مقصد حیات
Article by Syeda Javeria Attaria
دنیا میں ہر کامیاب انسان کی زندگی کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے اس کی ساری زندگی اسی مقصد کے گرد گھومتی ہے وہ ہر وقت اس بارے میں سوچتا ہے آپ کی زندگی کا بھی کوئی مقصد ہونا چاہیے ” بے مقصد زندگی موت ہے” بے مقصد زندگی جانور بسر کرتے ہیں بہت سے لوگوں کو مقصد حیات کا کچھ شعور نہیں ہوتا کسی کو علم ہی نہیں ہوتا کہ اس کے زندہ رہنے کا کیا مقصد ہے اپنے آپ سے پوچھیں کہ آپ کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ آپ زندگی میں کیا کرنا چاہتے ہیں؟ اگر آپ کو پتہ ہی نہیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں تو پھر آپ حاصل کیا کریں گے کچھ بھی نہیں
حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : انسان کی دو پیدائشیں ہیں ایک جس دن وہ پیدا ہوتا ہے اور دوسرا جس دن وہ ڈھونڈ لیتا ہے کہ کیوں پیدا ہوا
“اپنے مقصد کو پہچاننے کا بہترین وقت نوجوانی ہے”
اپنی زندگی کے مقصد کو پہچاننے کے لیے سب سے پہلے اپنے آپ سے سوال کریں کیا ہم خود کو جانتے ہیں یا نہیں کیونکہ ہماری زندگی کی سب سے بڑی دریافت خود کی دریافت کرنا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم کون ہیں ہم کیوں آئے ہیں؟ ہمارا کام کیا ہے؟
کیونکہ اس دنیا میں بہت سے لوگ آتے ہیں اور وہ اپنی زندگی کو بغیر مقصد کے گزار دیتے ہیں انہیں یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان کا مقصد حیات کیا ہے. یا مقصد تو جان لیتے ہیں مگر اس میں آنے والی رکاوٹوں کی وجہ سے اپنے مقصد سے دور ہو جاتے ہیں اور بغیر نام اور کام کے اس دنیا فانی سے رخصت ہوجاتے ہیں
حضرت واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: “جو کسی مقصد کیلئے مرتے ہیں وہ مرتے نہیں ہیں اور جو بغیر مقصد کے جیتے ہیں وہ جیتے نہیں ہیں”
جب آپ نے اپنے مقصد کو جان لیا تو مضبوط بنیے تاکہ اس مقصد کے درمیان آنے والی رکاوٹوں کا مقابلہ کرسکیں پھر اپنی زندگی کی بنیادی ضروریات کو پورا کیجیے اس کے بعد جو سب سے اہم کام آتا ہے وہ ہے منصوبہ بندی جو اپنے مقصد تک پہنچنے کی بنیاد ہوتی ہے .
ہمیں ہمارے مقصد حیات کو پہچاننا چاہیے جو وقت بیت گیا سو بیت گیا اب وہ قیامت تک نہ پایا جائے گا جب بندے کو یہ یقین ہو جائے کہ گزرا وقت ہاتھ نہیں آتا تو وہ یہ بھی جان لیتا ہے کہ اس کی ساری عمر گویا کہ ایک دن ہے اور پورا دن گویا کہ ایک ساعت ہے اور یہ کل ساعتیں گویا کہ موجودہ وقت ہے ہمیں ہمارا مقصد طے ( ڈھونڈنا ) چاہیے کہ جس کا شمار نیک اعمال سے ہو کہ اگر اچانک بندے کو موت آجائے اور اس کا خاتمہ اسی حالت پر ہو تو اس عمل کی ادائیگی کرتے ہوئے بارگاہ خداوندی میں حاضر ہوتے ہوئے اسے شرمندگی محسوس نہ ہو
تحریر: سیدہ جویریہ عطاریہ