عشق رسول ﷺ اور نوجوان نسل
Article by Fazal Ahmad Rajpoot
لفظ ’’عشق‘‘ عام روز مرہ کی گفتگو میں استعمال ہوتا ہے لیکن رسول اکرم ﷺ کے ساتھ ’’عشق‘‘ ایک وسیع اور خصوصی جذبہ عقیدت کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔لغت کے لحاظ اور معنی کے طور پر لفظ عشق کی تعریف ’’گہری محبت‘‘ یعنی (Great Passion) ہے۔ لیکن عشق رسول میں لفظ ’’عشق‘‘ نہایت وسیع معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔
علامہ اقبال لکھتے ہیں
’’عشق کسی شے کو اپنے اندر جذب کرلینے اور اپنا جزو حیات بنا کر اپنا لینے کا نام ہے
عشق رسول ﷺ ایک عظیم دولت ہے اور خوش نصیب ہیں جو اس دولت سے مالا مال ہیں اور سب سے بڑھ کر خوش نصیب ہیں وہ جنھوں نے اپنی جوانیوں میں ہی اس دولت کو حاصل کر لیا ہے اور اس کے مطابق اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں
کسی بھی ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے والے نوجوان ہوتے ہیں اور نوجوان نسل ہی کسی ملک و قوم کا اہم سرمایہ ہوتی ہے اور یہ آنے والی نسلوں میں نئی روح پھونکتے ہیں اور جب ان کی سمت درست نہ ہو گئی ان کے عقائد درست نہ ہوں گے کوئی بھی معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتا
ایک مسلمان نوجوان کو الله پاک نے ایک عظیم دولت سے نوازا ہے کہ وہ ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا اور اسے اسلامی معاشرے میں پروان چڑھنے سے موقع ملا اور یہ ایک ایسی لازوال نعمت ہے جس کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔
ہمارے عقائد اس وقت تک درست نہیں ہو سکتے جب تک ہمارے اندر عشق رسول ﷺ کی دولت نہیں ہو گی
مسلمان ہزاروں برس حکومت کرتے رہے اس کی وجہ صرف اور صرف عشق رسول ﷺتھی جب تک ان کے اندر عشق رسول ﷺ کا جذبہ پیوست تھا وہ دنیا پر حکمرانی کرتے رہے۔
اگر ہم اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ عشق رسول ﷺ میں صحابہ کرام نے نہ اپنی جان دیکھی نہ اولاد دیکھی نہ مال دیکھا نہ ہی اپنے ماں باپ کو دیکھا،
جب حضور ﷺنے دعوت اسلام کا آغاز کیا تو اس وقت اسلام قبول کرنا اپنی جان کو جوکھوں میں ڈالنے والا کام تھا لیکن اس وقت بھی اکثریت جوانوں کی ہی تھی
ابوبکرصدیق رضی اللّٰہ عنہ پہلے اسلام لاتے ہیں وہ جوان ہیں لیکن ان کے والد بعد میں اسلام لائے حضور اکرم ﷺ کے چچا زاد بھائی پہلے اسلام لاتے ہیں لیکن چچا عباس رضی اللّٰہ عنہ بعد میں اسلام لاتے ہیں
اور یہ عشق رسول ﷺ ہی ہے جو دو کم سن بچوں کو غزوہ بدر میں لے گیا اور ان کے ہاتھوں اس کو جہنم واصل کرواتا ہے جسے حضور اکرم ﷺ نے اپنے وقت کا فرعون کہا ہے
اور یہ عشق رسول ﷺہی ہے کہ غزوہ احد کے موقع پر جوانوں نے باہر نکل کے دشمن کے ساتھ میدان سجانے کا فیصلہ کیا
اور یہ عشق رسول ﷺ ہی ہے کہ غزوہ احد میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنی جانوں کی پرواہ نہیں کی حضرت طلحہ رضی اللّٰہ عنہ کے ہاتھ شل ہو گئے لیکن حضور ﷺ پر آنچ نہ آنے دی۔
اور یہ عشق رسولﷺ ہی تھا کہ بلال رضی اللّٰہ عنہ کو مکہ میں حرہ کی زمین جو گرمیوں میں تانبے کی طرح تپتی ہے اس پر لٹا کر سینے پر بھاری پتھر رکھ کر اسلام سے روکا جا رہا ہے مگر وہ احد احد کیے جا رہے ہیں۔
