خوبصورت اخلاق کامیاب معاشرے کا زیور ہے

Article by Abrish Noor
Attention: The Message of Imam Khadim Hussain Rizvi about Ethics (اخلاق)
اخلاقیات دینِ اسلام کی بنیادیں ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں اخلاقیات کی اہمیت پر بہت زور دیا گیا ہے کیونکہ انسانی اخلاقیات پر ہی پُر سکون معاشرے کا انحصار ہے۔ پُر سکون معاشرہ بنانے اور سنوارنے میں اخلاق کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ اخلاق دنیا کے ہر معاشرے کا مشترکہ باب ہے کیونکہ اچھے اخلاق و کردار کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی، اس سے قومیں بنتی بھی ہیں اور بگڑتی بھی ہیں۔ اخلاق کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں خواہ وہ معاشرہ مسلم ہو یا غیر مسلم۔اسی طرح ہر جماعت ہر تحریک کے لیے بھی اخلاقیات کا ہونا بہت ضروری ہے ہر کامیاب تحریک کے لیے دو چیزیں بہت اھم ہیں یہی دو چیزیں معاشرے کو بہتر بناتی ہیں اور نا ہونے کی صورت میں معاشرہ کی بربادی کا سبب بنتی ہیں پہلی چیز اخلاق اور دوسری چیز صبر کے اگر کسی تحریک کے کارکنان کے اندر صبر اور اخلاق پایا جاتا ہے تو بہت ہی کم عرصہ میں وہ تحریک کامیاب ہو جاتی ہے
ابتدائی دور میں جب آقا صلی الله عليه وآلہ وسلم نے صحابہ کرام نے جو صحابہ کرام دین میں آئے انکی تربیت کی طرف سے سب چیز جو اھم تھی وہ صبر اور اخلاق تھا یعنی اس چیز کو سب سے زیادہ رائج کیا گیا کسی بھی کامیاب قوم کی سوچ رویے اور یقینیوں پر اگر ریسرچ کریں تو جان لیں گے جب تک اپنے اندر تبدیلی کا نہی سوچا نظام نہی بدلا پہلے آپ خود کو بدلیں پھر نظام بدلنے کا سوچیں اگر آپکی شخصیت واقعی قابل تعریف ہے تو لوگ آپکے پیچھے خود بخود چلیں گے اگر آپکا تاثر اچھا ہے تو وہ مجبور کردے گا آپ جیسا بننے پر ہم جس مقصد کی طرف بڑھیں وہ بڑا عظیم مقصد ہے اگر ہم نظام مصطفی صلی الله عليه وآلہ وسلم کے خواہشمند ہیں تو آپکے میرے تمام۔ کام آپکی حیات مبارکہ سے ہونے چائیے ہمیں کسی بے جا تنقید میں پڑنے کے بجائے اس بات پر توجہ دینی ہے کہ ہم کیا کررہے ہیں ہمیں اپنی سوچ کے دائرے کو وسیع کرنا ہوگا اور اپنی مکمل توجہ اپنے مقصد کی مرکوز کرنی ہوگی ہر سوچ انسان کو بیدار کرتی ہے کیوں کہ برتن میں جو ڈالا جائے گا وہی نظر آئے گا ایسا ناممکن ہے آپ برتن میں پانی ڈالیں اور آپکو دودھ شہد نظر آئے اگر آپکی سوچ میں صرف تنقید ہے تو یاد رکھیے آپ ہی راستے کا پتھر ہوں گے جس سے گزرنے والے آپکی اخلاقیات کو دیکھ کر گر سکتے ہیں واپس مڑ سکتے ہیں اگر ہم تمام فضول ترین باتوں کو چھوڑ کر اپنی توجہ اپنے مقصد کی طرف دیں تو ہم بہت جلدی اپنی منزل تک پہنچ سکتے ہیں جنگل میں ایک شکاری شکار کرتا ہے تو اسکی پوری توجہ اپنے شکار کی طرف ہوتی ہے اسکے آس پاس کئ بے شمار پرندے پھول جانور درندے ہوتے ہیں لیکن وہ ان تمام چیزوں کو پس پشت ڈال کر اپنے شکار کو ڈھونڈتا ہے اگر وہ راستے میں آنے والے تمام مناظر کو سوچے گا تو پھر یقیناً اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکتا یعنی وسعت نظری سے سوچے گا حکمت عملی سے سوچے گا اور یہی سوچ اسکو کامیاب کرے گی آخری بات یہ ہوگی وہ آخر تک اپنے مقصد کو نہی بھولے گا مجھے اور آپکو اخلاقی اعتبار سے بہت توجہ کی ضرورت اگر ہم اپنے قائدین کے اخلاق دیکھیں تو انکے بارے میں کتنا کچھ کہا گیا لیکن کبھی اپنی ذات کے لیے کسی کو کٹہرے میں کھڑا نہی کیا
اگر بابا جی نے جملہ فرمایا مالکوں کو نوکروں کی کمی نہی انہوں نے اپنے لوگوں کے لیے نہی فرمایا تھا انہوں نے کس زمرے میں کہا اسکو سمجھنے کی ضرورت ہے
