ہمارا مقصد حیات اور تحریک لبیک پاکستان

Article By Noor Jaan
اللّٰہ پاکﷻ نے اس کائنات کو تخلیق کیا اور اس میں ان گنت مخلوقات کو پیدا فرمایا، لیکن ان تمام مخلوقات میں سے افضل اور اعلٰی تخلیق حضرتِ انسان ہے۔ اشرف المخلوقات کا سہرا انسان کے سر پر ہے۔ انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر تمام مخلوقات کو اس کے تابع کر دیا گیا۔
قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے
ترجمہ: کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالٰی نے زمین اور آسمان کی ہرچیز کو تمارے کام میں لگا رکھا ہے اور تمہیں اپنی ظاہری و باطنی نعمتیں بھرپور دے رکھی ہیں
(سورۂ لقمان: ۲۰)
اس کائنات میں موجود ہر چیز ایک خاص دائرہ کار میں زندگی گزارتی ہے۔ ہر مخلوق اپنے مقصدِ حیات کے تحت جانبِ منزل رواں دواں ہے۔ سورج، چاند، ستارے سب اپنے محور اور مرکز کے گرد گھومتے ہیں، سب رب ذوالجلال کے حکم کے مطابق چل رہے ہیں۔
تمام مخلوقات میں سے صرف حضرتِ انسان کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اس کائنات کو مسخر کرے۔
جب انسان کو یہ نکتہ سمجھ آئے گا کہ یہ وسیع و عریض کائنات اس کی خاطر بنائی گئی ہے تو اس کے ذہن کے گوشوں سے یہ سوال ٹکرائے گا کہ آخر مجھے یعنی انسان کو بنانے کا کیا مقصد تھا؟ جب کائنات کی ہر چیز کا کوئی مقصد ہے تو میرا بھی کوئی مقصد ہو گا؟
آئیے آج ان سوالوں کے جواب تلاشنے کی کوشش کرتے ہیں آخر ایسا کیا عظیم کام انسان کو سونپا گیا جس کی تکمیل کے لیے انسان کو اس قدر آسائشیں فراہم کی گئیں؟
کیا کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ اللّٰه پاک نے آپ کو مکمل اعضاء کے ساتھ، صحت و عافیت والی زندگی، ایک خوشحال گھرانہ، محبت والے رشتے، زندگی کی بے شمار آسائشیں اور آسانیاں کیوں دی ہیں؟
حالانکہ وہ رب ہے ہر چیز پر قادر ہے وہ چاہتا تو آپ کو کسی بھی طرح پیدا فرما دیتا آپ کوئی سوال تو نہیں اٹھا سکتے تھے اس کی تخلیق میں
آپ کو کسی عام سے گھرانے میں بھی تو پیدا کیا جا سکتا تھا
آپ کے پاس نعمتوں کی فراوانی کی بجائے فقدان بھی تو ہو سکتا تھا
آپ کے مکمل اعضاء ہیں کوئی کم بھی تو ہو سکتا تھا
آپ اپنے ارد گرد کئی ایسے لوگ دیکھتے ہیں، کوئی سماعت نہیں رکھتا، کسی کے پاس بینائی کی نعمت نہیں۔ لیکن آپ کے پاس یہ ساری نعمتیں موجود ہیں ۔
اور سب سے بڑی چیز ہمیں نبی پاک ﷺ کا امتی بنایا ہے، دین اسلام ایسی نعمتِ عظمیٰ جس کے سامنے باقی ساری نعمتیں چھوٹی لگتی ہیں۔
ہمیں کسی اور امت میں کسی اور مذہب میں بھی تو پیدا کیا جا سکتا تھا اب بھی اگر ہم شکر کی وجہ ڈھونڈیں تو ہمیں کیا کہا جائے گا؟ اب بھی اگر ہم ناشکری والے کلمات اور ناشکری والا رویہ رکھیں تو ہمیں کیا کہا جانا چاہیے؟
