مہنگائی کا جن اور بےحس حکمران
Article by Bint E Hassan
پاکستان میں مہنگائی کا جن کسی صورت قابو میں نہیں آنے پا رہا، مہنگائی کی شرح میں دن دوگنا رات چوگنا اضافہ ہوتا جا رہا ہے، ملک میں مہنگائی کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچ چکی ہے ہفتہ وار مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہےجو کہ اداراہ شماریات کے مطابق ۷۴ فیصد تک بڑھ گئی ہے، ان حالات میں عوام کے لئے دو وقت کی روٹی کا حصول دن بدن دشوار ہوتا جا رہا ہے۔ ترقی پزیر ملک ملکِ پاکستان کی چالیس فیصد آبادی خط غریب سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں دینا کے کئی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی کمزور مالیاتی اداروں، بے جا حکومتی اخراجات اور کرپشن کی وجہ سے غربت اور مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوا ہے ہمارے ملک میں تو مہنگائی کا جن بوتل سے ایسا باہر آیا کہ اب تو کسی صورت واپس جانے کا نام ہی نہیں لے رہا اور حالیہ دور کی مہنگائی میں اُس جن کا حجم اتنا بڑھ چکا ہے کہ لگتا ہے وہ شاید بوتل میں واپس جا ہی نہ سکےگا۔
نام نہاد سیاسی پارٹیاں اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھ کر سسکتے بلکتے غریب عوام کو خوشحال بنانے اور غربت کا خاتمہ، سڑکیں، گلیاں، تعلیم اور صاف پانی فراہم کرنے کے نعرے لگاتی آئی ہیں۔ پاکستان میں آمریت ہو یا جمہوریت، حکومت مسلم لیگ کی ہو یا پیپلز پارٹی کی، تحریک انصاف کی ہو یا پھر ق لیگ کی، اے این پی کی ہو یا ایم کیو ایم کی اسمبلیوں تک نوے فیصد انہی خاندانوں کے لوگ ہیں۔ اس وقت تمام سیاسی جماعتیں محض نام کی جمہوری جماعتیں ہیں۔ ان سیاسی جماعتوں کے تمام تر فیصلے صرف بڑے لیڈر آمرانہ انداز میں کر رہے ہیں۔ ان سیاسی جماعتوں کی جمہوریت کی اوقات صرف اتنی ہے کہ ایک طرف نسلوں سے چلے آ رہے یہ خاندانی لیڈر ہیں اور دوسری طرف ان کی خدمت کرنے والے ان کے غلام، یعنی وہی چہرے گھوم رہے ہیں جو سارے کے سارے سیاسی لوٹے ہیں، ہر ایک ہر پارٹی میں رہ کر ملک کو لوٹ چکے ہیں اور پھر دکھ اس پر کہ وہی لوگ دوسری پارٹی میں جاتے ہی نعرہ بدل لیتے ہیں، یعنی گھر کے بھیدی روپ بدل کر پھر سے لوٹنے کے نت نئے طریقے ایجاد کر لیتے ہیں اور عوام ان کے چکر ویو میں پھنس جاتی ہے۔
رواں سال کی مہنگائی اپنی بلند ترین سطح کو چھو رہی ہے۔ مہنگائی کا مورد الزام کسی ایک حکومت کو ٹھہرانا ٹھیک نہ ہوگا بلکہ اس میں موجودہ اور سابقہ حکومتیں سب برابر کی حصے دار ہیں۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ کسی کا حصہ زیادہ اور کسی کا کم ہے، جیسے سابقہ حکومت (پی ٹی آئی) نے مہنگائی کو بام عروج تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا اور اُن کی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے آج غربت کی شرح اس قدر بلند ہوچکی ہے کہ اب صحیح معنوں میں دو وقت کی روٹی میسر آنا بھی غنیمت ہے اور وٹامن فراہم کرنے والے پھل اور دیگر غذائیں خریدنے کا تصور کرنا بھی عام آدمی کے لیے ناممکن ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت اور اُن کے اتحادی سابقہ حکومت کو مہنگائی کی وجہ سے خوب لتاڑتے تھے لیکن عوام دیکھ رہے ہیں کہ وہی اتحادی اب حکومت میں آکر اقتدار اور وزارتوں کو انجوائے تو کر رہے ہیں لیکن عوام کے اولین مسئلے مہنگائی پر قابو پانے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کررہے۔
