میں کتا پاک رسول ﷺ دا

Article by Bint E Hassan Rizvia
کتا پاک رسول اللّٰہﷺ دا بھونکے شور مچاوے
ناموسِ رسالت ﷺ گلشن وچ کوئی سور نا پھیرا پاوے!!
ہر دور میں اہل ایمان اور عاشقوں نے آپﷺ سے تعلق اور محبت کی لازوال داستانیں رقم کی ہیں۔ تاریخ کے کسی موڑ پر کسی بدبخت نے جب بھی نازیبا حرکت کرنے کی کوشش کی، کسی بدبخت نے آپﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی کرنے جیسی شرم ناک جسارت کی؛ تو مسلمانوں کے اجتماعی ضمیر نے شاتم رسولﷺ کے مرتکبین کو کیفر کردار تک پہنچا دیا۔ یہود و نصاریٰ شروع دن سے ہی مسلمانوں کو ایذا دینے کے لیے رسولﷺ کی شان مبارک میں نازیبا کلمات کے مرتکب ہوتے رہے ہیں۔
جہاں جب گستاخ نے گستاخی جیسا گھناؤنا جرم کیا۔ وہیں اللّٰہ پاک نے رسول اللّٰہﷺ کے دیوانے پیدا کیے جو بنا کسی ڈر اور خوف کے دن رات اسی عزم میں رہتے کہ “کب گستاخ ہاتھ آئے اور وہ اس گند سے اٹھنے والی ناپاک بُو کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے صفایا کر کے اس دنیا کو پاک کر دیں۔”
جو گستاخ رسول ﷺ مسلمانوں کی تلواروں سے بچ نکلتے ہیں ۔اللّٰہ پاک خود انھیں عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے۔ زمانے نے دیکھا ہے ‘ کوئی رسوائی کا شکار ہو کر مر جاتا ہے۔ کسی کو قبر قبول نہیں کرتی تو کسی کی موت دنیا کے لیے ایک معمہ بن جاتی ہے۔
ان تمام روایات و واقعات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے تاریخ کے یہ پنے اپنوں اور بیگانوں کو اہم پیغام دے رہے ہیں ۔ کبھی بھی رسولﷺ کی ذات اقدس مبارک اور آپﷺ کےقول و فعل میں کوئی غلط حرکت سرزد نہ کرو۔
ایسی حرکتوں سے امام انبیاء علیہ السلام حضور اقدس ﷺ کی شانِ مبارک میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ لیکن آپ خود اپنی دنیا و آخرت تباہ کر بیٹھو گے۔رسوائی و ذلالت یہاں بھی اور ابدی جہاں میں بھی مقدر بن جائے گی۔
گستاخِ رسولﷺ ابو لہب سے لے کر سلمان تاثیر تک جتنے بھی گستاخ گزرے ہیں۔ انھیں وقت کےمردِ مجاہدوں نے کیفرِ کردار تک پہنچا کر جہنم رسید کر کے آقا و مولا محمد مصطفی ﷺسے محبت کا ثبوت دینے کے ساتھ ساتھ دنیا کو پیغام دیا ہے کہ’ چودہ سو سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی عاشق نبیِ مکرم رسول اللّٰہ ﷺ کی ناموسِ رسالت پر جان دینے اور لینے سے دریغ نہیں کرتے۔
“ہر دور میں اللّٰہ نے ایک مجدد پیدا کیا ہے ۔ جیسے اکبر بادشاہ کے سامنے مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ”
اکیسویں صدی کا مجدد وہ نڈر تھا۔ جن کے بارے میں مجھ جیسی کم عقل اور کم فہم کچھ کہنے سے قاصر ہے۔آپ وہ تھے جو دردِ عشق یعنی عشقِ مصطفی ﷺ کی خوشبو کو خود پر لیپٹے ٹھٹھرتی سرد راتوں میں عالم کفر کو ناکوں چنے چبوانے والے امیر المجاہدین الشیخ الحدیث علامہ حافظ خادم حیسن رضوی رحمتہ اللّٰه علیہ ۔”
جن کی زبان پر ہر وقت رسالت مآب نورِ خدا محمد مصطفی ﷺ کا نام مبارک رہتا تھا ۔جہاں بے شمار لوگ معاشرے سے بے دخل ہونے کے خوف سے خاموش رہتے تھے ۔وہ ان خوف ناک تجزیوں کو خود پر آزماتے رہتے تھے۔
” قائد اعظم کے بعد صرف ایک بابا قوم کو دوبارہ ملا ۔جنہوں نے علامہ اقبال رحمتہ اللّٰہ علیہ کی فکر و نظریہ اور خودی کو لوگوں میں ایسا اجاگر کیا کہ’ نوجوانوں نے آپ کو بابا جان کا خطاب دے دیا ۔”
