ایسا کہاں سے لاؤں جسے تجھ سا کہوں

Article by Abrish Noor
جب دشمنان اسلام، غدار وطن، دین بیزار لوگ ایک جگہ متحد ہو گئے، میرے ملک پاکستان کے اندر دین اسلام کو لوگوں کے دلوں سے نکالنے کی سازش کی جانے لگی، تمام دشمنوں نے سر کو جوڑ لیا کہ اب کیسے ان کے دلوں سے اسلام کی محبت کو نکالا جائے اور پھر اسی دوران میڈیا کے ذریعے ہمارے بچوں کی ذہن سازی کی جانے لگی۔ وہ میڈیا جس نے غازی ممتاز حسین قادری شہید علیہ الرحمہ کو ہیرو دکھانا تھا، وہ میڈیا غازی ممتاز قادری کو قاتل دکھانے لگا اور ہمارے بچوں کو دین کے خلاف، علماء کے خلاف کرنے کے لیے “زندگی تماشہ” جیسی بے ہودہ موویز بنا کر ہمارے دین کو بدنام کرنے کی کوشش کی جانے لگی، اب یہ مشکل وقت تھا، ہر دور میں کسی نہ کسی فتنے نے سر اٹھایا ہے اور موجودہ زمانے میں سب سے بڑا فتنہ توہین رسالت ﷺ تھا، دنیا بھر کے کفار جمع ہوگئے اور پچھلے کئی سالوں سے آقا صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے خاکے بنا کر ہمارے دلوں کو چوٹ پہنچائی گئی،
اس وقت ضرورت تھی ایک ایسے مرد قلندر کی جو دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکے، بڑی سے بڑی قوت بھی اس پسپا نا کر سکے، کسی باطل سے نہ گھبرائے بلکہ باطل کے ایوانوں میں زلزلہ برپا کر دے، ناموس رسالت ﷺ کی حفاظت کے لیے اپنا سب کچھ لٹانے میں ذرہ برابر بھی خوف نہ کھائے، ایسے شیر کی ضرورت تھی جس کی دھاڑ سے دل دہل جائیں، ضروت تھی ایک ایسے قائد کی جو تمام بکھرے ہوئے مسلمانوں کو ایک جھنڈے کے نیچے یکجا کردے، ایسے پہریدار کی ضرورت تھی جو آقا ﷺ کی ناموس کی حفاظت کی سچی نوکری کا حق ادا کرسکے اور اسکی پہریداری کر سکے،
ضرورت تھی ایک ایسے رہنما کی جو تمام مسلمانوں کو انکا مقام بتائے، ایسے عظیم لیڈر کی ضرورت تھی جو سوئی ہوئی امت کو جگا سکے، ایسے کڑے وقت میں ایک عظیم مرد قلندر جو خود تو معذور تھے پر امت کو اپنے قدموں پر کھڑا کر دیا، انکو اٹھنا سکھایا اور وہ تمام مقاصد بتائے جو حقیقی مسلمان کے ہونے چاہئیں۔
جب کبھی دشمنان اسلام متحد ہوئے تو رب العالمین نے اپنے دین کی سر بلندی کے لیے کسی نہ کسی کو ضرور بھیجا، اسی طرح فی زمانہ بھی شہر لاہور داتا صاحب کی نگری سے دشمنان اسلام کو للکارا گیا، دشمنان اسلام کی تمام چالوں کو ناکام کردیا جو وہ عرصے سے کررہے تھے،
