لیڈر کا انتخاب
Article by Aqsa Hassan
آج ہماری قوم کا سب سے بڑا مسئلہ “لیڈر کا انتخاب” ہے۔ اگر عوام سے پوچھا جائے تو کثیر تعداد میں لوگ یہی کہیں گے کہ’لیڈر کے انتخاب میں ہم سے بہت بڑی غلطی ہو گئی۔ یہ تو طے ہے پاکستان کا سب سے پہلا مسئلہ کیا ہے؟ تو اس پر اتفاق رائے یہی ہو گی کہ قیادت کا فقدان !
اس حوالے سے قائد اعظم رحمتہ اللہ نے کسی موقع پر فر مایا تھا “لیڈروں کے انتخاب میں ہمیشہ احتیاط کریں، آدھی جنگ تو لیڈروں کے صحیح انتخاب سے ہی فتح ہو جاتی”
آئیے گزری چند دہائیوں میں لیڈران کا جائزہ لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ لیڈر کیسا ہونا چاہیئے؟
یہ مفروضہ نہیں بلکہ امر واقع ہے کہ ہم اتنے برس میں لیڈر کا انتخاب نہ کرسکے، اور قیادت کا فقدان قومی نقصان کا سب سے بڑا سبب ہے جیسے محاذ جنگ خواہ کتنا ہموار اور فوج مقابلے کے لئے چاہے جتنی تیار ہو اگر کمانڈر مخلص، حوصلہ مند، عالی دماغ اور ماہر حرب نہ ہو تو کوئی جنگ جیتنا تو کجا شرمناک شکست سے بچنا ناممکن ہوتا ہے، یہ دنیا کا معمول ہے کہ فوج جان لڑا کر اور جم کر لڑے اور خون کا دریا عبور کرے فتح کا سہرا اور کریڈٹ ہمیشہ کمانڈرکے حصے میں آتا ہے اسی طرح سپاہی اگر نکمے اور بزدل نکلیں اور پسپا ہو جائیں تو بھی شکست کا داغ کمانڈر کے ماتھے پر لگتا ہے، یہی حال قوموں کا ہے ان کے مقدر بننے اور بگڑنے کا سارا دارو مدار لیڈر پر ہوتا۔
لیڈر اگر شہ دماغ، بلند نگاہ، عالی ظرف، غنی مزاج دیانتدار ،امین اور جرات مند ہو تو افیونی قوم کو فولادی قالب میں ڈھال دیتا ہے اور اگر لیڈر کوتاہ نظر، بلید الذہن، لالچی، بدعنوان، خائن اور بے حوصلہ ہو تو اچھی خاصی اور جاندار قوم کا ستیاناس کر دیتا ہے۔
ہماری قوم باطنی خصوصیات نہیں دیکھتی بلکہ دیکھتی ہے لیڈر سرمائے اور دھن کا مالک ہے، اس کا رنگ انگریزوں سے ملتا جلتا اور ڈھنگ بادشاہوں جیساہے، اسے انگریزی بولنے میں بڑی مہارت ہے، بڑے قبیلے کا سردار ہے، وہ انگریزوں کے خطاب یافتہ خاندان کا چشم و چراغ ہے، غنڈوں کی فوج بھی اپنے پاس رکھتا ہے، تھانے کچہری میں بھی اس کا رقعہ چلتا ہے اور وہ مقتدر حلقوں میں بھی ’’ لین دین ‘‘ کی صلاحیت رکھتا ہے، لیکن عوام نے یہ نہ سوچا کہ لیڈر کو “بول” کا ماہر نہیں “قول” کا سچا ہونا چاہیے، اسے سرمایہ دار نہیں صاحب کردار ہونا چاہیے ، اس کا رنگ انگریز جیسا نہیں اس کا آہنگ ولولہ خیز ہونا چاہیے، اس کا ڈھنگ شاہانہ نہیں بلکہ قلندرانہ ہونا چاہیے، وہ انگریزی زبان کا فاضل نہیں بلکہ دین و ایمان کا حامل ہونا چاہیے، اس کا تھانے میں رقعہ نہیں زمانے میں دبدبہ ہونا چاہیے اور وہ مقتدر حلقوں کا ساتھی نہ ہو بلکہ اسے چھوٹے طبقوں کا غیر مشروط حامی ہونا چاہیے۔
عوام کو تین بار اپنا لیڈر چننے کا موقع ملا لیکن انہوں نے لیڈر کے انتخاب میں ٹھوکر کھائی، ایک کو لیڈر بنایا اور آدھا پاکستان گنوایا، پھر انتخاب کا موقع ملا تو اس لیڈر نے کرپشن میں ملک کا نام بدنام کیا، پھر موقعہ ہاتھ آیا تیسرا ایسا لیڈر چنا جو خود بھی رویا اور قوم کو بھی رلایا، غلطی کی رعایت ہر گیم میں تین بار ملتی ہے، اور یہ رعایت ہم لے چکے ہیں مزید گنجائش نہیں۔
اب ملک و ملت کی سالمیت کو داؤ پر نہیں لگایا جا سکتا، اب ملک کو اس کی بنیاد کی طرف لے کر جانا ہو گا اب ملک جس نام پر بنا ہے اسی طرف واپس جانا ہو گا۔ یہ اسلام کا قلعہ ہے اور اسے وہی سنوار سکتا ہے جو اسلامی اقدار و خوبیوں کا مالک ہو گا ۔