بات کر رہے تھے اس مقصدِ عظیم کی جو انسان کو سونپا گیا، اتنی آسائشیں اور آسانیاں ملنےکے بعد کہیں ہم اس دنیا کی رنگینیوں میں تو نہیں کھو گئے؟
واصف علی واصف کا قول ہے : بد نصیب ہیں وہ مسافر جو آدھے سفر کے بعد ذوق سفر سے محروم ہوجائیں۔
کہیں ہم اس مقصد کو بھول تو نہیں گئے؟
ہم سب اللّٰہ پاک سے یہ وعدہ کر کے آئے ہیں کہ ہم دین حق کی سر بلندی کے لیے کام کریں گے، اور اس کی تکمیل کے لیے اللّٰه پاک نے انہی انسانوں میں سے انبیاء مبعوث فرمائے جو انہیں حق کی راہ دکھاتے ہیں اور اللّٰه پاک کی پہچان کے بعد اللّٰہ کریم کے پیغام کو آگے پھیلاتے ہیں، انبیاء کرام کی بعثت کے بعد تاجدار ختم نبوت سید الانبیاء ﷺ، تابعین، تبع تابعین، سلف صالحین، علمائے کرام سب اس عظیم مقصد کی تکمیل کی راہ ہموار کرتے نظر آتے ہیں۔
اب اس دنیا میں جو انسان جس حالت، جس کیفیت میں ہے وہ اس کے اس ازل میں کیے گئے وعدے کے مطابق ہے۔ جس نے دین کا کام کرنے کا جتنا وعدہ کیا تھا اللّٰه پاک نے اس کو اس حساب سے نعمتیں اور آسائشیں فراہم کر دی ہیں۔
تو آئیےخود اپنا محاسبہ کیجئے کہ مجھے یہ صلاحیتیں، یہ نعمتیں کیوں ملی ہیں؟ اور آیا میں اپنے اس وعدے کے مطابق اپنی صلاحیتوں کو دین کے لیے وقف کر رہی ہوں/کر رہا ہوں یا نہیں؟
اگر جواب نہیں ہے تو ابھی بھی وقت ہے کام شروع کر دیجئے کیونکہ جو وعدہ ہم نے کیا ہے اس کا حساب دینا ہو گا اور یہاں اپنا محاسبہ کرنا وہاں حساب دینے سے بہتر ہے۔
اللّٰہ پاک نے قرآن میں واضح فرمایاہے کہ
میں نے جن و انس کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ۔
تو عبادت کا موقع کیسے ملے گا؟
جب دین تخت پر ہو گا۔
آج کے اس پرفتن دور میں اپنے ایمان کی حفاظت کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ ہر چیز کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک شیلڈ ہوتی ہے اور آج کے دور میں “ہمارے ایمان کی حفاظت کرنے والی شیلڈ تحریک لبیک پاکستان کی صورت میں ہمیں مہیا کر دی گئی ہے۔
اللّٰہ پاک نے عظیم احسان فرمایا ہے ہم پر کہ ہمیں تحریک لبیک پاکستان کی صورت میں ایک ایسا پلیٹ فارم عطا فرما دیا جس کے ذریعے ہم دین کو تخت پر لانے کے لیے کاوشیں کر کے اپنے مقصدِ حیات کو پورا کر سکتے ہیں۔
آج وقت ہے اس مخلص جماعت کے جھنڈے تلے سب متحد ہو کر اپنی تمام تر توانائیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے، دینِ حق کی سربلندی کا کام کرکے دنیا و آخرت میں سرخرو ہو جائیں۔
اب ہمیں کرنا کیا ہے؟
ہماری ذمہ داری کیا ہے؟
سب سے پہلے تو ہمیں اپنے عقائد کو مضبوط کرنا ہو گا، اسلامی نظریات کا بغور مطالعہ کر کے اسلام کی اصل روح کو سمجھنا ہو گا تا کہ عمل میں آسانی ہو، اور ہم صحیح العقیدہ اور با کردار مسلمان کہلا سکیں۔
