ہم سوئے ہوئے کیوں؟
Article by Usman Malik
آج ملک میں ہماری کیا اہمیت ہے بلکہ دنیا میں ہماری کیا حیثیت رہ گئی ہے؟ اس بات پہ غور کیا آپ نے؟
جی ہاں ! میں اپنی قوم سے اس مسلم قوم سے مخاطب ہوں
دنیا کی مصروفیات سے کچھ فراغت پاکر ان باتوں پہ غور کرنے کا موقع ملا ؟ کہاں گیا وہ مسلمان کا رعب؟ کہاں گیا وہ جوش؟؟؟ کہاں گیا وہ دل جو موت سے بےخوف شہادت کے لیے تڑپتا تھا؟؟
سب کچھ ہم نے کھو دیا۔۔۔ وہ پختہ ایمان… وہ بےخوف دل… وہ بے مثال بہادری!!! سب کچھ!!
اس کے باوجود آج ہم کس بات کی خوشیاں مناتے پھر رہے ہیں!! کیسے جشن اور کیسی مسرت بھری محفلوں میں شریک ہو رہے ہیں؟
آج ہماری دنیا بھر میں خاصی اچھی تعداد ہونے کے باوجود بھی ہم کمزور کیوں پڑ رہے ہیں؟؟ آخر کیوں مارے جا رہے ہیں؟
کیونکہ ہم نے دنیا کو یہ بتا رکھا ہے کہ ہم بزدل ہیں کیونکہ ہم ایک مسلمان ہیں ۔ ہمیں دنیا پیاری ہے… یہ فانی چیزوں کی محبت ہمارے دلوں میں سچی ہے!! اور ہمارے قلب موت کے خوف میں مبتلا ہو کر رہ گئے ہیں!!!
یہ اعلان کیا ہوا ہے ہم نے۔!!
اور باطل طاقتوں کو اپنی دکھتی رگ کا پتا دے رکھا ہے ۔ صرف اسی وجہ سے وہ ہماری اس رگ کو تکلیف دے کر کامیابی کی سیڑھیوں پر بڑی برق رفتاری سے اپنا رخ کی ہوئی ہے!!
کیا یہ ہماری بے وقوفی نہیں؟ کمزوری بتانا کہاں کی عقلمندی ہے؟ ایک مومن کی ایمان کی کمزوری ہے ہی اس کی سب سے بڑی کمزوری ہے!!
ترمذی میں ایک حدیث ہے۔ جس میں یہ ذکر ملتا ہے کہ مسلمان خاصی اچھی تعداد میں ہونے کے باوجود بھی کمزور پڑ جائیں گے بلکہ مارے جائیں گے۔ اور اس کی وجہ یہی بتائی گئی کہ
دنیا کی محبت اور موت کا خوف
جب ان کے دلوں میں بیٹھ جائے تو ایسے حالات اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا
لوگ سمجھتے ہیں ۔ وہ بے وقوف نہیں ہیں مگر وہ بے وقوفی کر جاتے ہیں…اپنی بزدلی کی وجہ سے!!! اس موت کے خوف کی وجہ سے!!! سارے لوگ سارے مسلمان اپنا تماشا بنتا دیکھ رہے ہیں. کیا کوئی اس کا خواہشمند ہے؟ نہیں ! سب اس سے چھٹکارا چاہتے ہیں لیکن وہ بزدل ہیں ۔ کچھ نہیں کہتے ۔ زبانیں کاٹ کر آنکھوں اور کانوں کو ایکٹو رکھ کر سب کچھ دیکھ اور سن رہے ہیں ۔ مگر کوئی رد عمل نہیں!! کیوں؟؟
کچھ رد عمل چاہتے ہیں لیکن اس وجہ سے نہیں کرتے کیونکہ کوئی ساتھ نہیں ۔ کچھ یہ چاہتے ہیں کہ ہم باطل طاقتوں کے دلوں کو موہ لیں اور ان سے بھائی چارگی بڑھاکر ان کے ہو جائیں جس سے وہ ہمیں کوئی نقصان نہ پہنچائیں اور ہمیں اپنا سمجھکر قبول کر لیں۔ یہ ہے خوف کا معاملہ۔
آپ ان سے کیسی بھائی چارگی کی امید وابستہ کرتے ہیں؟؟ کیا وہ آپ سے راضی ہوں گے؟ کبھی نہیں!!! جب تک آپ مکمل ان کے نہ ہو جائیں…اپنے اوپر سے مسلمان کا لبادہ نہ ہٹا لیں… مسلمانیت کے لقب کو نہ ہٹا لیں وہ آپ کے نہ آپ ان کے کبھی ہو ہی نہیں سکتے!!! ان کی رضامندی کو آپ اپنے ایمان پر ترجیح دینے والے بنیں گے؟؟
ہر فرد سمجھتا ہے یہاں مگر خاموش ہے ۔ خود کو کمزور سمجھتا ہے۔ آپس میں یوں صرف چال کو سمجھ کر ہاتھ پہ ہاتھ دھرے رکھنے سے کیا کام بنیں۔
ہمیں بالکل ایک قدم آگے کی طرف اور بڑھانا ہوگا
ہمیں اپنے دل کو اس بات پہ راضی کرنا ہوگا کہ شہادت قبول ہے مگر غلامی نہیں ۔ موت پیاری ہے مگر یہ ظلم و ستم نہیں ۔ سب کچھ سہہ سکتے ہیں اس رب کائنات کے لیے!!!… سب کچھ چھوڑ سکتے ہیں اپنے ایمان کے لیے!!! ہر مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں اپنے اوپر سے بزدلی کا لقب ہٹانے کے لیے۔۔۔
یہ بات اپنے ذہن میں بٹھا لیں کہ اگر آج ہم نے موت کے خوف سے کوئی رد عمل ظاہر نہ کیا تو آنے والی نسل ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی…کبھی نہیں
ازقلم : عثمان ملک