لیڈر منتخب کرتے وقت یہ چیز بھی دھیان میں رکھیں، نعرہ کیسا ہے، نعرہ کس کا ہے؟ منشور کیا ہے؟ نعرہ دل لبھانے والا ہو بھی تو بندے پر کڑی نگاہ رکھیں، جیسے روٹی، کپڑا، مکان والے نعرے سے بڑھ کر عوامی نعرہ کونسا ہو گا لیکن نعرے لگانے والوں کو عوام سمجھ نہ سکی اور ملک پر غنڈہ راج چھا گیا ۔
قوم پرستی کا دعویٰ بھی خوب ہے لیکن قوم پرستی کا دعوی کرنے والے کا بھی بخوبی جائزہ لیا جائے کہ کہیں وہ اپنے ذوق کی تسکین تو نہیں کر رہا ،کہیں اپنی قوم کی معاشی و فکری طور پر پست پردہ ڈال کر لبرل اور سوشل ڈیموکریٹک تو نہیں بن بیٹھا یا لندن پیرس محل تو نہیں سجا چکا،لبرل اور سوشل ڈیموکریٹ بہت نفیس، شستہ اور نستعلیق سہی مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہاں ان کے لئے نیو یارک، لندن اور پیرس کا ماحو ل کہاں سے لایا جائے جہاں وہ اپنے ذوق کی تسکین کر سکیں، یہ پاکستان ہے مادر پدر آزاد سوسائٹی کا “استھان” نہیں ہم پہلے ہی انگریز کے ڈسے ہوئے ہیں۔ ہمارا ملک اسلامی جہموریہ پاکستان ہے” یہاں مغرب کے قانون لاگو نہیں ہو سکتے۔ لہذا عوام کو ان سیاسی نعروں سے نکل کر اسلامی نعروں پر غور کرنا چاہیے ۔
اسلام فرقہ نہیں ایک نظریہ ہے ،اسلام محض فتوی نہیں سراسر تقویٰ ہے، اسلام فقط جذبات کے وفور کا نام نہیں ، گہرے اور اونچے شعور کا نام ہے، اسلامی لیڈر کا مطلب یہ ہے کہ وہ دین و دنیا کا واضح شعور رکھتا ہو، بین الاقوامی وژن کا حامل ہو، اس کا ایک ورلڈ ویو ہو، وہ معلی القاب اور کرامت مآب نہ ہو بلکہ عام انسانوں میں اٹھتا بیٹھتا ہو ۔
اس وقت جس کا کردار و گفتار، جس کا انداز ،جس کا لہجہ و تکلم اور چال ڈھال اسلامی اور مکمل طور پر اسلامی ڈھانچہ کے عین مطابق ہے۔ وہ صرف اور صرف ” پاکستان کی مقبول ترین جماعت “تحریک لبیک پاکستان” کے امیر علامہ حافظ سعد حسین رضوی برکاتہم العالیہ ہیں۔” تحریک لبیک پاکستان ایک اسلامی نظریات جماعت ہے۔ جس نے عوام کو ایک نظریہ دیا ہے،وہ نظریہ جو پاکستان کا نظریہ ہے ۔
پاکستان کا مطلب کیا “لا الا اللہ”
دستور ریاست کیا ہو گا” محمد رسول اللہ ﷺ”
ایسا امیر، جن کا نہ تو نعرہ اپنا ہے، نہ کوئی اپنا مقصد اولین ہے، نہ ہی کوئی دولت دھن ہے، نہ ہی کسی قسم کی طمع رکھتا ہے۔ جماعت کا نعرہ بھی لگتا ہے تو رسول ﷺ کا لگاتا ہے، جس کا منشور “اسلام،عوام اور پاکستان ہے ۔”
جو عوامی لیڈر ہے ، جو بہت متحرک ہے، جو بنا خوف و خطر لاکھوں کے مجمعے میں اکیلا کھڑا ہوتا ہے، جس کی گفتار میں وقار اور کردار میں پختگی ہے ۔ عوام کو مخلصانہ مشورہ ہے ، تیس سالوں سے جن لیڈروں کا انتخاب کیا ہے انہوں نے ملک کے ساتھ ساتھ آپ کو بھی تباہ کر دیا ہے لہذا اب کسی پر نہ سہی تو خود پر رحم ضرور کریں ۔
لیڈر منتخب کرتے وقت قائد کا فرمان یاد رکھیے گا اب بھی اگر فرمودات قائد ہماری ملکی پالیسیوں کے ماتھے کا جھومر بن جائیں تو دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام پھر سے بحال کر سکتے ہیں۔ پاکستان کو بچانا ہے تو سب سے پہلے لیڈر کا انتخاب درست کرنا ہو گا ،پرانی پالیسیز جن میں لیڈر کا مطلب اختیارات ہیں، لیڈر کا مطلب کرسی ہیں ان فرسودہ چیزوں کا بائیکاٹ کر کے اسلام کے پرچم تلے جمع ہو جائیں۔ آئیے پاکستان کو ایک نئے لیڈر کے سائے میں پروان چڑھائیں تاکہ ملک و قوم کی سالمیت کو بچایا جا سکے ۔اپنی آنے والی نسل کے مستبقل کو بچایا جا سکے۔
تحریر: اقصیٰ حسن