اسلام اور دنیا کی تمام تہذیبوں میں عورت کی حیثیت
Article By Yasir Arfat Shah Qureshi Hashmi
اسلام سے قبل دنیا کی مختلف تہذیبوں اور معاشروں کا جائزہ لیں اور عورت کی حیثیت کو پہچاننے کی کوشش کریں تو ہم اس نتیجہ پرپہنچتے ہیں کہ عورت بہت مظلوم اور معاشرتی و سماجی عزت و احترام سے محروم تھی، اسے تمام برائیوں کا سبب اور قابل نفرت تصور کیا جاتا تھا، یونانی، رومانی، ایرانی اور زمانہ جاہلیت کی تہذیبوں اور ثقافتوں میں عورت کو ثانوی حیثیت سے بھی کمتر درجہ دیا جاتا تھا۔ مگر عورت کی عظمت، احترام اور اس کی صحیح حیثیت کا واضح تصور اسلام کے علاوہ کہیں نظر نہیں آتا۔ اسلام نے عورت کو مختلف نظریات و تصورات کے محدود دائرے سے نکال کر بحیثیت انسان کے عورت کو مرد کے یکساں درجہ دیا، اسلام کے علاوہ باقی تمام تہذیبوں نے خصوصاً مغرب جو آج عورت کی آزادی، عظمت اور معاشرے میں اس کو مقام و منصب دلوانے کا سہرا اپنے سر باندھنا چاہتاہے۔ لیکن اس معاشرے نے ہمیشہ عورت کے حقوق کو سبوتاژ کیا، اور عورت کو اپنی محکومہ اور مملوکہ بنا کر رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی مختلف تہذیبوں، اقوام و ملل نے عورت کے لئے صدہا قانون بنائے مگر یہ قدر ت کا کرشمہ ہے کہ عورت نے اسلام کے سوا اپنےحقوق کی کہیں داد نہ پائی۔
یہاں ہم دنیا کی مختلف تہذیبوں اور اقوام و ملل کے قائم کردہ معاشروں میں عورت کی حیثیت کا جائزہ پیش کرتے ہیں۔
یونانی معاشرے میں عورت کی حیثیت
یونان جو فلسفے میں آج بھی دنیا میں مشہور ہے اس کی تاریخ عصر میں مرد نے عورت کو صرف اپنی نفسانی تسکین و مسرت کا ذریعہ اور آلہ کار سمجھا، یونانیوں کے نزدیک عورت ’’شجرة مسمومة‘‘ ایک زہر آلود درخت اور ’’رجس من عمل الشيطان‘‘ کے مطابق عورت شیطان سے زیادہ ناپاک سمجھی جاتی تھی، ایک عام خیال یہ بھی تھا کہ وہ فطرتًا مرد سے زیادہ معیوب، حاسد، بدکردار، آوارہ اور بدگفتار ہوتی ہے۔
رومی تہذیب میں عورت کی حیثیت
رومن قوم یورپ میں ایک عظیم الشان روایت کی حامل قوم تھی، جس کو قانون سازی میں وہی امتیاز حاصل ہے جو یونان کو فلسفہ میں، حتی کہ رومن قانون آج بھی دنیا کے مختلف ممالک کے قوانین کا سنگِ بنیاد ہے، اس اعلیٰ ترین قانون میں عورت کی حیثیت پست و کمزور تھی اور ان کا عقیدہ تھا کہ ’’عورت کے لئے کوئی روح نہیں بلکہ وہ عذاب کی صورتوں میں سے ایک صورت ہے۔ عورت شادی کے بعد شوہر کی زرخرید غلام ہو جاتی تھی، عورت کسی بھی عہدہ پر فائز نہیں ہو سکتی تھی، گویا کہ تمام بنیادی حقوق سے اس کو محروم رکھا گیا تھا۔
فارسی تہذیب میں عورت کی حیثیت