اگر یہ کہا جائے اقبال کو صحیح معنوں میں سمجھا ہی مولانا علامہ خادم حیسن رضوی نے ہے’ تو کچھ غلط نہ ہو گا۔
روشن چمکتی گہری سیاہ جھیل سی آنکھوں والا،ملائم اُجلی نکھری رنگت والا ،سفید داڑھی، سر پر عمامہ سجائے پُرکشش سا وہ اقبال کا شاہین تھا ۔جس پر بے شمار کوے کائیں کائیں کرتے تھے۔
جیسے شاہین کوے کو کچھ نہیں کہتا بلکہ اونچی اُڑان بھرتا جاتا ہے اور کوے کی سانسیں اس پر تنگ کر دیتا ہے۔ بابا جان بھی وہ شاہین تھے۔” گستاخوں اور غداروں کی سانسیں ان پر تنگ کرنے والے۔” جن کی للکار سےعالمِ کفر پر ہبیت طاری ہو جاتی تھی۔
بابا خادم رضوی رحمتہ اللّٰہ علیہ وہ بے باک بہادر مجاہد تھے۔ جن کی محبت میں بے شمار لوگ گرفتار تھے۔ جن کے لفظوں کی مہک نے مردہ دِلوں کو خوشبو بخشی ۔ جن کو سُن کر دل بے قرار ہو جاتے تھے اور اُن کو بار بار سننے کو دل کرتا ۔
فارسی پر عبور حاصل تھا۔عربی، فارسی اور علم کا ایک رواں دواں سمندر تھے۔اس کے علاوہ آپ دشمنانِ دیں کے لیےشعلہ بیان خطیب تھے۔واعظ ایسے کہ باتیں دل چیر کر اندر داخل ہوں، دلیر ایسے کہ مولا علی رضی اللّٰہ عنہ کی یاد تازہ کریں، عاشقِ رسول ﷺ ایسے کہ اہل بیعت کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کی یاد تازہ ہوجائے۔
آپ علامہ اقبال علیہ الرحمہ سے بے حد عشق کرتے تھے۔ اقبالیات پر مکمل عبور حاصل تھا اور اقبال کے سارے کلام کے حافظ تھے۔اپنے ہر بیان میں اقبالؒ کے شعروں کو بیان کرتے تھے اور ایسی روانی سے اقبال کے شعر پڑھتے تھے جیسے کلامِ قبال گھول کر پیا ہو۔
ہم بد نصیب لوگ ہیں کہ زندگی میں عظیم انسانوں کی پہچان نہیں رکھتے، پھر اُن کے دنیا سے رخصت ہونے پر روتے ہیں۔ ان کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ پھر ان جیسا ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے ہی بابا جی اس صدی کے مجدد عاشقِ رسول ﷺ تھے ۔
جنہوں نے جوانوں کو جوانی کا مطلب بتا دیا ۔
ہماری خوش نصیبی کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ہمیں امیر المجاہدین علامہ خادم حسین رضویؒ جیسا سچا عاشقِ رسول ﷺ عطا کیا تھا۔ لیکن افسوس ہم لوگوں نے اُن کی زندگی میں اُن کی قدر نہ کی، ان کو سمجھ نہ پائے۔
تبھی راتوں میں ایک رات ایسی بھی آئی کہ اہلسنت پر قیامت صغریٰ بن کر چھائی ۔ جب سنا تو عجیب سی کیفیت طاری ہو گئی دل ماننے سے انکاری رہا کہ ایسا ممکن ہو ہی نہیں سکتا ۔ابھی تو ان کو سُنا تھا ابھی تو دیکھا تھا پھر کیسے آپ اچانک یہ سب ؟ “لفظ ختم ہو گئے ‘احساسات منجمد ہو گئے ‘ جذبات جم گئے ۔” زبان کچھ بھی بولنے سے عاری ہو گئی۔” وہ گیا تو جیسے سبھی رنگ لے گیا اتار کر شہر کے ۔” کروڑوں دلوں کو دکھ سے دوچار کر کے وہ رسول ﷺ کے حضور پیش ہو گئے ۔”
مؤرخ لکھنے کو کچھ بھی لکھے یا نہ لکھے لیکن’ یہ لکھنا نہ بھولے’ کہ” علامہ حافظ خادم حسین رضوی صاحب۔” کا تعارف صرف اتنا تھا کہ’میں کتا پاک رسول اللّٰہ ﷺ دا”
یہ زمانہ، امامِ وقت، عاشقِ رسولﷺ ، بابا جی خادم حسین رضویؒ کو کبھی بھول نہ پائے گا۔
دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہمیں بھی رسول کریمﷺ کے ساتھ سچا عشق کرنے والا بنا دے اور ہمارا انجام عاشقِ مصطفیﷺ کے نام پر ہو ۔
عشق مصطفیﷺ میں جو لوگ جاں سے گزرجاتے ہیں حقیقت میں وہی تو اصل میں زندگی کو پا جاتے ہیں۔
تحریر: بنتِ حسن رضویہ