ہمارا اخلاقی زوال اور نجات کی راہ

Article by Bint-e-Sajjad
پاکستانی معاشرے کی موجودہ انحطاط کی بہت بڑی وجہ اخلاقی بحران ہے ۔ قومی ناؤ حالات کے بھنور میں کچھ ایسے پھنس کر رہ گی ہے کہ اس سے نکلنا آسان نظر نہیں آتا ۔ہماری نوجوان نسل جس اخلاقی تباہی کا شکار ہو چکی ہے اسکی اصلاح میں شاید کئی دہائیاں لگ جایئں۔
آج دلیل کی جگہ گالی نے لے لی ہے ، انصاف کی جگہ بے انصافی اور لا قانونیت نے لے لی۔ جگہ جگہ لوٹ مار، دھوکہ دہی، چوری جھوٹ منافقت کا بازار سرگرم ہے۔ کیا عام کیا خاص ہر طرف آوے کا آوا ہی بگڑا دکھائی دیتا ہے۔ سوشل میڈیا سے لے کے عملی زندگی تک تو کردار کشی اور الزام تراشی معمول کا رویہ ہے۔ ذہن اس قدر منفی ہو چکے کہ اختلاف راۓ کا جواب گالم گلوچ اور تنقید براۓ اصلاح کا نتیجہ بغض اور بے جا بحث سے دیا جانے لگا ہے۔
کسی معاشرے کا حقیقی تشخص دراصل اسکے افراد کا اخلاقی تشخص ہوتا ہے گویا اخلاقیات قوموں کی پہچان ہوتے ہیں۔ دنیا میں وہی قومیں ترقی یافتہ کہلاتی ہیں جو اپنی تہذیب اور بنیادی اخلاقی اقدار کا دامن نہیں چھوڑتی لیکن اپنی اخلاقی روش سے غافل ہو جانے والی قومیں گمنامی کے اندھیروں میں اپنا وجود کھو دیتی ہیں۔
یہ ایک قابل افسوس حقیقت ہے آج ہمارا وطن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ان تمام اخلاقی اقدار کا فقدان دکھائی دیتا ہے جو ایک مثالی اسلامی ریاست اور اسلامی معاشرے کا خاصا ہونی چاہیے۔ وہ کونسا ایسا شعبہ ہائے زندگی ہے جو اخلاقی بگاڑ سے پاک ہو۔ اعلی سیاسی قیادت سے لے کر تمام تر قومی ملی ادارے کرپشن، جھوٹ، بدعنوانی، نا انصافی، رشوت خوری اور دیگر اخلاقی برائیوں کا شکار نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے ملک تاریخ کے بد ترین سیاسی اور معاشی عدم استحکام سے گزر رہا ہے۔
اخلاقی پستی کے اسباب
مشکلات آتی رہتی ہیں لیکن ایسے میں قوم کا اخلاقی مورال بلند کر کے پھر سے نئے عزم و حوصلہ کے ساتھ کھڑا کرنے میں خواص کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے۔ خواص سے مراد تعلیم یافتہ لوگ، علما کرم، سیاسی قائدین ، میڈیا اور صحافت کے شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے اور قومی اداروں کے ذمہ داران شامل ہیں۔
حالات کتنے ہی ابتر کیوں نا ہوں اگر قوم کے خواص بے غرض مخلص، ہمت و حوصلہ، جذبہ ایثار و قربانی، تعمیری اور اصلاحی فکر اور سوچ جیسی اعلی اخلاقی اقدار اور صفات سے متصف ہوں تو وہ پوری قوم میں ایک پھر سے تعمیر نو کا جذبہ اور حالات کو تبدیل کرنے کا عزم پیدا کر دیتے ہیں۔ لیکن قوم جب دیکھتی ہے کہ چاروں طرف محض ذاتی مفادات اور مال و شہرت کا بازار سرگرم ہے اور سیاسی قائدین قومی عوامی مفاد کی بجاۓ حصول اقتدار کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔ تو ایسے میں قوم کا اپنی قیادت پر سے اعتبار ختم ہو جاتا ہے۔ افراد عدم تحفظ کا شکار ہو جاتے ہیں، ذہنوں کی تعمیری اور تخلیقی صلاحیتوں کی جگہ مایوسی اور منفی سوچ پنپنے لگتی ہے۔ جب عوام اپنے خواص اپنے حکمران اور افسران میں اخلاقی گراوٹ دیکھتے ہیں تو انکے عقل و شعور میں بھی اپنی ذات اپنے مفاد ، مال و شہرت کا جائز ناجائز حصول اور چھینا جھپٹی ہی اصل جینے کا رنگ ڈھنگ ہے۔ ہمارے سیاسی قائدین کا کردار کیا ہے، سیاست چھوڑ ذاتی حثیت میں بھی اخلاقی پستی، جلسوں اور ٹی وی پر ایک دوسرے کے خلاف جس طرح کی زبان استعمال کی جاتی ہے سوشل میڈیا پر گھٹیا قسم کی کمپئین اور آئے روز کی نا زیبا غیر اخلاقی آڈیوز ویڈیوز لیکس بہت سے ایسے نوجوان جو ان سیاسی قائدین کو اپنا آئیڈل سمجھتے ہیں انکے ذہنوں پر اس سب کے کیا اثرات ہوں گے۔
