وہ لوگ جنہیں مقامِ مصطفیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سمجھ نہیں آتا

Article by (اِک خاک زادی)
الصلوٰۃ والسلام علیک یا سیدی یا رسول اللّٰہ
وعلیٰ اٰلک واصحابک یا سیدی یا حبیب اللّٰہ
الصلوٰۃ والسلام علیک یا سیدی یا رسول اللّٰہ
وعلیٰ اٰلک واصحابک یا سیدی یا خاتم النبیین
وہ لوگ جنہیں مقامِ مصطفیٰ ﷺ سمجھ نہیں آتا
جب سے کائنات تخلیق ہوئی ہے آج تک کوئی ایسی شخصیت نہیں گزری جو حقیقت میں آقا کریم سید دو عالم ﷺ کا اصل مقام بیان کر سکے کیونکہ آپ ﷺ کا اصل مقام تو رب العالمین جانتا ہے۔
اس لیے ہم جیسوں کے سمجھنے کے لیے یہ الفاظ ہی کافی ہیں کہ:
“بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر”
اصل میں مقامِ مصطفیٰ ﷺ اور شانِ مصطفیٰ ﷺ جو عشقِ مصطفیٰ ﷺ سے خالی دل کے لیے سمجھنا ممکن ہی نہیں۔
لیکن میرا آج یہ لکھنے کا مقصد صرف ان لوگوں کیلئے ہے جو ہر بات میں قرآن کریم سے دلیل چاہتے ہیں۔اگرچہ پورا قرآن ہی آپ ﷺ ہیں۔ لیکن میں آج یہاں صرف دو آیات مبارکہ کا ہی ذکر کروں گی۔جن میں ایک آیت شانِ اقدس اور مقامِ مصطفیٰ ﷺ بیان کرے گی اور دوسری آیت “ادبِ مصطفیٰ ﷺ کا درجہ اور اہمیت” بیان کرے گی۔
• شانِ مصطفیٰ اور مقامِ مصطفیٰ ﷺ
جو اندھے دل کے لوگ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ جی کہاں لکھا ہے قرآن میں؟ یعنی چلیں اگر یہ قرآن ہی کی مانتے ہیں تو یہ بھی جانتے ہوں گے قرآن کے احکامات کو ماننا ان پر عمل اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت ہے درحقیقت۔ اس بات سے لوگ انکار نہیں کرتے تو آئیں قرآن ہی سے سمجھ لیتے ہیں کہ قرآن پاک مقامِ مصطفیٰ ﷺ کے بارے میں کیا کہتا ہے؟؟
جیسا کہ سورۂ احزاب کی آیت نمبر 56 میں حکم ہے:
ترجمہ:
“بےشک اللّٰه تعالیٰ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں نبی کریم ﷺ پر۔ اے ایمان والو! تم بھی آپ ﷺ پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو۔”
اب تو یہ لوگ بھی مانتے ہیں کہ قرآن قیامت تک کے لوگوں کے لیے ہے اور ظاہر ہے اس کے احکامات بھی زندہ لوگوں کے لیے ہیں۔ جب کہ یہ (نعوذ باللّٰہ) یہی کہتے ہیں کہ آپ ﷺ ہمارے جیسے انسان ہی تھے۔ یہ حضور سید دو عالم ﷺ کی ظاہری حیات سے پردہ فرما جانے کو ابدی ہی سمجھتے ہیں۔
اب یہاں دو باتیں ہیں اس آیت میں اور دونوں ہی واضح دلائل۔
پہلی بات مقامِ مصطفیٰ ﷺ کا اندازہ ہے کہ اللّٰہ پاک حکم کے آغاز میں پہلے اپنا ہی ذکر فرما رہا ہے کہ یعنی میں اللّٰہ پاک (جو پوری کائنات کا واحد رب ہے) اپنے حبیب ﷺ پر درود بھیجتا ہوں۔ اب یہاں غور و فکر کریں ساری بات ادھر ہی سمجھ آ جائے گی کہ مقامِ مصطفیٰ ﷺ حقیقت میں کیا ہے۔ یعنی جو اس کائنات کا خالق و مالک ہے وہ اپنے ایک نبی پر قیامت تک کے لیے درود بھیج رہا ہے۔ سلام یعنی سلامتی بھیج رہا ہے تو اندازہ کیجئے ذرا کہ وہ نبی وہ ہستی کیا اعلیٰ مقام ہے ان کا۔ کیا وہ ایک عام انسان کی طرح ہو سکتے ہیں؟؟
اب آگے اللّٰہ پاک یہاں ہی بس نہیں فرماتا بلکہ اگلا حکم اپنے فرشتوں کو فرما رہا ہے کہ فرشتو! تم بھی میرے حبیب ﷺ پر درود بھیجو اور فرشتے فوراً یہ حکم بجا لائے ہیں یعنی وہ درود بھیجتے ہیں اور قیامت تک بھیجتے رہیں گے۔ فرشتے جو کہ سب مانتے ہیں کہ وہ نوری مخلوق ہیں اور وہ صرف اور صرف اللّٰہ رب العزت کا حکم بجا لاتے ہیں یعنی صرف عبادت کرتے ہیں اسی کی۔ کیا فرشتوں کا قیامت تک درود و سلام بھیجتے رہنا کافی نہیں تھا؟؟ جو اب اگلا حکم اللّٰہ رب العزت ایمان والوں یعنی انسانوں کو دے رہا ہے کہ تم لوگ بھی میرے نبی ﷺ پر درود بھیجو۔ اور صرف درود نہیں بلکہ خوب سلام بھیجو۔
اب جیسا کہ ہم مانتے ہیں کہ قرآن کا حکم ماننا دراصل اللّٰہ پاک کی عبادت ہے تو صاف ہو جانا چاہیے کہ آقا کریم ﷺ پر درود و سلام بھیجنا بھی درحقیقت اللّٰہ تعالیٰ ہی کی عبادت ہے تو پھر خود اندازہ کیجئے کہ پھر اس ہستی کا کیا مقام ہو گا۔۔۔!!