اسی مرد مجاہد علامہ حافظ خادم حسین رضوی رحمتہ اللہ علیہ نے اس قوم کے نوجوانوں کو جھنجھوڑا جو ہمارے ملک کا مستقبل تھے، جنہیں ہمارے میڈیا نے عشق اور معشوقی، فحاشی کا گرویدہ کر لیا تھا، اس ویل چیئر پر بیٹھنے والی عظیم شخصیت نے ان نوجوانوں کو کسی مقصد کے پیچھے لگا دیا۔ اور بتایا اے نوجوان! دیکھ اپنی حالت کبھی تو جنگوں کی شان ہوا کرتا تھا، کبھی دشمن تیرے نام سے خوف کھاتا آج تو اپنا مقام بھول گیا ہے۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ نے ایسا سبق دیا کے جب دشمن تجھے مٹانے کے ارادے سے تجھ پر حملہ آور ہو، تیرے دین کو نشانہ بنائے، تو باوجود کمزوری اور بے سروسامانی کے ڈٹ کر مقابلہ کرنا۔ قوم کو اپنے رب تعالیٰ پر توکل کرنا سکھایا اور یاد کرایا کہ دراصل سارے کاموں کا انتظام اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ جب معیشت کا رونا رویا گیا تو علامہ خادم حسین رضوی رحمتہ اللہ علیہ نے بتایا مومن کا بھروسہ اللہ کے سوا کسی پر نہیں۔
جو قوم رنگ ونسل نفرتوں فرقوں میں بٹ گئی انہیں تحریک لبیک کے جھنڈے کے نیچے یکجا کردیا اور بتایا سب کچھ برداشت ہوسکتا ہے پر اپنے نبی صلی اللّٰہ علیہِ وآلہ وسلّم کی عزت و حرمت پر آنچ تک نہیں آنے دیں گے، مرجائیں گے ناموس رسالت ﷺ کا سودا نہ کریں گے نہ کرنے دیں گے۔ اگر آپ ﷺ کی ناموس کے لیے دسمبر کی ٹھٹھرتی سردی اور بارش میں میدان لگانا پڑے تو کوئی اس سے منہ نہ پھیرے، اگر ناموس رسالت ﷺ کے لیے جان دینا پڑے تو یہ صرف کتابی یا نعروں کی حد تک نہ رہے بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے راستے پر چلتے ہوئے جان دیں گے اور جان لیں گے ہر اس شخص کی جو میرے دین کے خلاف ایک لفظ بھی کہے گا۔ جو ملک ہم نے اسلام کے نام پر لیا وہاں غیر کا نظام کیوں چلے؟
نظام مصطفی ﷺ کا مقصد لے کر ایک نظریہ لے کر علامہ خادم حسین رضوی رحمتہ اللّہ علیہ میدان میں نکلے۔
اس تحریک کا آغاز غازی ممتاز قادری کی گرفتاری تھی امیر المجاھدین علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ممتاز قادری کی گرفتاری نے میری زندگی میں ہلچل مچادی تھی، ممتاز قادری نے ایک گستاخ رسول گورنر کو مار کر مسلمانوں کا سر فخر سے بلند کردیا، جس پر قیامت تک امت مسلمہ ناز کرتی رہے گی۔
لیکن حکومت نے اس عاشق رسول ﷺ کو جیل میں ڈالا اور پھر اس تحریک کا آغاز ہوا آپ علیہ الرحمہ فرماتے تھے کے اس تحریک کی وجہ مجھے گرفتار کیا گیا میری ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا ایک افسر جس نے مجھے طعنہ دیا کہ کہ مولوی کیا تم نبی ﷺکے دین کے ٹھیکیدار ہو؟ آپ فرماتے ہیں میں نے کہا ٹھیکدار تو نہیں چوکیدار ضرور ہوں۔
آپ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں جب یہ تحریک چلی اس وقت محکمہ پنجاب کی طرف سے مجھے کہا گیا یہ سلسہ روک دیا جائے قصہ المختصر یہ کہ آپ کسی صورت ناموس رسالت ﷺ کی بات نہیں کرسکتے، آپ نے اس ملازمت کو چھوڑ دیا اور اسکے تین سال بعد صوبائی خطیب آئے اور کہا آپکو حکومت پینشن بھی دے گی، چونکہ آپ معذور ہیں پوری تنخواہ کے برابر ملے گی اور آپکے بیٹے کو محکمہ اوقاف کی طرف سے ملازمت بھی ملے گی، آپ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں میں نے کہا اب ہمیں کچھ نہیں چاہئیے۔
