چھوٹا منہ بڑی بات
Article by Syed Muhammad Shafiq ur Rehman
بندہِ پروردگارم امّتِ احمد نبی ﷺ
دوست دار چار یارؓم تابع اولادِ علیؓ
مذہبِ حنفیہ دارم ملتِ حضرت خلیلؑ
خاک پائے غوثِ اعظمؓ زیرِ سایہ ہر ولی
جاہلانہ گفتگو کرنے والے سے سلوک؛
سورہ فرقان میں اللّٰه پاک ارشاد فرماتا ہے؛
وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا (۶۳)
ترجمہ؛
رحمٰن کے وہ بندے کہ زمین پر آہستہ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں بس سلام۔
اس آیت سے معلوم ہو اکہ جب کسی معاملے میں کوئی جاہل جھگڑا کرنا شروع کرے تو اس سے اعراض کرنےکی کوشش ہی کرنی چاہئے اور اس کی جاہلانہ گفتگو کے جواب میں اگر کوئی بات کریں تو وہ ایسی ہو جس میں گناہ کا کوئی پہلو نہ ہو اور وہ اس جاہل کے لئے اَذِیَّت کاباعث بھی نہ ہو،ترغیب اور تربیت کے لئے یہاں ایک واقعہ ملاحظہ ہو،چنانچہ حضرت نعمان بن مقرن رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں ایک شخص نے دوسرے شخص کو برا بھلا کہا تو جسے برا بھلا کہا گیا، اس نے یہ کہنا شروع کر دیا: تم پر سلام ہو۔ اس پر رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’سنو! تم دونوں کے درمیان ایک فرشتہ ہے جو (اے برا بھلا کہے گئے شخص!) تمہاری طرف سے دفاع کرتا ہے،جب یہ تمہیں برا بھلاکہتا ہے تو وہ اس سے کہتا ہے: نہیں ، بلکہ تم ایسے ہو اور تم ا س کے زیادہ حق دار ہو، اور جب تم اس سے کہتے ہو ’’تم پر سلام ہو‘‘ تو فرشتہ کہتا ہے: نہیں ، بلکہ تمہارے لئے سلامتی ہو اور تم ا س کے زیادہ حق دار ہو۔( مسند امام احمد، حدیث النعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ، ۹ / ۱۹۱، الحدیث: ۲۳۸۰۶ دور حاضر میں جب دنیا بھر میں جید علماء اکرام، سادات عظام اور مفتیان عظام موجود ہیں اور اللّٰہ کریم نے امت مسلمہ میں بہت سے ایسے ہیرے پیدا کیے ہوئے ہیں کہ جتنی تعریف کی جائے اتنی کم ہے۔ پھر چاہے وہ فلسطین ہو عراق ہو شام ہو لبنان ہو پاکستان ہو یا ہندوستان۔
اور اسی کے ساتھ اگر چہ علم و فن کا دنیا میں ایک ذخیرہ موجود ہے ٹھیک وہیں ہم جاہلیت کے گڑھے میں گرے ہوئے لوگوں کو دیکھتے ہیں اور کسی مقام میں خود کو بھی اس میں پھنسے دکھائی دیتے ہیں۔
اس کی مثال ہمیں ہر گلی چوراہے میں مل جاتی ہے۔
مثال کے طور پر ایک مختصر کہانی سنانے کی جسارت کروں گا۔
ایک جنگل میں ایک چیتے اور گدھے میں بحث چھڑ گئی چیتے کا کہنا تھا کے گھاس ہری ہے جبکہ گدھا بول رہا تھا کے گھاس نیلی ہے اس بات کو لیکر جنگل میں ایک عجیب سی ہلچل مچادی گئی اور بحث کافی لمبے عرصے تک چلتی رہی ب یہ بالآخر معاملہ جنگل کے بادشاہ یعنی شیر کے پاس پہنچایا گیا ۔
