رضوانہ ڈریکولاٶں کی بھینٹ چڑھ گٸی
Article by Ali Abbas Rizvi
سال 2023 اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ اس میں کچھ واقعات ایسے تھے جنہوں نے ہر درد دل رکھنے والے انسان کو ہلا کر رکھ دیا جن میں سرفہرست غزہ پر اسرائیلی بربریت اور اس پر عالمی خاموشی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں دو ایسے واقعات ہوئے جن کا نوحہ ہر درد دل رکھنے والے کو لکھنا چاہیے تھا لیکن سرخے، موم بتی مافیا لبرلز اسے شیر مادر سمجھ کر پی گئے۔ پہلا واقعہ ایک جج کی بیگم کا رضوانہ نامی بچی پہ بہیمانہ تشدد اور دوسرا واقعہ بہاولپور یونیورسٹی میں پانچ ہزار سے زائد عورتوں کا جنسی استحصال ہے۔ اس کے علاوہ سارہ انعام کو جیسے اس کے شوہر نے ڈمبل مار مار کر قتل کیا یہ سب واقعات ایسے تھے جن پر بات کرنا، ان مسائل کا حل ڈھونڈنا حکومت کے ساتھ ساتھ ہر درد دل رکھنے والے شہری کی ذمہ داری ہے۔
ہر سال کی طرح امسال بھی آٹھ مارچ کو عورت مارچ کا اہتمام کیا گیا ہے جس کا اعلامیہ جاری کردیا گیا جسے پڑھ کر حیرانی ہوٸی کہ عورتوں کے مساٸل اور ان کے حل کی بجاۓ اس اعلامیے میں قادیانیوں کے لیے راہ ہموار کرنے، گستاخوں کو رہا کروانے، شیعہ سنی فساد کو ہوا دینے اور جینڈر ٹرانس کروا کر عورت کی مشابہت اختیار کرنے والے قبیح شکل مردوں کو عورتوں جیسے پروٹوکول دلانے کا یورپ برآمد مکروہ ایجنڈہ شامل ہے۔
کیا گستاخوں کی رہاٸی، آٸین پاکستان کی خلاف ورزی کرکے قادیانیت نوازی کی حمایت اور شیعہ سنی فساد ہوا دینے سے پاکستان میں عورتوں کے مساٸل حل ہوجاٸیں گے؟
دراصل چند ملحد اور قادیانی عورتیں اسلام دشمنی اور یورپی ایجنڈے کے تحت ایک دن واہیات مارچ کرکے اسلامی اقدار اور عاٸلی نظام کے خلاف پروپیگنڈہ کرکے اپنے مغربی آقاؤں کو رپورٹ بھیج کر ڈالر وصول کرتی ہیں اس کے علاوہ پورا سال عورتوں سے ہونے والی زیادتیوں سے ان کا کچھ تعلق نہیں۔
رضوانہ پر تشدد کرنے والی جج کی بیوی اور بہاولپور یونیورسٹی میں عورتوں کا جنسی استحصال کرنے والے چونکہ مذہبی طبقے کی بجائے ان کی طرح دین بیزار طبقے کے لوگ تھے لہٰذا ان کے خلاف نہ کسی نے مارچ کیا نہ ان کے خلاف کسی عدالتی کاررواٸی کا کوئی فیمنسٹ حصہ بنی، نہ ہی کسی عورت مارچ والی نے ناظم جوکھیو کی بیوہ کو سہارا دیا جس کا خاوند قتل کرکے اسے ڈرا دھمکا کر قاتل کو معافی دلا دی گٸی ۔
سال بھر پنجاب اور سندھ سمیت پورے ملک میں پولیس کے تشدد کا شکار ہزاروں عورتوں کے لیے آواز بلند کرنے کی بجائے مغربی ایجنڈے کو پروموٹ کرنے والی عورتیں عورتوں کے حقیقی مساٸل کو دبانے میں پیش پیش ہیں۔