اخلاقی گراوٹ کا بڑا سبب ہمارے ملک کا نظام ہے۔ عدل و انصاف کی کمی اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کا نتیجہ نفرت، بیذاری، عدم برداشت اور جرائم کی صورت میں نکلتا ہے۔ جب عام آدمی کو معمولی سے کاموں کے لئے خواری اور دھکے کھانے پڑے تو انکا ذہن ان چیزوں کا عادی ہو جاتا ہے۔ ایسے میں اپنے حق کے لئے آواز بلند کرنے کا حوصلہ اور جذبہ بھی آہستہ آہستہ ختم ہو جاتا ہے۔
صحافی حضرات جنہیں عام آدمی کا نمائندہ بننا تھا وہ اپنے زاتی مفاد اور شہرت کے درپے ہیں جس موقف میں زیادہ فائدہ دیکھا جاتا ہے پورے خلوص کے ساتھ اس کا ساتھ دے کر اسی کی چرچا کی جا رہی ہوتی ہے۔ میڈیا کو حق گوئی کی بجائے محض ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔
خواص کا ایک بڑا اہم طبقہ اعلی تعلیم یافتہ لوگوں کا ہے۔ تعلیم محض کاروبار اور پیسے کمانے کا ذریعہ بن چکی ہے۔ موجودہ تعلیمی ادارے بڑی بڑی ڈگریز کے ساتھ پیسہ کمانے والی مشینیں تیار کر رہے ہیں، اسکے ساتھ ہی تعلیمی اداروں کا ماحول اپنی اخلاقی قدروں سے کم اور غیروں کی ثقافت سے زیادہ مرعوب دکھائی دیتا ہے۔ جہاں ہولی ، ویلنٹائن ڈے اور کریکٹر ڈے جیسے تہوار منائے جاتے ہیں اور جہاں فیشن شو اور میوزیکل کنسرٹ کا باقاعدہ اہتمام کیا جاتا ہے۔ بیہودگی اور بے پردگی کو جدت پسندی اور روشن خیالی کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ ایسے تعلیمی اداروں سے نکلنے والے پڑھے لکھے نوجوان زیادہ تر عام ذہن کے مالک ہوتے ہیں جنکے نزدیک کامیابی اور ترقی کا معیار صرف مغرب ہے۔
کیونکہ جب کسی بھی معاشرے کا نظام تعلیم قومی مفاد سے مفاقت نا رکھتا ہو تو ایسی تعلیم با شعور بڑے آدمی پیدا کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے، وہ لوگ جو اپنی تہذیب اور اخلاق و روایت کے وفادار ہوں اور جو فکر رکھتے ہوں اپنی تعمیری سوچ اور تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ حالات بدلنے کے لئے محنت کر سکیں۔ حالانکہ حقائق کا مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے مغربی تہذیب تو خود سیکولر ازم اور لبرلزم کے تصورات سے متاثر ہے جسکے مطابق انسان کی زندگی کا مقصد محض ذاتی خوشی اور خواہشات کا حصول ہے اور مادی ترقی ہے۔ وہاں تو تعلقات اور رشتے بھی اسی بناء پر بنائے جاتے ہیں جسکا نتیجہ فرسودہ اور براے نام خاندانی نظام اور اپنی ذات کے خول میں بند حیوانیت ہے۔
علماء کرام کا ایک اہم فریضہ معاشرے میں دین اور اخلاقی اقدار کا تحفظ کرنا ہے۔ لیکن انتہائی معذرت کے ساتھ یہاں بھی زیادہ تر ذاتی غرض و غایت ، شہرت، بڑائی نام، اور عہدہ کی دوڑ نظر آتی ہے۔ کچھ درباری حضرات اپنے ذاتی و سیاسی مقاصد کی غرض سے دنیاوی لیڈروں کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف چند ایک مغربی لانچڈ اور دیگر فتنہ پرور اسکالرز ہیں جو دینی احکامات کی من پسند تشریح سےنوجوانوں کو۔گمراہ کر رہے۔ نتیجتاً آج بغض علماء کرام میں مبتلا لوگ حق گوئی کرنے والوں کا مذاق اڑاتے اور طعنے کَستے ہیں۔ جنہوں نے باطل کے خلاف جہاد کرنا تھا وہ آج حق پہچاننے سے بھی قاصر ہیں۔