جیساکہ ذکر کیا گیا اس تحریک کا آغاز ممتاز قادری کی گرفتاری کے وقت ہوا تھا مگر جب غازی صاحب کو پھانسی دی گئی اس چیز نے آپکو توڑ کر رکھ دیا تھا شاید آپ کبھی غازی صاحب کو پھانسی نہ ہونے دیتے اگر آپ سے غلط بیانی نہ کی جاتی پیر امین الحسنات نے آپکو یقین دہانی کروائی کہ غازی صاحب کو پھانسی نہیں دی جائے گی البتہ معاملہ طوالت میں رکھا جائے گا اور پھر کچھ عرصے بعد رہائی ہو جائے گی۔
آپ فرماتے ہیں کہ مجھے اندازہ تو کسی حد تک ہو چکا تھا کہ صدر مملکت کے پاس پھانسی کے مجرموں کی ہزاروں اپیلیں پہلے سے پڑی تھیں لیکن ان اپیلوں کو پس پشت ڈال کر غازی صاحب کی اپیل کو مسترد کردیا گیا اور یہ سراسر بد نیتی تھی۔
بالآخر ایک عاشق رسول ﷺ کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا اور ہر طرح کی مشکلات صعوبتیں اٹھانے کے بعد باوجود ممتاز قادری کو نہ بچا سکے اور اپنی پگڑی غازی صاحب کے قدموں میں رکھ کر انکی چارپائی کو چومتے اور بار بار ایک ہی جملہ دہراتے کہ آقا ﷺ سے ہماری شکایت نہ لگانا ہم سے جو ہوا ہم نے کیا۔
اگلے روز جب غازی ممتاز حسین قادری رحمۃ اللّٰہ علیہ کے جنازے پر جم غفیر دیکھا گیا تو تمام عشاق نے فیصلہ کیا اب دین کو تخت پر لایا جائے گا، اب نظام مصطفی ﷺ ضروری ہے، اب صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کی طرح ناموس رسالت ﷺ کی حفاظت کریں گے اور باباجی رحمتہ اللّہ علیہ نے نظام مصطفی ﷺ کو مقصد حیات بنا لیا، ہر چیز سے بڑھ کر اپنے عظیم مقصد اور ناموس رسالت ﷺ کی حفاظت کو اہم ترین جانا اور یہ شعر پڑھتے
یہ سفر ہے کوئے جاناں، یہاں قدم قدم بلائیں
جنہیں زندگی ہو پیاری وہ یہیں سے لوٹ جائیں
آپ نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا، ایسے ایسے ہیرے تراشے جو صرف اس مقصد لیے اپنا گھر بار مال دولت لٹانے کے لیے جان کی بازی لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے، ہمیشہ ہر میدان میں ثابت قدم رہ کر ہر مشکل میں ڈٹے رہے اور ہر حال میں کہتے
لطف سجن دم بہ دم، کار سجن گاہ گاہ
انج وی سجن واہ انج وی سجن واہ
آپ نے لوگوں کو اپنے بزرگوں کے پیچھے چھپنے کے بجائے ان سے سوال کیا وہ تو تمہارے آباؤ اجداد نے کیا یہ بتاو تم نے دین کے لیے کیا کیا؟ اور پھر میں نے اپنی طرف غور کیا واقعی ہم نے دین کے لیے کیا کیا۔۔! بروز قیامت ہم کیا جواب دیں گے لہذا مجھ سمیت ہر کارکن نے یہ عہد کیا کہ بس اپنی زندگی کا صرف ایک اصول، ایک مقصد رکھنا ہے
انہیں ﷺ جانا انہیں ﷺ مانا نہ رکھا غیر سے کام
