میرا ایک خواب سوشل میڈیا کے شاہینوں کے نام

Article By Yasir Arfat Shah Qureshi Hashmi
یوں تو روشن خیالی اور جدت پسندی کا نعرہ بظاہر بنا ہے مگر مغربی یلغار کا سامنا ہمارے نوجوان بیسیوں سال سے کر رہا ہے۔ یہ یلغار سوشل میڈیا کی مادر پدر آزادی کی صورت میں پھیل رہی ہے نوجوان نسل اپنی اساس اور دین سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ والدین کی مرضی کے بغیر بچے موبائل نہی رکھ سکتے اور اگر بچہ موبائل میں مصروف ہے تو اساتذہ کی تربیت بے اثر ہے، یہ تو تھی ان خیالات پر طائرانہ نظر کہ جن کی وجہ سے آج کا نوجوان روشن خیالی اور جدت پسندی کے نام پر اخلاقی باختگی اور بے راہ روی کا شکار ہے۔
اب آتے ہیں حکیم الامت، شاعر مشرق ، مفکر پاکستان، قلندر لاہوری علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نوجوانوں میں کیا خوبیاں دیکھنا چاہتے تھے۔ یہ بات ہمارے ذہن نشین ہونی چاہیے علامہ محمد اقبال ہمارے حال اور مستقبل کے شاعر ہیں۔ ان کا 70 فیصد کلام نوجوانوں کو سنہرے دور کی نوید سناتا ہے اور جبکہ باقی 30 فیصد اسلام کی عظمت رفتہ یعنی ماضی کی یاد تازہ کرتا ہے۔
علامہ محمد اقبال نوجوانوں کے بارے کیا سوچتے ہیں
اس کا اندازہ ہم ان کے بیٹے جاوید اقبال سے لگاتے ہیں، علامہ اقبال کی فارسی کی کتاب “جاوید نامہ” کی پہلی نظم مناجات کے آخری بند کا ترجمہ ہے میں جو پرانے بوڑھوں سے نا امید ہوں، نئے آنے والے دور کی بات کرتا ہوں۔
اے خدا نوجوانوں کے لیے میری شاعری آسان کردے ان کے لیے اس سمندر کو عبور کرنا آسان بنادے۔
بال جبریل میں اسی بات کو اس طرح علامہ اقبال فرماتے ہیں
جوانوں کو مری آہ سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
مرا نور بصیرت عام کر دے
ایک دفاعی گول میز کانفرنس کے سلسلہ میں علامہ محمد اقبال انگلستان میں قیام پذیر تھے تو ہندوستان سے ننھے جاوید اقبال کا خط آیا جس میں انہوں نے گرامو فون کی فرمائش کی۔
علامہ اقبال گراموفون تو نہ لائے لیکن “جاوید نامہ” کی جو نظم لکھ کر بھیجی اس میں آج نوجوانوں کے لیے پیغام ہے علامہ محمد اقبال فرماتے ہیں
خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو
سکوت لالہ وگل سے کلام پیدا کر
اٹھا نہ شیشہ گراں فرنگ کے احساں
سفال ہند سے مینا جام پیدا کر
میں شاخ تاک ہوں، میری غزل ہے میرا ثمر
میرے ثمر سے مئے لالہ فام پیدا کر
اس میں علامہ نے جو پیغام دیا ہے وہ ہمیں خودی، خودداری یقین محکم اور عمل پیہم کا درس دیتی ہے۔
علامہ محمد اقبال نوجوان نسل کی تربیت کے لیے سے تشبیہ دیتا ہے جو ان کے نزدیک زندگی کا مقصد اعلیٰ و ارفع ہو، نظر آسماں پر ہو، اونچی اڑان بھرے، راستے میں آنے والی رکاوٹوں کی پرواہ نہ کرے، وقتی پریشانیوں اور مصیبتوں سے نہ گھبرائے۔
آشیانہ نہ بنائے، مطلب دنیا سے بیزار رہے ابدی ٹھکانہ نہ سمجھے۔ یہی ہمارے نبی کریمﷺ کی تعلیمات ہیں اس دنیا میں مسافر کی طرح رہو اور توشہ آخرت اکٹھا کرو تاکہ ابدی زندگی میں سرخرو ہو سکو۔
علامہ محمد اقبال فرماتے ہیں
اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے نوجوانوں کی خودی صورت فولاد
شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پر دم ہے اگر تو، تو نہیں خطر افتاد
علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے امت مسلمہ کو دین کی طرف رغبت کا درس دیا ہے اور دین کی طرف رغبت دینے کا مقصد یہ تھا جب ملک پاکستان بن جائے تو یہ احکام الٰہی اور سنت رسول اللہﷺ کے جو قوانین و ضوابط طے کیے ان پر عمل پیرا کیے ہو اسلام کا نظام لاگو کیا جائے جہاں پر ظلم و بربریت کا خاتمہ ہو، جہاں غریب بھوکا نہ سوئے اگر زیادہ ہی مجبور ہوتو ریاست ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچائے بغیر اس کی مدد کرے، جہاں کسی امیر کی دولت دیکھ کر انصاف میں ردوبدل نہ کیا جائے، جہاں پر پوری دنیا میں کشکول اٹھانے کی بجائے اسلام کا معاشی نظام لاگو کیا جائے جو خودداری اور پوری دنیا میں ایمانداری کا باعث بنے، جہاں پر تعلیم کے تیزاب میں بزدلی کی بجائے دلیری اور بہادری کا درس دیا جائے اور جدید علوم کے ساتھ اسلام کی بنیادی علم و تدریس کا نظام وضح کیا جائے، ہماری خارجہ پالیسی ایسی ہونی چاہئے جو اسلام کے مطابق ہو اور پوری دنیا اس کی قدر کرے اور اس لیے سیرت رسول اللہﷺ اور خلفائے راشدین ہمارے لیے بہترین نمونہ ہیں۔
جس طرح اقبال نے ایک خواب دیکھا تھا اسی طرح میری بھی یہی خواہش ہے اور میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہر غیرت مند مسلم کی یہ خواہش ہوگی۔
اگر دور حاضر میں یہ سب کام کوئی سیاسی جماعت کر سکتی ہے تو وہ ہماری امید تحریک لبیک یا رسول اللہﷺ پاکستان ہے تو اقبال کے سوشل میڈیا کے شاہین، سوشل میڈیا سے ہٹ کر اب ہم اپنا وقت نکال کر عملی میدان میں کام کرنا ہوگا تب ہی جا کر یہ خواب کو ہم عملی جامہ پہچا سکتے ہیں۔
تحریر:یاسر عرفات شاہ قریشی ہاشمی