسم پاک پہ اک قبا
وہ بھی تار تار ہے جابجا
تیریﷺ سادگی ہے کمال ہی
صَلُّو عَلیہِ وَ اٰلہ
ہمارے صحابہ کرام رضی ﷲ تعالیٰ عنہم کے طرزِ زندگی میں بھی سادگی کا درس موجود ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللّه تعالیٰ عنہ حاکمِ وقت ہوں اور کثیر فتوحات کے ساتھ ساتھ مال و دولت کی بھی فراوانی ہو لیکن پھر بھی آپ رضی اللّه تعالیٰ عنہ نے سادہ طرزِ زندگی کو اہمیت دی بلکہ مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ رضی اللّه تعالیٰ عنہ صرف ایک ہی جبہ پہنتے اور اس پر بھی جگہ جگہ پیوند لگے ہوتے۔ اسی طرح اگر ہمیں اپنے اسلاف اور بزرگانِ دین سے سادگی کا سبق ملتا ہے کہ جنہوں نے اپنی زندگیاں سادگی اور فقیری میں گزار دیں۔
سادگی میں ہی حسن اور کمال ہے۔ ہر پہلو میں اسکے فائدے ہیں مثلاً بات چیت کرتے وقت ہم دیکھتے ہیں کہ گفتگو جتنی سادہ اور آسان الفاظ میں ہوگی بات کی تاثیر بھی اتنی زیادہ ہوگی۔ اسی طرح سادہ غذاء زیادہ آسانی سے ہضم ہو جاتی ہے۔ جبکہ مرغن اور تیز مرچ مصالحے والی غذاء صحت کے لئے انتہائی نقصان دہ ہے۔ سادہ نفیس اور صاف ستھرا لباس عمدہ شخصیت کا تاثر پیدا کرتا ہے اسی طرح دیکھا جاتا ہے کہ لباس جتنا سادہ ہو اتنا ہی آرام دہ بھی محسوس ہوگا۔
سادہ طرزِ زندگی میں راحت ہی راحت اور سکون ہی سکون ہے ۔ ایک بامقصد زندگی گزارنے کے لئے بھی سادگی بہترین حکمتِ عملی ہے کیوں کہ ہم ضرورت سے بڑھ کر جتنا زیادہ کی طمع و لالچ کریں گے اتنا ہی ہماری توجہ مقصد سے ہٹ کر مزید مال و دولت اور دنیاوی ساز و سامان اکٹھا کرنے کی جانب رہے گی جبکہ ہمیں دنیا کی بجاۓ اپنی آخرت سنوارنے کی کوشش کرنی ہے۔
دعا ہے کہ اللّه پاک ہمیں دنیا اور آخرت کی آسانیاں عطا فرماۓ۔ آمین!
تحریر: بنت سجاد