للہ الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا
بالآخر اس تحریک کا عروج کا دور شروع ہوگیا لوگوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا تھا اب یہ ایک چھوٹی سی تحریک نہیں بلکہ ایک سیاسی جماعت کا رخ اختیار کر گئی اور اسکی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ بابا جی رحمتہ اللّہ علیہ کا دین میں خالص ہونا اور اسی طرح آپکے چاہنے والے آپکی ایک آواز پر لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھتے، بے تحاشہ محبت کرتے، اپنے کارکنوں سے اور مجھ سمیت تمام انکے چاہنے والوں نے کبھی تصور بھی نہ کیا تھا کہ آپ ہمیں چھوڑ کر جا سکتے ہیں، آخر کو وہ وقت آن پہنچا جب آپ اپنے عشق و مستی میں رب کے حضور پہنچ گئے۔ جرأت اور بہادری، بے ساختگی، بے خوفی کا ایک باب بند ہوا 19 نومبر کی رات اپنے تمام چاہنے والوں روتا بلکتا تڑپتا چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
آہ اب آپکی گرج دار آواز اور درد بھرا لہجہ، بے خوف صدا، جرأت آمیز پکار ہمیشہ یاد آئے گی،
کسی نے کیا خوب کہا
کہ تم کھڑے تھے
لہو میں بھیگے تمام موسم
گواہی دیں گے کہ تم کھڑے تھے
وفا کے رستے کا ہر مسافر
گواہی دے گا
کہ تم کھڑے تھے
سحر کا سورج گواہی دے گا
کہ جب اندھیرے کی کوکھ میں سے نکلنے والے یہ سوچتے تھے
کہ کوئی جگنو نہیں بچا ہے
تو تم کھڑے تھے
تمہاری آنکھوں کے طاقچوں میں
جلے چراغوں کی روشنی نے
نئی منازل ہمیں دکھائیں
تمہارے چہرے کی جھریوں نے
ھے ولولوں کو نمود بخشی
تمہارے بھائی،تمہارے بیٹے
تمہاری بہنیں ، تمہاری مائیں
تمہاری مٹی کا ذرہ ذرہ گواہی دے گا
کہ تم کھڑے تھے
تمہاری ہمت،تمہاری عظمت اور استقامت
نہ آنے والے دنوں میں ہوگا
سو آنے والی تمام نسلیں گواہی دیں گی
کہ تم کھڑے تھے
امیر المجاھدین نے اس کے تحریک کے لیے بڑی محنتیں کی، اور مشقتیں کاٹیں، ہر طرح کے ظلم برادشت کیے اور ہمیں ایک مقصد دے کر گئے اور مقصد کو ہم نے پایہٕ تکمیل تک پہنچانا ہے، ہمیں نظام مصطفی ﷺ کے لیے اپنا آرام سکون سب کچھ بھی لٹانا پڑے تو کبھی گھبرائیں گے نہیں اور وہ وقت دور نہیں جب نظام مصطفی ﷺ اپنے پیارے ملک میں دیکھوں گی ان شاءَ اللّٰهﷻ بہت جلد مسجد رحمۃالعالمین کے منبر سے آواز آئے گی نظام مصطفی ﷺ قائم ہو گیا اور ہمارے امیر المجاھدین کی تمام تر کوششیں آج ثمر لائیں ان شاءَ اللّٰهﷻ
پرودگار سے دعا ہے آپکی تربت انور پر بےبہا رحمتوں کا نزول فرمائے، آپکے صاحبزادوں کو اپنے مشن پر ثابت قدم رکھے اور انکو تمام حاسدوں اور شریروں سے محفوظ رکھے آمین
تحریر: ابرش نور
ماشااللہ کیا بات ہے بہن اللہ پاک اور ہمت دےآپ کو😊😊😊
ماشاءالله ❤
وفا کے رستے کا ہر مسافر گواہی دے گا کے آپ کھڑے تھے بابا جی بیشک آپ کھڑے تھے