سانحہ مری اور ذمہ دار کون
Article by Fatima Zahra
حال ہی میں افسوسناک سانحہ مری پیش آیا جس میں 23 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور اسکے سبب کئی لوگوں کے دل غم میں ڈوب گئے، کسی کا خاندان اجڑ گیا تو کئی بہنیں اپنے گئے بھائیوں کی واپسی کی منتظر رہیں اور مائیں اپنے بچوں کی راہ تکتی رہ گئیں اور بچے عمر بھر کا روگ دے کر دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔
لاتعداد حادثات میرے وطن عزیز میں ہوچکے ہیں۔ ہمیشہ نااھل حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے کئی لوگ اپنے پیاروں سے جدا ہوگئے۔ جیسے
سانحہ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری
سانحہ آرمی پبلک اسکول
سانحہ ساہیوال
سانحہ مری
ان تمام سانحات میں کئی ماؤں نے اپنے لال کھو دئیے اور کئی عورتوں نے اپنے شوہروں کو، کئی بچوں نے اپنے والد کو، کئی بہنوں نے اپنے بھائیوں کو کھو دیا۔
سوال یہ اٹھتا ہے
ان سب کا ذمہ دار کون؟
سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا پر لوگوں کی رائے دیکھنے، سننے میں آئی، کچھ حکومتی وزراء کے بھی اس پر تبصرے دیکھنے کو ملے،
کسی نے حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا، تو کسی نے جان سے جانے والے لوگوں کو ذمہ دار کہا۔
انتہائی سوچ و بچار کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ جو لوگ کہتے ہیں قصور مرنے والوں کا ہے تو مان لیا جاتا ہے، ان کا قصور تھا کہ آخر وہ گئے کیوں؟ حالانکہ جدید ٹیکنالوجی کے دور کے ہوتے ہوئے انہیں موسم کا علم ہونا چاہیے تھا، ان مرنے والوں کو سوچنا چاہیے تھا کہ جن لیڈروں کو آپ اپنی حفاظت کے لیے منتخب کرتے ہیں وہ اس منصب کے اہل ہیں ہی نہیں۔!
اور کچھ لوگ جو کہتے ہیں ان تمام واقعات کی ذمہ دار حکومت ہے تو وہ بھی حق پر ہیں کیونکہ ایک گھر کے سربراہ کو معلوم ہوتا ہے کہ اگر میرے گھر میں کوئی ناخوشگوار واقعہ ہوجائے تو کیا کرنا ہے، بہترین سربراہ حکمت عملی سے چلتا ہے۔
اب جو کہتے ہیں حکومت کا اس معاملے کوئی قصور نہیں تو غلط کہتے ہیں کیونکہ جب ایک انسان چالیس سال کا بھی ہوجائے، وہ کسی کے گھر چوری کرے گا اپنی مرضی سے،
اور اگر والدین حیات ہیں تو یہ اس انسان کا قصور مانا تو جائے گا مگر زیادہ قصور وار اس کے والدین کو ٹھہرایا جائے گا، کیوں ٹھہرایا جائے گا؟ جرم تو اس نے کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے والدین نے اسے کیوں نہ روکا؟ اگرچہ برا کام تو اس سے سرزد ہوا لیکن ذمہ دار والدین کو ٹھہرایا جاتا ہے انکی غفلت کی وجہ سے،
اسی طرح لیڈر پر بھی تنقید ہوگی الزام آئے گا کہ اس نے سخت سے سخت انتظامات کیوں نہیں اٹھائے؟ اس نے کیوں سنجیدگی سے اس معاملے کو نہیں دیکھا؟
اور حاکم وقت اپنی غفلت سے فوراً جاگ جاتے تو شاید اتنی جانوں کا ضیاع نہ ہوتا۔
اب یہ کہنا کہ صرف مرنے والوں کا قصور تھا، یہ تو سراسر ناانصافی ہے، آپ عوام سے ٹیکس لیتے ہیں، آپ حلف لیتے ہیں ان کی جان و مال کی حفاظت کا تو کیسے مرنے والے قصور وار ہوگئے؟ چلیں میں آپکی بات مان لوں کہ قصور وار مرنے والے تھے، انہیں ایسی جگہ نہیں جانا چاہئیے تھا تو بتائیں کیا آرمی پبلک اسکول پشاور میں جانے والے بچوں کو نہیں جانا چاہیے تھا؟ کیا فیکٹری میں جلنے والوں کو فیکٹری نہیں جانا چاہیے تھا؟ کیا ساہیوال میں بے گناہ شہید ہونے والوں کو وہاں نہیں جانا چاہیے تھا؟
ایک لیڈر کو منصوبہ بندی میں مہارت ہونی چائیے، ایک لیڈر ہمیشہ ہر چیز سے باخبر رہتا ہے، محترم جس کرسی پر آپ بیٹھے ہیں، جس منصب پر آپ ہیں آپ کو علم ہونا چاہیے اگر اس طرح کے حالات سامنے آتے ہیں تو میری بنائی گئی ٹیم کا کیا کردار ہونا چاہیے؟
اگر کوئی لیڈر کسی چیز میں ناکام ہوجائے تو اسے اپنی غلطی کا اعتراف کرنا چاہیے اور خود کو جواب دہ ماننا ہوگا۔
یہ آپکی ذمہ داری ہے، آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ کس طرح کے معاملات چل رہے ہیں، ایک لیڈر نہ صرف منظم ہوتا ہے بلکہ منظم کرتا ہے، اپنی رعایا کے ساتھ ہمدردی کرتا ہے، بہتر سے بہترین کرنے کی کوشش کرتا ہے نہ کہ اپنی نااہلی کو چھپانے کے لیے عوام کو ذمہ دار ٹھہرائے، اگر ایک فیصد مرنے والے قصور وار ہیں تو بے قصور آپ بھی نہیں ہیں، آپ خود کو بری الذمہ نہیں ٹھہرا سکتے، کیوں کہ نناوے فیصد آپ قصور وار ہیں۔ خدارا! اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا سیکھیں ورنہ اس طرح کے واقعات کبھی نہیں رکیں گے.
اللّٰہ تبارک وتعالی سے دعا ہے کہ مرحومین کی بخشش فرمائے اور انہیں جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے۔
تحریر: فاطمہ زہرہ
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ آمین
ماشاءاللّٰه
بہت اعلیٰ
موجودہ حکومت میں ہوئے تمام تر سانحات کو تحریر میں بند کیا اور حق بیان کیا
اللہ پاک آپکے علم و عمل تحریر گفتار میں مزید برکتیں وسعتیں عطا فرمائے اور اسی طرح اللہ پاک آپکو تحریک کا کام جوش و جزبے سے کرنے کی ہمت بخشے آمین 💖💞