مالکوں کو نوکروں کی کمی نہی لیکن مالکوں کا اخلاق اتنا خوبصورت تھا کہ نوکر جانے کا سوچتے بھی نہیں تھے آج یہ جملہ کسی کے منہ پر مارنا کم علمی کی انتہا ہے آقائے نامدار صلی الله عليه وآلہ وسلّم کے اخلاق سے کافر کلمہ پڑھ لیتے تھے راہ چلتے آپکے اخلاق سے متاثر ہوکر آپکے ہوجاتے
آقا صلی الله عليه وآلہ وسلّم کے اخلاق سے صحابہ نے سیکھا اور ہمیں سبق دیا کہ لوگوں کو دین کے قریب کرنا ہی دین کی خدمت ہے دوسروں کی رائے کا احترام ہمارے آقا و مولا آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے کیا صحابہ کرام نے کیا اور احادیث میں ہر جگہ فرمایا
مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان (کی ایذا
رسانی) سے مسلمان محفوظ رہیں
یعنی کامل مسلمان وہ ہے جس کی زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں یعنی نہ وہ انہیں گالیاں دے، نہ ان پر لعنت بھیجے، نہ ان کی غیبت کرے اور نہ ہی ان کے مابین کسی قسم کا شر و فساد پیدا کرنے کی کوشش کرے اور اسی طرح وہ اس کے ہاتھ سے بھی محفوظ رہیں بایں طور کہ وہ ان پر کوئی ظلم نہ کرے، ناحق اُن سے ان کے مال نہ لے اور اس طرح کی کوئی بھی زیادتی ان کے ساتھ نہ کرے۔
نبی کریم ﷺاخلاقی تعلیم اور کردار سازی پر بڑا زور دیا ہے ۔جس کے مطالعے کے بعد یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ کہ اسلام کی تمام تر تعلیم کا لب لباب اگر ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو وہ صرف حسن اخلاق ہے ۔رسول کریم ﷺ سے ایک شخص نے تین مرتبہ دریافت کیا تو یہی جواب ملا کہ خوئے بد عبادت کو اس طرح تباہ و برباد کرتی ہے جس طرح سرکہ شہد کو ،جو کوئی خلق خدا سے پیا ر کرے گا اللہ اس سے پیا ر کرے گا ۔
لیکن ہم نے کیا کیا ؟ہر بندے کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا ایک چھوٹی سی مثال لے لیں میں نکلی ہوں نظام بدلنے اس سے پہلے مجھے کیا کرنا ہوگا لوگوں کو ٹھیک کرنا ہوگا؟نہی بلکہ مجھے اپنے آپ کو ٹھیک کرنا ہوگا مجھے سمجھنا ہوگا ہر بندہ مجھے سے اتفاق نہیں کرسکتا ہر بندہ الگ فطرت کا مالک ہے آقا صلی الله عليه وآلہ وسلم نے جب دین کی تبلیغ شروع کی تو پتھر کس لیے کھائے ؟اپ نے وہ تمام ظلم وہ ستم کس کے لیے برداشت کئیے صرف دین کی سر بلندی کے لیے ناکہ اپنے لیے
پہلا قدم پہلے ہمیں اٹھانا ہے کیوں کہ نظام بدلنے کے دعویدار ہم ہیں مخالف نہی مخالف کو آپ نے اپنے اخلاق سے قریب کرنا دلائل سے لاجواب کرنا ہے ناکہ گالم گلوچ سے
پہلے میں کسی سے مخلص ہوں گی تو پھر مجھے کسی دوسرے سے اخلاص کی توقع رکھنی چاہیے- پہلے میں کسی کو سلام کروں گی تو پھر مجھے کسی دوسرے کے سلام کا انتظار کرنا چاہیے
۳- پہلے میں کسی کی عزت کا خیال رکھوں گی تو پھر مجھے کسی دوسرے سے اپنی عزت کی حفاظت کی توقع رکھنی چاہیے
۴- پہلے میں کسی کا اچھا ساتھی بنوں گی تو پھر مجھے اپنے ساتھی سے اچھا بننے کی اُمید رکھنی چاہیے
اچھا بننے میں پہلا قدم خود کو ہی اُٹھانا ہوتا ہے جس کے بعد یہ اُمید پیدا ہوجاتی ہے کہ شاید دوسرے بھی اچھے ہوجائیں تاہم ایسا ہونا قطعًا بھی ضروری نہیں ہے مگر اس عمل سے کم از کم میں خود تو اچھی ہو جاؤں گی یہ بھی ایک کامیابی ہے
خموش ، اے دل بھری محفل میں چلانا نہیں اچھا
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
برا سمجھوں انہیں ، مجھ سے تو ایسا ہو نہیں سکتا
کہ میں خود بھی تو ہوں اقبال اپنے نکتہ چینوں میں
اگر ہم اپنے قائدین سے محبت کرتے ہیں اور انکے ساتھ واقعی مخلص ہیں تو انکی ہر بات حرف آخر ہونی چاہیے یہی آپکی محبت و خلوص کی علامت ہے ورنا قائد کے ساتھ محبت کے دعوے سب بے معنی ہیں
اللّٰہ عزوجل سے دعا ہے کہ مجھے اس دین کے ساتھ ہمیشہ خالص رکھے اور اپنے اخلاق کو بہتر بنانے کی توفیق عطا فرمائے آمین
ابرش نور
Masha ALLAH ❤️
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