ملک عزیز میں ہزاروں عورتیں جعلی عاملوں، یونیورسٹی لیکچرارز، پروفیسرز اور ورکنگ ویمن کولیگز کے ہاتھوں جنسی استحصال کا شکار ہوتی ہیں۔ سینکڑوں چھوٹی بچیاں درندگی کے بعد قتل کردی جاتی ہیں۔ عورتوں کو میراث سے محروم رکھا جاتا ہے۔ سینکڑوں کم عمر لڑکیوں کو چائلڈ لیبر ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گھروں میں ملازمہ کے طور رکھا جاتاہے جن میں سے بیشتر بے رحم مالکان کے تشدد کا شکار ہوتی ہیں ، جنہیں اکثر رپورٹ تک نہیں کرنے دیا جاتا۔ یہ عورتوں کے حقیقی مسائل ہیں لیکن ان پر بات کرنے کی بجائے نام نہاد عورتیں جینڈر ٹرانس کرانے والے قبیح مردوں کے حقوق کیلٸے مری جا رہی ہیں جس کی اصل وجہ وہ فنڈنگ ہے جو یورپ انہیں اس گند کو پرموٹ کرنے کے لیے دیتا ہے۔
ان عورت نما ڈریکولاٶں کا شکار یونیورسٹی سٹوڈنٹس اور ورکنگ ویمن ہیں میری ان سے دست بستہ گزارش ہے کہ ان عورت مارچ والی ڈریکولاٶں سے بچیں ان کے ساتھ مارچ میں شرکت وغیرہ اور کمپین میں حصہ لینے سے گریز کیجئے۔ ان کا مقصد ہرگز آپ کو حقوق دلانا نہیں بلکہ آپ کے کندھوں پہ بندوق رکھ کر گستاخوں کی حمایت کرنا، جینڈر ٹرانس کراکے عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والے قبیح مردوں کو آپ کی جگہ نوکریاں دلانا ان غیر مردوں کو آپ کی پرائیویسی میں داخل کرنا اور عورتوں کے پروٹوکولز دلانا، ہم جنس پرستی کو فروغ دینا اور خاندانی نظام تباہ کرکے آپ کو یورپی خواتین کی طرح ذلیل و خوار کراوانا ہے جو صرف پیسہ کمانے کی مشینیں ہیں ان کا کوئی رشتہ کوٸی ناطہ نہیں۔
ان نام نہاد عورتوں سے بچیں یہ آپ کی نمائندہ نہیں ہوسکتیں، یہ آپ کے اصل حقوق کو نظر انداز کرکے اپنے مکروہ دھندے پہ لگی ہیں اور آپ کے اصل مساٸل دب کر رہ گٸے ہیں۔ کوئی آپ کی حقیقی مساٸل اور ان کے حل کی بات نہیں کرتا آپ خود اپنے حقوق جانیے۔ سورة نساء کا مطالعہ کیجیے۔ اسلام سے پہلے عورتوں کی حالت زار اور اسلام عورتوں کو جو حقوق دیتا ہے ان کا مطالعہ کیجیے۔ اپنے آقا و مولا صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کیجئے۔ کیسے انہوں نے زندہ درگور ہونے والی بچیوں کو بچا کر انہیں پالنے والوں کو جنت کی بشارت دی۔ اپنے موجودہ مساٸل کا جائزہ لیجیے آپ کو ہر ایک مسٸلے کا حقیقی اور بہترین حل اسلام میں نظر آۓ گا۔
فی الوقت بھی پاکستان میں عورتوں کا جو استحصال ہو رہا ہے اس کی وجہ مذہبی طبقہ نہیں اسلام سے دوری ہے جو رضوانہ پہ تشدد کرنے والی جج کی بیگم آزاد ہے۔ بہاولپور یونیورسٹی کے جنسی درندے قانون کی گرفت سے دور ہیں، اگر شریعت نافذ ہوتی تو ان کا احتساب کیا جا چکا ہوتا۔ اگر عورتیں سچ میں خود سمیت باقی ماندہ عورتوں کے حقوق کی جنگ لڑنا چاہتی ہیں تو اس نام نہاد عورت مارچ کی بجاۓ نفاذ دین کی بات کریں۔ ہر مظلوم کو چاہے مرد ہو یا عورت بس دین ہی حق دلوائے گا۔
تحریر: علی عباس رضوی