آج احتجاج کیوں؟
Article by Raja Shahzad Rafiq
خون حسین کی قسم یہ ہے ارض کربلا
لاکھوں یزید ہیں یہاں نعرہ حق لگا کے دیکھ
ایک طرف ناموس رسالتﷺ کے پروانوں کا وہ احتجاج تھا جیسے یوتھیے صبح شام ملامت کرتے تھے، کسے کے بچے کی پڑھائی شدید متاثر ہو گئی تھی تو کسی کو ایمبولنس میں پڑا مریض مرنے پر ہمدردی کے دورے پڑ رہے ہوتے تھے۔ کوئی کہتا تھا اسلام آباد میں گند ڈال رہے ہیں تو کوئی کہتا تھا گستاخی فرانس میں ہوئی ہے یہ پاکستان میں کیوں رولا ڈال رہے ہیں۔ غرض ناموس رسالتﷺ کے وہ متوالے 23 شہیدوں کے لاشے اٹھانے کے بعد بھی اور ان سستے دانش گردوں کی دانش بھبتیوں کو سننے کے بعد بھی لبیک کی صدائیں ہی بلند کرتے تھے۔ وہ بوڑھا نحیف عالم جس کی ایک آواز پر سروں کی فصل کٹنے کو تیار ہو جاتی تھی یہ کہا کرتا تھا کہ تم ناموس رسالتﷺ کے پہرے دار بن جاو اور پھر مجھے جوتے پالش کرنے کے لیے رکھ لو میں تمہارے جوتے پالش کروں گا لیکن تب خان صاحب کو رزاق یورپ نظر آتا تھا تب انہیں قہار امریکہ لگتا تھا وہ کہتے تھے معیشت تباہ ہو جائے گی اگر ناموس رسالتﷺ کے مجرم کو احتجاجا ملک بدر کیا تو۔
پھر ناموس عمران پر عمران خان بھی اپنی کھال سے باہر نکلا ، یوتھیوں کو بھی غیرت و خوداری کا درس دینے لگا، سڑکیں بھی بلاک ہوئی، احتجاج بھی ڈٹ کر کئے گئے، امریکہ اور یورپ کو بھی لعنت ملامت کی گئی، جس فوجی کو خود ایکسٹنشن دی تھی اسے پھر پوری قوم یوتھ بھی جھاگ نکالنے لگی۔ نا ملک کو کسی انتشار کا خطرہ تھا نا بچوں کی تعلیم پر اثر پڑھ رہا تھا، نا ایمبولینس میں لوگ مر رہے تھے ، سازش امریکہ کی اور احتجاج پاکستان میں والے دانش گرد زندہ رہے تھے۔
او غیرت و خوداری کے پیپو یہ احتجاج اور یہ شور شرابہ رسول اللہ کی ناموس پر نہیں کیا تو خان کی زلالت پر کرنے کا کیا جواز بچ جاتا ہے۔ روتے پیٹتے رہو۔ ہمیں تو ناموس رسالتﷺ کے وہ 23 لوگ یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں انظر حالنا یا رسول اللہ تو خان کے ہمدرد بھی ظالم لگنے لگتے ہیں۔
افسوس صرف ایک بات کا ہوتا ہے کہ ناموس رسالتﷺ کے مجرم گئے ہیں تو ختم نبوتﷺ کے مجرم آ رہے ہیں۔
اللہ اس ملک کو اسلامی نظام اور صحیح معنوں میں صادق و امین حکمران عطا کرے۔
آمین
بقلم: راجہ شہزاد رفیق
👍💫