امید سحر
نفسا نفسی کے اس دور میں بھی اہل حق کی ایک جماعت ایسی بھی ہے جو خلوص و صدق کے ساتھ ، بغیر کسی غرض و غایت جذبہ ایثار لئے دین و ملت کے تحفظ کے لئے میدان عمل میں موجود ہے۔ اس خطے کی تاریخ علماء اہل حق علماء و اکابرین اہلسنت کی وطن اور ملت کے لئے پیش کی گئی لا زوال قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔ یہاں عالمی غیر سیاسی مذہبی جماعت دعوت اسلامی کی خدمات قابل ذکر ہیں۔ جو علم دین کے سکھانے ساتھ ساتھ بچوں کی نوجوانوں کی اخلاق تربیت اور معاشرتی اصلاح کے کام کر رہی۔
اسکے علاوہ وہ تمام مذہبی اور غیر مذہبی تنظیمیں اور افراد جو بغیر کسی ذاتی غرض کے خالصتاً خدمت خلق کے جذبے سے لوگوں کی فلاح کے لئے کام کر رہے ہیں۔ علامہ رضا ثاقب مصطفائی صاحب، پیر اجمل رضا قادری صاحب اور دیگر تمام علماء کرام بھی اسی معاشرے اور دور حاضر کا حصہ ہیں جو تزکیہ نفس کے ساتھ ساتھ معاشرتی اصلاح اور افراد کی اخلاقی تربیت کے لئے اپنے حصے کا دیا جلائے ہوئے ہیں۔
ایسے ہی سیاسی سطح پر مرد قلندر علامہ خادم حسین رضوی کی قائم کردہ مذہبی سیاسی جماعت تحریک لبّیک پاکستان بھی امید کی ایک کرن بن کر ابھری ہے۔ امیرالمجاہدین نے اپنے فرزندان کے ساتھ ساتھ لاکھوں نوجوانوں کے اندر پھر سے نظام بدلنے کی تڑپ پیدا کی۔ انہوں نے معاشرے میں اقبال کے فکری تصور کو بیدار کیا اور امت مسلمہ کو انکے شاندار ماضی کی اعلی اخلاقی اقدار اور روایات سے روشناس کرایا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی بدولت آج لاکھوں لوگ دینِ مصطفیٰﷺ کو تخت پر لانا اپنا مقدس فریضہ سمجھتے ہیں۔ کیونکہ مسائل کا واحد حل دین اسلام کا نفاذ ہے۔
اخلاقی بحران سے نجات کی راہ
اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے اس پاک وطن کے تمام تر مسائل اور بحران کا واحد حل نظام مصطفیٰﷺ ہے۔
کیونکہ ہر چیز اپنی فطرت کی طرف لوٹتی ہے اور ارض پاک کو حاصل ہی اسلامی نظام کے نفاز کے لئے کیا گیا ہے۔ اسے حاصل کرنے کا مقصد عدل و انصاف پرمبنی ایک ایسا معاشرہ قائم کرنا تھا جسکا نظام اور جسکی تہذیب دین اسلام کے مقرر کردہ اعلی اخلاقی اقدار اور اصولوں پر قائم ہو، جہاں بھائی چارے اور باہمی تعاون کی فضا قائم ہو جہاں ہر فرد قومی فکر رکھتا ہو، قومی مفاد اور ملکی ترقی کے لئے ہمہ وقت کوشاں ہو۔
لہذا اس کے تمام تر مسائل تب ہی درست ہوں گے جب اسکی بھاگ دوڑ یہاں دین کو من وعن نافذ کرنے والی مخلص اور حق شناس قیادت کے ہاتھوں میں ہوگی۔
اسلام کا نظام ہی ہے جو انسان کی انفرادی زندگی سے لے کر تمام تر شعبہ جات سیاست ، معاشرت ، خاندانی نظام ، معشیت، جنگی حالات، علم و تحقیق غرض ہر سطح پر اعلیٰ اخلاقی قدروں اور معیار کو فوقیت دیتا ہے۔ اسلام کا نظام عدل کا نظام ہے اورعدل و انصاف پر مبنی معاشرہ ہی بہترین اخلاقی اقدار کا معیار ہے۔
تحریر: بنت سجاد