سونے پر سہاگہ یہ ہے اب پھر سے وہی تبدیلی کا نعرہ لگانے والے عوام کو بیوقوف بنانے میں کسی حد تک کامیاب دکھائی دے رہے ہیں، عوام نے تبدیلی کی دعوے دار سابقہ حکومت (پی ٹی آئی) کو موقع ضرور دیا تھا کہ شاید وہ ان کے دکھوں کا مداوا کرسکے لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات نکلا۔ سابقہ حکومت تو اپنی حریف جماعتوں سے بھی زیادہ نااہل ثابت ہوئی اور انہوں نے ملک کے ہر شعبے میں ایسی ایسی داستانیں رقم کیں کہ ان کی مثال ملنا ناممکن ہے۔ اب عوام کرے تو کیا کرے، کیونکہ ایک عام آدمی تو الیکشن لڑنے سے رہا۔ جس طرح کا سیاسی ماحول ان تمام طاقتور سیاستدانوں نے بنادیا ہے اس میں غریب سیاسی کارکنوں کےلیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
بڑھتی ہوئی مہنگائی اورغربت شاید پاکستان کی تقدیر کاحصہ ہیں۔ سیاسی اور قانونی بحرانوں کے بعد اب ملک میں بڑھتے ہوئے حالیہ اقتصادی بحران نے جو شدت اختیار کی ہے اس سے نمٹنا کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والی پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی پورے سندھ کو یرغمال بنا رکھا ہے، عام عوام سسک رہی ہے، روٹی کا نعرہ کہیں پیچھے رہ گیا اور اسکے برعکس روٹی کا نعرہ لگانے والوں نے بے بس و لاچار عوام سے نوالہ تک چھین لیا ہے۔ کپڑے کا سلوگن چیخ چیخ کر جلسے ریلیوں میں لگانے والوں نے لاچار و مبجور کے تن سے اتار پھینکا ہے اور بلاول بھٹو ہزاروں ڈالر کے بوٹ پہنتا ہے، مکان مکان کہنے والوں نے غریب کا چولہا بند کر دیا ہے لیکن ملین ڈالرز کے بلاول زرداری کے گھر میں صرف کچن تیار کیا جاتے ہیں، کیا یہ عوام دوست نعرے عوام کو کچھ دے سکے؟
ووٹ کو عزت دو والوں نے ملک میں سڑکیں ان جگہ پر بنائیں جہاں ان کے کاروبار چلتے تھے جب کہ ملک کا بیشتر حصہ صرف ٹوٹی پھوٹی شاہراوں کی وجہ بنجر پڑا ہے، ووٹ کو عزت دینے والے سابق تبدیلی حکومت کے خلاف مہنگائی مارچ کرتے ہوئے تو ایسے آئے تھے جیسے مہنگائی کا جن قابو کرنے کا چراغ ان کے ہاتھ لگ چکا ہے، لیکن ایسا کچھ نہ ہوا، سب کچھ وہیں کا وہیں دھرا رہ گیا اور مہنگائی کا جن اور بے قابو ہوتا گیا۔ مہنگائی اور غریب کے سینے کی بے اطمینانی بڑھتی گئی۔ اس مہنگائی کا عفریت غریب و بے بس عوام کو نگلنے کے درپے ہے۔
خدارا! اب وقت آ گیا ہے کہ اپنی آنکھیں کھولیں اور دیکھیں کہ آپ کی عوام کس قدر مسائل کا شکار ہیں۔ معلوم نہیں کہ حکمران طبقہ یا ان کے رفقائے کار وہ خبریں اور ویڈیوز دیکھتے ہیں یا نہیں کہ فلاں شخص نے غربت اور مہنگائی کے ہاتھوں انفرادی یا اجتماعی طور پر اپنے خاندان سمیت خودکشی کرلی۔ کتنے ہی ایسے واقعات منظرعام پر آچکے ہیں لیکن حکمرانوں کی بے حسی جوں کی توں ہے۔ حکمران طبقہ منہگائی کے خلاف صرف لفظی بیان بازی سے کام چلاتا ہے جب کہ عملی طور پر کوئی سد باب نہیں کیا جاتا ہے۔
خدارا! عوام خود ہوش کر لے
پچھلے پچھتر سالوں سے لگتے ان کھوکھلے نعروں سے نکلنا ہو گا، سر پکڑ کر بیٹھ جانے سے کچھ نہیں ہو گا، چور چور کے نعروں میں عوام کو پاگل بنایا جا رہا ہے تا کہ دوبارہ سے تبدیلی والے “غریب مکاو” شروع کر سکیں برعکس روٹی کپڑا مکان والوں نے بھی تینوں چیزیں عوام سے چھین لی ہیں، عوام ہوش کے ناخن لے۔
مہنگائی کے ساتھ جو چیز بڑھ رہی ہے وہ ہے بے روزگاری، بے روزگاری کے باعث چوری، قتل، دھوکا دہی، ریپ کیسز اور دیگر جرائم میں بھی اضافہ ہوا ہےاور ان سارے مسائل کی ایک ہی جڑ سودی نظام، مہنگائی اور غربت ہے۔
تحریر: بنت حسن