ہماری منزل کھو گئی

Article by Bint E Hassan
ہماری منزل کھو گئی ہے
ہم راہوں میں بھٹک گئے ہیں
ہم ایک جسم کی مانند تھے
اب تو
یہ اُمت خرافات میں کھو گئی ہے
“گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی”
کسی ادارے کی دیوار پر یہ شعر جلی حروف میں لکھا ہوا تھا، میں نے زیر زبان تین چار مرتبہ دہرایا۔ کتنی بری عادت ہے میری، زیرِ لب خود کو کوسا اور آگے چل دی۔
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سےمیراث پائی تھی
ثریا سے زمین پر آسمان نےہم کو دے مارا
پھر ایک شام بستر میں بیٹھی، میں سوچ ہی رہی تھی کہ یہ جو آج کل معاشرے کا حال ہے واقعی ہم نے سب کچھ گنوا دیا ہے۔ ہر وہ چیز جو ہمیں وراثت میں ملی تھی وہ کہیں کھو گئی ہے۔ سوچتے سوچتے نجانے کب میری آنکھ لگ گئی اور خواب میں یوں لگا جیسے کسی نے مجھے شاہراہِ حیات کے سفر پر روانہ کر دیا، میں خِراماں خراماں چلتی، رتوں میں کھوتی جا رہی تھی اور بدستور حیرانگی کے سمندر میں غوطہ زن ہوتی جا رہی تھی لیکن آگاہی کی ان نئی رتوں میں صرف زخم تھے جو کسی کو دکھائی نہیں دیتے تھے کیوں کہ ابھی تک کوئی چراغ سر بکف نہیں بنا! راستے دھندلے ہیں جو چراغ کی شمع کو روشن کرنے کے لیے اٹھا اسے ان راستوں نے گنوا دیا۔
بہت تاریکی تھی، ٹھوکر کھائی
آواز آئی “اندھی ہو کیا؟ نظر نہیں آتا؟
میں نے پوچھا جس چیز سے ٹھوکر کھائی وہ چیز کیا تھی؟ آواز آئی۔
“جھوٹ کی گلی میں دھوکے کا پتھر”
میں نے کہا تمہارے پاس تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صداقت کا چراغ تھا وہ صداقت کہ جس کی مثال زمانہ دیتا تھا وہ کہاں گیا؟
آواز آئی
“گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی”
تھوڑا آگے چلی تو میں نے دیکھا کہ بنتِ حوا دوپٹے کی دولت بیچ چکی ہے اور اقبال کے نوجوانوں کا اپنی نظروں پر قابو نہیں رہا، وہ اس قدر دلدل میں پھنس چکے ہیں کہ نہ ردا کی سرسراہٹ، نہ گریباں کی چرچراہٹ، کوئی بھی طاقت انھیں اس دلدل سے باہر نکالنے کو کافی نہ تھی۔ میں نے پوچھا تمہارے پاس تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی حیا تھی وہ کہاں کھو گئی؟
آواز آئی:
“گنوا دی ہم نے جواسلاف سے میراث پائی تھی”
میرے قدم اور آگے بڑھے تو ،میں نے دیکھا کہ لمبی قطار ہے، لوگ آپس میں لڑ رہے ہیں، کوئی حق کے لیے آواز بلند کرنے کو تیار نہیں، سب باطل کے آگے ہار چکے ہیں، یہ معاملہ دیکھ کر میں گھبرا گئی اور کہا تمہیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بہادری وراثت میں ملی تھی وہ شجاعت کہ جس کی قسم خدا کے محبوب خود اٹھاتے رہے؛ وہ کہاں کھو گئی؟
آواز آئی۔
“گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی”
میرے قدم آگے چلے، راہ کافی لمبی، اور دشوار تھی۔ قدم قدم پر یہ برائیاں دیکھ کر میرے قدم ڈگمگا رہے تھے۔ کچھ فاصلے پر دیکھا کہ بچے والدین کی عزت نہیں کر رہے، ان کے لیے دکھ اور تکلیف کا سبب بن گئے ہیں (یہ تو وہی تھے نا جنہیں ان کی راحت کا سبب بننا تھا؟)
بڑوں کی بچوں کے لیے شفقت اور بچوں کی بڑوں کے لیے عزت سب کھو گئی تھی۔ میں نے پوچھا کہ تمہارے پاس تو حضرت محمد ﷺ کی ذات کا نمونہ موجود تھا نا جسے تم نے اپنا راہنما بنا کے اپنانا تھا۔ وہ ذات کہ جس کے اخلاق کی گواہی خود خدا نے اپنی محبوب کتاب میں دی ہے وہ کہاں گنوا دیا؟
آواز آئی:
“گنوا دی ہم نے جواسلاف سے میراث پائی تھی”
آنکھ کھلی تو پیشانی پسینے سے شرابور تھی، میرا دل مجھ سے بس یہی کہہ رہا تھا
”گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی“
تبھی تو
“ثریا سے زمین پر آسمان نے ہم کو دے مارا”
میں بد حواس ہو کر اُٹھ بیٹھی اور اپنا قلم اٹھایا جو کئی برس سے خاموش تھا، قلم کی نوک کپکپاتی رہی اور میں ناسمجھی میں ٹوٹے الفاظ قرطاس پر بکھیرتی گئی۔ اِس امید پر کہ کوئی تو ایسا ہو گا یا آئے گا جو انھیں پڑھ سکے گا جو سمجھ سکے گا، وہ امت مسلمہ کا درد جو محسوس کیا، میں نے اسے لفظوں میں ڈھالنے کی سعی کی تاکہ کوئی تو اس سے سبق حاصل کر سکے۔ کیوں کہ کہیں پڑھا تھا
“الفاظ” اس دنیا کی طاقت ور اشیاء میں شامل ہیں۔
تحریر: بنتِ حسن