امیر المجاھدین علیہ الرحمہ نے اپنے بیانات میں جس طرح فکرِ رضا اور تصورِ اقبال کو اسلامی نظریات کے تحت عشق مصطفیٰﷺ کی مستی میں بیان فرمایا ہے، ہم اگر امیر المجاھدین علیہ الرحمہ کے بیانات کو سن کر ان پر عمل شروع کر دیں تو ہمارا جینا سنتِ رسول اللّٰہﷺ کے مطابق ہو جائے گا۔
اور جب ہم اپنی زندگی اسوۂ حسنہﷺ کے مطابق گزارنا شروع کر دیں گے تو دین کی سربلندی کے لیے بے لوث کاوشیں کرنے کا جذبہ خود بخود پروان چڑھتا جائے گا۔
اب کام یہیں ختم نہیں ہوتا، انفرادی اصلاح کے بعد اگلا مرحلہ جو اور بھی زیادہ اہم ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں یہ سوچ، یہ فکر اور اس مقصدِ عظیم کے حصول کی لگن کا جذبہ خود سے منسلک لوگوں میں بھی منتقل کرنا ہے۔ ہم گھنٹوں بیٹھ کر فضول گفتگو میں اپنا وقت برباد کر دیتے ہیں، دراصل ہماری گفتگو ہمارے کردار اور سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔ ہم اپنی گفتگو کا موضوع ہی قرآن و حدیث کو بنا لیں۔ جہاں بھی بیٹھیں جس سے بھی بات کریں کم از کم ان کے ذہنوں میں یہ سوال چھوڑ جائیں کہ نظامِ مصطفیٰﷺ کا نفاذ کیوں ضروری ہے؟ اور اس کے حصول کے لیے کوشش کس طرح کی جائے؟ اس سے عین ممکن ہے کہ ایسے سوالوں کے جواب حاصل کرنے کی نیت سے لوگوں کا ہماری اس مخلص تحریک اور اس کے نظریے کی طرف رجحان بڑھے، اور یہ قافلہ حق ایک ایسے کاروان کی شکل اختیار کر لے جو کہ نظام مصطفیٰﷺ کی بنیاد رکھے۔
راہِ حق کے مسافر بننے جا رہے ہیں تو سب سے پہلی چیز جو ہمارے اندر ہونی چاہیے وہ ہے اخلاص، ہم جو بھی کام کریں خالص اللّٰه پاک کی رضا کے لیے۔
ہم سب اپنی تمام تر توانائیوں تمام تر صلاحیتوں کو دین کے لیے وقف کریں گے۔
ان شاء اللّٰہ
اور اس مقصد میں اپنے نام یا شہرت سے کوئی غرض نہیں، بے لوث ہو کر دین کی خدمت کرنی ہے بس
اپنی ہر سانس اللہ کے دین کو تخت پر لانے کیلئے وقف کرنی ہوگی، کامیاب وہی ہوتے ہیں جو اتفاق و اتحاد سے کام کرتے ہیں اور ہمیں بھی انفرادی مقاصد کی بجائے اللّٰہ پاک کی رضا کو سامنے رکھنا ہوگا۔
جو قومیں اپنی آزادی کی قدر نہیں کرتی ان پرظالم حکمران مسلط کر دئیے جاتے ہیں ان سے نجات کیلئے ہمیں آج کوشش کرنی ہوگی۔
ہم نہ سہی ہماری نسلیں ضرور نظام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا سورج طلوع ہوتا دیکھیں گی زمانے کے گردوغبار میں جو دین کا اصل رنگ دب گیا ہے وہ ضرور ابھرے گا لیکن اس کیلئے پہلے آج سے کوشش کرنا ہوگی !
تو آئیے ! دین کو تخت پر لانے کیلئے تحریک لبیک کا ساتھ دیں، اور دنیا و آخرت میں سرخروئی حاصل کریں
تحریر: نورجان