اسی طرح اگر آج بھی ہم اپنے اندر عشق رسولﷺ کا جذبہ پیدا کر لیں تو امت مسلمہ پوری دنیا پر غالب آ سکتی ہے اور دنیا کی کوئی طاقت انہیں شکست نہیں دے سکتی
نوجوان ہی وہ طاقت ہیں جو کسی بھی معاشرے کی عروج اور زوال کا باعث بنتے ہیں اگر نوجوان اپنے اندر اس دولت کو پیدا کر لیں تو وہ پوری دنیا میں انقلاب لا سکتے ہیں
نوجوان نسل اپنے علم و عمل اپنے اخلاص اپنے تقوی و کردار کو سنت نبوی ﷺ کے مطابق ڈھال لیں مسلمان جب تک ان پر گامزن رہے وہ پوری دنیا پر غالب رہے
محبت رسول ﷺکے بغیر دارین میں بقا کا کوئی ذریعہ اور جواز نہیں ہے اور جو تن اس محبت سے خالی ہے اس کا ہونا اور نہ ہونا برابر ہے انسان کا دل اگر کسی چیز سے ایسے زندہ ہوتا ہے کہ وہ تمام آفاقی سچائیوں کو پا لے تو وہ صرف اور صرف عشق رسول ﷺ ہی ہے
اور اسی کی بدولت وہ دنیا کی ہر طاقت سے ٹکرا سکتے ہیں آج کے نئے دور میں کسی نے نوجوانوں کو عشق رسولﷺ کی طرف گامزن نہیں کیا بلکہ نوجوان اس چیز سے دور ہوتے جا رہے تھے تباہی کی طرف قدم بڑھا رہے تھے لیکن ایک بابا آیا جو بظاہر تو وہیل چیئر پر تھا جو خودچل نہیں سکتا تھا مگر لاکھوں کو چلنا سکھا گیا اور اس نے اپنے کلام سے اپنے افکار سے اپنے اخلاص سے اپنے خطابات سے مسلمانوں خصوصاً نوجوانوں کے اندر عشق رسول ﷺ کی ایک ایسی شمع روشن کی کہ آج ہمارے نوجوان عشق رسولﷺ کے جام پی کر ایسے مست ہیں کہ وہ بڑی سے بڑی طاغوتی طاقت ٹکرا سکتے ہیں۔
عشق رسول ﷺ کی حال میں نوجوانوں میں تازہ مثال امیر المجاہدین کے لخت جگر تحریک لبیک یارسول ﷺ کے امیر محترم علامہ حافظ سعد حسین رضوی صاحب ہیں۔
دنیا نے دیکھا عمر صرف 27 سال ہے ابھی شباب کے دن ہیں یہ وہ عمر ہے جس میں نوجوان غیر اسلامی سرگرمیوں میں ملوث پائے جاتے ہیں مگر یہ نوجوان نبی ﷺ کے عشق میں مبتلا ہے، جس عمر میں نوجوان عالم شباب کے مزے لے رہے ہوتے ہیں اس عمر میں یہ نوجوان حضور ﷺ کی ناموس پر پہرا دینے کی پاداش میں جیل کاٹتا رہا مگر حوصلے پھر بھی چٹانوں سے بھی مضبوط ہیں تو کس لیے کہ
جو ہو نہ عشق مصطفیٰ ﷺ تو زندگی فضول ہے
حال ہی میں ناموس رسالت ﷺمارچ جو لاہور سے چلنا شروع ہوا تو ان پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے گئے مگر وہ آگے بڑھتے رہے کس چیز نے انھیں آگے بڑھنے پر مجبور کیا؟ تو وہ چیز نبی پاک ﷺ کا عشق تھا جو انھیں وزیر آباد تک لے آیا۔
پھر دنیا نے وہ منظر بھی دیکھا
کہ کس طرح ان پر مسلمانوں کے لبادے میں پوشیدہ یزیدیت کے پیروکاروں نے سٹریٹ فائر کیے، اندھا دھند گولیاں چلائیں، شیلنگ، گرینڈ بم، لاٹھی چارج کیے مگر کوئی چیز بھی انہیں ان کے مقصد( نبی پاک ﷺ کی ناموس ) سے پیچھے نہ ہٹا سکی
یہ عشق رسول ﷺ ہی تھا کہ جس نے انھیں ان کے اس عظیم مقصد میں کامیابی سے ہمکنار کیا
بس ہمیں اب اپنے نوجوانوں میں اس شمع کو بجھنے نہیں دینا بلکہ اسے مزید بڑھانا ہے۔ جب نوجوان حب رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم میں ڈوب جائیں گے۔ تو ایک دن اس باطل نظام سے نوجوان قیادت ہی اس قوم کو دور کرے گی
آخر میں حکیم الامت علامہ محمد اقبال اقبال کے اس شعر سے اختتام کرتا ہوں
اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد
تحریر: فضل احمد راجپوت