انفرادیت پسندی کے نقصانات

مل جل کر کام کرنا اس کو تقسیم کاری
(distribution)
کے ذریعے کام کرنے کی بہترین مثال شہد کی مکھی کی ہے کہ شہد کی تیاری کے لئے ان کی تگ و دو اگر دیکھیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک ملکہ کے ماتحت رہ کر کام کو کرتی ہیں۔ شہد کے فوائد ہیں اور اللہ پاک نے اس میں کثیر فوائد رکھے ہیں
ترجمہ:اور تمہارے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں اور چھتوں میں گھر بناؤ۔ پھر ہر قسم کے پھلوں میں سے کھاؤ اور اپنے رب کے (بنائے ہوئے) نرم و آسان راستوں پر چلتی رہو۔ اس کے پیٹ سے ایک پینے کی رنگ برنگی چیز نکلتی ہے اس میں لوگوں کیلئے شفا ہے بیشک اس میں غوروفکر کرنے والوں کیلئے نشانی ہے۔
پارہ۱۴،سورۃ النحل٦٩،٦٨
کیا آپ کو پتہ ہے کہ یہ مکھیاں تیاری کے لئے دور دراز سفر کرتی ہیں ایک معلومات کے مطابق آدھا کلو شہد تیار کرنے کے لئے مکھیوں کو بعض اوقات تین لاکھ میل سفر کرنا پڑتا ہے اور ایک مکھی کی عمر چند ماہ ہوتی ہے۔ لہذا اگر ایک مکھی چاہے کہ وہ یہ تنہا کرے تو اس کیلئے ایک پاؤنڈ شہد تیارکرنا مکمن نہیں۔ ساری مکھیاں ملکر کام کریں گی تو ہی ممکن ہے۔
اسطرح جب لوگوں کا گروپ،ٹیم ملکر کوئی کام کرتا ہے تو وہ کام آسان اور کم وقت میں مکمل ہو جاتا ہے۔
بعض لوگ انفرادیت پسند ہوتے ہیں۔
نفس جاہ پسند جو تعریف کو پسند کرتا ہے وہ اس مثال کو جو اوپر بیان ہوئی ہے سمجھ بھی لے تو پھر بھی اپنی تعریف کو پسند کرنے کی وجہ سےانفرادیت پسندی کا شکار رہے گا۔ ہمارا نفس انفرادیت کا خواہش کا خوگر ہے۔
آئیے آپ کو امام تصوف امام غزالی رحمة الله عليه کی بارگاہ میں لے چلتی ہوں۔
آپ اپنی کتاب احیاالعلوم میں فرماتے ہیں کہ
ہر انسان کا نفس بالطبع کمال میں منفرد ہونے کو پسند کرتا ہےاس انفرادیت کی خاطر وہ اپنے مرتبہ و منزلت کے اعتقاد کے ساتھ لوگوں کے دل مسخر کرنے اور اپنی شہرت قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔
جسے حبِ جاہ کہتے ہیں۔
مگر کام تقسیم کرنے میں نفس کے لئے مشکل یہ ہے کہ کسی شخصیت کی انفرادیت قائم نہیں رہتی ہے یہی وجہ ہے کہ جس شخص کا منفرد ہونے کا مزاج بن جاتا ہے وہ تقسیم کار عمل پر پورا نہیں اترتا۔
اگر بظاہر وہ تقسیم کا انداز اختیار کر بھی لے تو تب بھی اپنی شخصیت کو نمایاں رکھتاہے۔ اسے اس بات کا خوف رہتا ہےکہ کہیں کوئی دوسری شخصیت اوپر آکر میری انفرادیت و شہرت اور مرتبہ و منزلت ختم نا کر دے۔
پھر وہ اپنی جھوٹی شہرت اور مرتبہ و منزلت کو قائم رکھنے کی ہوس میں ظلم پر اتر آتا ہے اور اپنی برتری ثابت کرنے کے لئے اپنے ماتحت لوگوں کو کمتر سمجھنے لگ جاتا ہے۔ نت نئے انداز میں فساد کرتا، چالیں چلتا ہے اور اس طرح وہ جس بھی تحریک، تنظیم یا پارٹی سے منسلک ہوتا ہےاس کا نقصان کر دیتا ہے۔
ایسا شخص چاہتا ہے کہ اس کے بڑے ذمہدار اور اعلی قیادت صرف اسی کو پہچانیں تعریف کریں اور انکی نظر میں اسی کی اہمیت اور وقعت ہو۔
اور جو اس کے ماتحت لوگ عمدہ کام بھی کریں اس کو بھی اپنی طرف منسوب کریں۔
یہ منفی رویہ اختیار کرنے کے باعث ان کے ساتھ کام کرنے والوں کے حوصلے پست ہو جاتے ہیں۔ بےاعتمادی کا ماحول پیدا ہوتا ہے، دلوں میں بغض و کینہ راہ پاتا ہے اور بدنظمی کا شکار ہو کر سالوں کی کوشش لمحوں میں برباد ہو جاتی۔
صادق و مصدق رسول بی بی آمنہ کے پھولﷺ کا فرمان صدق نشان ہے