دوسری اور آخری بات اس آیت کی کہ سلامتی تو زندہ لوگوں پر بھیجی جاتی ہے۔ تو جو لوگ یہ کہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ آقا کریم ﷺ اس دنیا میں موجود نہیں یعنی ان کا ظاہری حیات سے پردہ فرما جانا عام انسان جیسا ہی ہے تو ان کے لیے میرا سوال یہ ہے کہ پھر اللّٰہ درود کس پر بھیج رہا ہے؟؟
کیونکہ اللّٰہ پاک حکم فرما رہا ہے کہ ایمان والو! تم بھی درود اور سلامتی بھیجو اور قرآن قیامت تک کے لیے ہے تو ظاہر ہے حکم بھی قیامت تک کیلئے ہے تو پھر ایک دنیا سے پردہ فرما چکے انسان کے لیے درود و سلامتی کیسی؟؟ ذرا غور کیجئے۔
• مقامِ ادب
اب یہاں حضور سید دو عالم ﷺ کے ادب کا مقام جو کہ قرآن مجید فرقانِ حمید میں اللّٰہ رب العزت بیان فرماتا ہے. سورۃ الحجرات کی آیت سے اندازہ ہو جائے گا۔
ترجمہ:
“اے ایمان والو! نہ بلند کیا کرو اپنی آوازوں کو نبی کریم ﷺ کی آواز سے اور نہ زور سے آپ ﷺ سے بات کیا کرو جس طرح تم زور سے ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہو۔ (اس بے ادبی سے) کہیں ضائع نہ ہو جائیں تمہارے اعمال اور تمہیں خبر تک نہ ہو۔”
(سورۃ الحجرات آیت نمبر 2)
اب یہاں کچھ حضرات کا کہنا ہے کہ یہ حکم ظاہری حیات مبارکہ میں تھا صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کیلئے کیونکہ وہ حضور ﷺ کے ظاہری وصال مبارک کو حقیقی مانتے ہیں۔
لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے جب قرآن پاک قیامت کے لیے ہے تو اس کا ہر حکم بھی قیامت تک کیلئے ہے۔ اب چونکہ حضور سید دو عالم ﷺ ظاہری طور پر ہمارے سامنے نہیں ہیں تو ہمارے لیے ادب کا تقاضا یہی ہے کہ جب بھی حضور سید دو عالم ﷺ کا نام مبارک ہمارے سامنے لیا جائے یا آواز کانوں میں پڑ جائے تو فوراً ہمیں گردنیں جھکا لینی چاہئیں۔ نظریں ادب سے جھکا لینی چاہئیں۔ اور دوسرا تقاضا یہ ہے کہ جب بھی کوئی آپ کے سامنے کوئی حدیثِ مبارکہ کا حوالہ دے لیکن آپ نے وہ سنی نہ ہو یا آپ کو شک بھی گزرے کہ پتہ نہیں یہ حقیقتاً حدیث ہے بھی یا نہیں تو بھی آپ کبھی بھی اس انسان کی بات کو فوراً رد نہ کریں بلکہ اس پر بعد میں تحقیق کر لیں اور پھر اگر سچ ہو تو یقین کے ساتھ عمل بھی کریں۔
ادب کا اس حد تک خیال رکھیں کہ جب بھی اسمِ مبارک ﷺ آ جائے تو آواز بند کر لیں سانس دھیمی کر لیں.
تحریر: اِک خاک زادی