شیر نے دو حرفی بات سن کر چیتے کو سزا سنا دی چیتے کو اس بات کا بہت صدمہ لگا کے میں حق پہ تھا تو مجھے سزا کیوں سنا دی گئی۔ شیر نے چیتے کی حیرانی کو پرکھتے ہوئے پوچھا پریشان ہو؟ چیتا بولا بادشاہ سلامت میرے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔ شیر نے کہا میں جانتا ہوں کے گدھا جھوٹ بول رہا ہے میں کیا جنگل کا کوئی بھی جانور اس بات کو تسلیم نہیں کرے گا کے گھاس نیلی ہوتی ہے! چیتے نےکہا پھر مجھے سزا کیوں سنا دی گئی؟ شیر نے کہا یہ تمہارے لیے سبق ہے کہ تم بحث و تکرار کرنے سے پہلے نسل دیکھ لیا کرو کہ سامنے کونسی نسل موجود ہے۔
اب میں چاہتا ہوں کہ آپ سب اصل بات کی جانب اپنی توجہ مرکوز فرمائیں ۔
آج کل دنیا بھر میں ایک کافر عورت جو کہ ایک ہندو مت ہے جس کا نام نوپور شرما کہا اور سنا جاتا ہے جو کہ ہندوستان کی موجودہ حکومت کی ترجمان ہے اس نے نبی پاک ﷺ کی شان اقدس میں گستاخانہ الفاظ استعمال کیے اور بلاشبہ یہ عورت واجب القتل ہے اور کسی صورت معافی کے قابل نہیں اس کو معاف کرنے کا حق امت مسلمہ کے بھی کسی فرد کو حاصل نہیں کیونکہ میرے آقا و مولا محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ ﷺ نے فرما دیا کہ
مَنْ سَبَّ نَبِیًّا فَاقْتُلُوْہُ
اس کافرہ عورت سے ڈیبیٹ(بحث و تکرار) کا سلسلہ کس نے جاری کیا اور کیوں کیا وہ انسان کوئی عالم تھا؟ مفتی تھا؟ مجدد تھا؟ کوئی اسلامی سکالر تھا؟ یا کوئی عام انسان یعنی امتی؟
میرا سوال ہے کہ کیا کسی کو بھی اجازت ہے کہ کوئی بھی منہ اٹھا کر دین اسلام کو ایسے بینچ پہ لے جائے جہاں سے گستاخی رسول ﷺ کے خدشات لاحق ہوں؟
اس شخص کو جس نے بحیثیت اسلام ترجمان بات چیت شروع کی اسکی ذاتی حیثیت کردار کیا ہے اس سارے معاملے میں؟
میں سمجھتا ہوں کہ دین اسلام جوکہ ایک خوبصورت دین ہے اس پہ فقہی مسالک تک کو اتنی بحث نہیں کرنی چاہیئے کہ حق اور باطل کے اندیشے سے ہٹ کر کوئی اپنے منہ سے کفریہ کلمات نکال دے اور پھر ایسا نہ ہو کہ توبہ کی توفیق تک چھین لی جائے۔ تو اُس شخص کو اس بات کی اجازت کس نے دی کے وہ ایک کافرہ عورت سے اسلام یا مذاہب پہ بات کرنے بیٹھ گیا؟
میں سمجھتا ہوں اور میرا نظریہ یہ ہے کہ سب سے پہلے فی الفور اس کافرہ کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے اور پھر اسی کے ساتھ اُس شخص کو بھی کم از کم 10 سال قید کی سزا سنائی جائے تاکہ آئندہ کوئی بھی مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے میں اپنا کردار ادا نہ کرے۔
وہ علماء سے بات مشاورت کر سکتا تھا۔ مفتیان عظام سے رجوع کر سکتا تھا اور اگر وہ شخص خود بحیثیت عالم اور مفتی تھا تو بھی کم سے کم سزائے قید میں ڈالا جائے ۔
ہمارے معاشرے میں جس جگہ جنازے، عیدین، ختم شریف تک کے لیئے علماء اکرام، سادات عظام اور مفتیان عظام کو بلایا جاتا ہے وہاں اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ دین بیان کرنے کے لیئے اور سمجھنے سمجھانے کے لیئے بھی فقط اور فقط انہی کی جانب پلٹا جائے۔
الفاظ کے چناؤ میں اگر کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو معافی چاہتا ہوں ۔
تحریر؛
سیّد محمد شفیق الرحمن بخاری