دو بھوکے بھیڑے جو بکریوں کے کسی ریوڑ پر چھوڑ دیئے جائیں اس ریوڑ میں اتنی تباہی نہیں مچاتے جتنی آدمی کی مرتبے و مال کی حرص اس کے دین کو تباہ کر دیتی ہے۔
الجامع الصغيرللسيوطى عليه رحمه رقم الحديث ٧٩٠٨ صفحہ ٤٨٢
اسی طرح سیدنا بشر رحمہ اللہ فرماتے ہیں
جو شخص یہ پسند کرتا ہے کہ لوگوں میں مشہور ہو تو وہ آخرت کی حلاوت نہیں پاسکتا۔
دوسری جگہ انہی کی طرف منسوب ایک اور قول ہے کہ
میں کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جو شہرت چاہتا ہو اور اس کا دین تباہ اور وہ خود ذلیل و رسوا نہ ہوا ہو۔
انفرادی شخصیت بنانے والے کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اس کی مثال اس شخص کی جیسی ہے جو کسی مسافر ریل گاڑی
(Passenger Train)
میں ایک مسافر کی حقیقت سے سوار ہوتا ہے اور سفر اختیار کرتا ہے اگر وہ کسی اسٹیشن پر اتر جاتا ہے تو ٹرین رکی نہیں رہتی بلکہ آگے بڑھتی چلی جاتی ہے یہ حقیقت ہے کہ کوئی مسافر کتنا ہی باصلاحیت کیوں نا ہو اس کے اتر کر چلے جانے سے ٹرین پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
وہ مسلسل چلتی رہتی ہے۔ وہ مسلسل چلتی رہتی ہے۔
اگر کچھ مسافر اتر گئے تو دوسرے چڑھ جاتے ہیں۔
لہذا اپنی انفرادی شخصیت بنانے کی دھن سے نکلیں اپنے رویے تبدیل کریں اور اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ تحریک محض ہماری محتاج نہیں ہے، ہمارے جانے سے کوئی سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
بلکہ کئی ہمارے نعم البدل بن کر بہتر انداز میں اپنی کارکردگی پیش کریں گے۔
اللہ پاک کی خفیہ تدبیر سے ڈرنا چاہیے اوراللہ کی پناہ طلب کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مرتبے اور عہدے کی خواہش میں کوئی دھیان ہی نہ رہے اور ہم دین میں نقصان نہ کر بیٹھیں۔
بے شک تیرے رب کی پکڑ بہت سخت ہے۔
پارہ۳۰، سورہ البروج۱۲
لہذا آخرت کی عزت و سربلندی کی خاطر دنیا میں برتری کی خواہش ترک کرکے تکبر و بڑائی اور دینی نظام میں فساد سے بچےاور اللہ کا فرمان یاد رکھے۔
پارہ۲۰،القصص۸۳
یہ آخرت کا گھر ہم ان لوگوں کے لیے بناتے ہیں جو زمین میں تکبر اور فساد نہیں چاہتے اوراچھا انجام پرہیزگاروں ہی کیلئے ہے۔ بعض لوگ منصب سے دیمک کی طرح چپک جاتے ہیں۔
کہ دیمک خود نہیں ہٹتی بلکہ اس قدر نقصان پہنچا دیتی کہ لکڑی جلانے کے قابل بھی نہیں رہتی۔
ہمیں دیمک نہیں بلکہ شہد کی مکھی بننا ہے تاکہ نظام مصطفیﷺ قائم کرسکیں۔
ذہن میں رکھیں ہم نے اپنے نعم البدل تیار کرنے ہیں، جو ہمارے بعد بھی ذمہ داری سنبھال سکیں۔
حضرت موسی علیہ السلام نے کوہ طور پر تشریف لے جانے سے پہلے حضرت ہارون عليه السلام کو اپنا نائب مقرر فرمایا
چیانچہ پارہ ۹سورہ الاعراف۱۴۲
اور ہم نے موسیٰ سے تیس راتوں کا وعدہ فرمایا اور ان میں دس (راتوں) کا اضافہ کرکے پورا کردیا تو اس کے رب کا وعدہ چالیس راتوں کا پورا ہوگیا اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا: تم میری قوم میں میرا نائب رہنا اور اصلاح کرنا اور فسادیوں کے راستے پر نہ چلنا۔
یہ بات یاد رکھیں۔
یہ سفر ہے کوئے جاناں
یہاں قدم قدم بلائیں
جسے زندگی ہو پیاری
وہ یہیں سے لوٹ جائے
کامیابی کی پہلی سیڑھی اخلاص ہے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں اخلاص کی لازوال دولت عطاء فرمائے۔ آمین
اللہ کرے دل میں اتر جائے میری بات
تحریر: رامین ملک