فارس کی تہذیب بہت پرانی ہے، یہاں بھی عورت کی وہی زبوں حالی تھی، باپ کا بیٹی اور بھائی کا بہن کو اپنی زوجیت میں لینا وہاں کوئی غیر موزوں بات نہ سمجھی جاتی تھی، شوہر اپنی بیوی پر موت کا حکم لگا سکتا تھا، اسے اپنی عیش و عشرت کیلئے استعمال کرنا وہاں کے بادشاہوں اور صاحب ثروت کا محبوب مشغلہ تھا۔
ہندی معاشرہ میں عورت کی حیثیت
دنیا کے قدیم ترین ممالک میں ہندوستانی معاشرہ بھی شامل ہے۔ ہندوؤں نے اس صنف نازک پر جس طرح ظلم روا رکھے ہیں اور اس کو جس طرح ذلیل و خوار کیا اس کی مثال مشکل سے ملتی ہے۔ ویدوں کے احکام کے مطابق عورتیں مذہبی کتاب کو چھو نہیں سکتیں، شوہر کے مرجانے کے بعد عورت کو معاشرے میں زندہ رہنے کا حق نہیں تھا اس کو بھی خاوند کے ساتھ زندہ جلادیا جاتا تھا ویسٹرمارک کتاب
Waves of the history of Hindus
میں لکھتے ہیں کہ اگر کوئی عورت کسی متبرک بت کو چھولے تو اس بت کی الوہیت اور تقدس تباہ ہو جاتا ہے لہٰذا اس کو پھینک دینا چاہیے۔
عورتوں کو محکومیت اور غلامی کا درجہ دیا گیا تھا، بعض فرقوں نے عورتوں کی یہاں تک بے عزتی کی تھی کہ نہ صرف یہ کہ بیوی اور ماں، بہن، بیٹی میں کوئی فرق باقی نہ رہ گیا تھا، بلکہ وہ اس حرکت مذمومہ کو ذریعہ نجات تصور کرتے تھے۔
(ڈاکٹر علی جمعہ، مفتی جمہوریہ مصر العربیہ، المرأۃ بین انصاف الاسلام و شبھات الآخر)
عیسائی معاشرہ میں عورت کی حیثیت
عیسائیوں میں رہبانیت کی تعلیم کا اثر یہ ہوا کہ عیسائی عورت کو قابلِ نفرت سمجھنے لگے، اس پر طرح طرح کے مظالم ڈھانے لگے، عورت کے وجود کو تسلیم کرنا بھی اُن کے نزدیک گناہ سمجھا جانے لگا۔ حتی کہ ۵۷۶ء میں فرانسیسیوں نے ایک کانفرنس اس مسئلہ کے حل کے لئے منعقد کی کہ عورت میں روح ہے یا نہیں.
زمانہ جاہلیت میں عورت کی حیثیت
زمانہ جاہلیت میں جزیرہ عرب میں عورت کے لئے کوئی قابل ذکر حقوق نہ تھے، عورت کی حیثیت کو ماننا تو درکنار اس کو اس معاشرے میں زندہ بھی رہنے کاحق نہ تھا، معاشرے میں عورت کا مرتبہ و مقام ناپسندیدہ تھا، وہ مظلوم اور ستائی ہوئی تھی، اور ہر قسم کی بڑائی اور فضیلت مردوں کے لئے تھی، اس میں عورتوں کا حصہ نہ تھا حتی کہ عام معاملات زندگی میں بھی مرد اچھی چیزیں خود رکھ لیتے اور بے کار چیزیں عورتوں کو دیتے، زمانہ جاہلیت کے لوگوں کے اس طرزِ عمل کو قرآن حکیم یوں بیان کرتا ہے۔
قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ قَتَلُـوْۤااَوْلَادَهُمْ سَفَهًۢا بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ حَرَّمُوْا مَا رَزَقَهُمُ اللّٰهُ افْتِرَآءً عَلَى اللّٰهِؕ-قَدْ ضَلُّوْا وَ مَا كَانُوْا مُهْتَدِیْنَ(۱۴۰)
ترجمۂ کنز الایمان
بیشک تباہ ہوئے وہ جو اپنی اولاد کو قتل کرتے ہیں احمقانہ جہالت سے اور حرام ٹھہراتے ہیں وہ جو اللہ نے انہیں روزی دی اللہ پر جھوٹ باندھنے کو بیشک وہ بہکے اور راہ نہ پائی۔
تفسیر صراط الجنان
قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ قَتَلُـوْۤااَوْلَادَهُمْ
بیشک وہ لوگ تباہ ہوگئے جواپنی اولاد کو قتل کرتے ہیں۔
شا نِ نزول: یہ آیت زمانۂ جاہلیت کے اُن لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جو اپنی لڑکیوں کو نہایت سنگ دلی اور بے رحمی کے ساتھ زندہ درگور کر دیا کرتے تھے۔ قبیلہ ربیعہ اور مُضَر وغیرہ قبائل میں اس کا بہت رواج تھا اور جاہلیت کے بعض لوگ لڑکوں کو بھی قتل کرتے تھے اور بے رحمی کا یہ عالم تھا کہ کتّوں کی پرورش کرتے اور اولاد کو قتل کرتے تھے۔ اُن کی نسبت یہ ارشاد ہوا کہ ’’ وہ تباہ ہوئے‘‘ اس میں شک نہیں کہ اولا د اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے اور اس کی ہلاکت سے اپنی تعداد کم ہوتی ہے، اپنی نسل مٹتی ہے، یہ دنیا کا خسارہ ہے، گھر کی تباہی ہے اور آخرت میں اس پر عذابِ عظیم ہے، تو یہ عمل دنیا اور آخرت میں تباہی کا باعث ہوا اور اپنی دنیا اور آخرت دونوں کو تباہ کرلینا اور اولاد جیسی عزیز اور پیاری چیز کے ساتھ اس قسم کی سفاکی اور بے دردی گوارا کرنا انتہا درجہ کی حماقت اور جہالت ہے۔
زمانۂ جاہلیت میں بہت سے اہلِ عرب اپنی چھوٹی بچیوں کو زندہ دفن کردیتے تھے، امیر تو اس لئے کہ کوئی ہمارا داماد نہ بنے اور ہم ذلت و عار نہ اٹھائیں جبکہ، غریب و مُفلس اپنی غربت کی وجہ سے کہ انہیں کہاں سے کھلائیں گے (خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۳۱، ۳ / ۱۷۳، نور العرفان، بنی اسرائیل، تحت الآیۃ: ۳۲، ص۴۵۴، ملخصاً) دونوں گروہوں کا فعل ہی حرام تھا اور قرآن و حدیث میں دونوں کی مذمت بیان کی گئی ہے البتہ یہاں بطورِ خاص غریبوں کو اس حرکت سے منع کیا گیا ہے۔
لہٰذا اسلامی معاشرہ نے عورت کو عظیم مقام و مرتبہ اور منصب عطا کیا جس کا تصور زمانہ جاہلیت میں کوئی نہ کرسکتا تھا۔ ان کے ہاں اسکی حیثیت کچھ نہ تھی، ایک ایک مرد بہت ساری عورتوں سے ازدواجی تعلقات قائم کرتا، اپنی عورتوں کے آپس میں تبادلے کرتا، اگر کوئی بدکاری کا مرتکب ہوتا اس کا اعلانیہ اظہار کرنے پر فخر محسوس کرتا، اس معاشرے میں عورت کسی چیز کی مالک نہ بن سکتی تھی یہاں تک کہ اس کو وراثت میں حصہ نہیں ملتا تھا۔ مگر اسلام نے ان تمام قبیح رسومات کا قلع قمع کیا اور عورت کو معاشرے میں نمایاں حیثیت سے نوازا۔
بیٹیوں سے متعلق اسلام کا زریں کارنامہ
اسلام کے زریں کارناموں میں سے ایک ہے کہ قتل و بربریت کی اس بدترین صورت کا بھی اسلام نے قَلع قَمع کیا اور بچیوں، عورتوں کو ان کے حقوق دلائے اور انسانی حقوق کے حوالے سے ایک مکروہ باب کو ختم کیا بلکہ بچیوں کی پرورش کرنے پر عظیم بشارتیں عطا فرمائیں چنانچہ
حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا ’’جسکی پرورش میں دو لڑکیاں بالغ ہونے تک رہیں ، وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ میں اور وہ پاس پاس ہوں گے اور حضورِاقدسﷺ نے اپنی انگلیاں ملا کر فرمایا: کہ اس طرح۔
( مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والآداب، باب فضل الاحسان الی البنات، ص۱۴۱۵، الحدیث: ۱۴۹(۲۶۳۱))
حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا ’’جس کی لڑکی ہو اور وہ اسے زندہ درگور نہ کرے اور اس کی توہین نہ کرے اور اپنے بیٹوں کو اس پر ترجیح نہ دے تو اللّٰہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائے گا۔
( ابوداؤد، کتاب الادب، باب فی فضل من عال یتیماً، ۴ / ۴۳۵، الحدیث: ۵۱۴۶)
حضرت عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں: ایک عورت اپنی دو لڑکیاں لے کر میرے پاس آئی اور اس نے مجھ سے کچھ مانگا، میرے پاس ایک کھجور کے سوا کچھ نہ تھا، میں نے وہی دے دی۔ عورت نے کھجور تقسیم کرکے دونوں لڑکیوں کو دے دی اور خود نہیں کھائی جب وہ چلی گئی اور حضور نبی کریمﷺتشریف لائے تومیں نے یہ واقعہ بیان کیا، حضورِ اقدسﷺنےارشاد فرمایا ’’جسے خدا نے لڑکیاں دی ہوں ، اگر وہ ان کے ساتھ احسان کرے تو وہ جہنم کی آگ سے اس کے لیے روک ہوجائیں گی۔
( بخاری، کتاب الادب، باب رحمۃ الوالد وتقبیلہ ومعانقتہ، ۴ / ۹۹، الحدیث: ۵۹۹۵، مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والآداب، باب فضل الاحسان الی البنات، ص۱۴۱۴، الحدیث: ۱۴۷(۲۶۲۹))
دین اسلام میں عورت کا مقام و مرتبہ
الغرض یونانی تہذیب سے لے کر روم، فارس، ہندوستان، یہودی اور عیسائی تہذیب نے عورت کو معاشرے میں کمتر درجہ دے رکھا تھا، انہوں نے دنیا میں برائی اور موت کی ذمہ دار اور اصل وجہ عورت کو قرار دیا، حتیٰ کہ انگلینڈ کے آٹھویں بادشاہ ہنری کے دور میں پارلیمنٹ میں یہ قانون پاس کیا گیا کہ عورت اپنی مقدس کتاب انجیل کی تلاوت نہیں کرسکتی کیونکہ وہ ناپاک تصور کی جاتی تھی۔
(’’ویسٹر مارک‘‘ کے بقول ماڈرن تہذیب بھی عورت کو وہ حیثیت نہ دے سکی جس کی وہ مستحق تھی، وہ کہتا ہے کہ ’’ارتقائے تہذیب نے عورت و مرد کے درمیان فاصلوں کو اتنا بڑھا دیا کہ عورت کی حیثیت کو اور زیادہ پست کردیا۔ چونکہ ذہنی ارتقاء کے اعلیٰ مدارج مردوں ہی کے ساتھ مخصوص رہے، علاوہ ازیں مذہب اور خصوصاً بڑی بڑی تہذیبوں نے صنفِ نازک کو ناپاک بتا کر اس کا رتبہ اور بھی کم کردیا۔ مگر اسلامی تہذیب نے عورت کو عظیم مقام دیا، بلکہ کائنات کا اہم ترین جز قرار دیا)
بقول علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ
وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
مکالمات افلاطون نہ لکھ سکی لیکن
اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطون
(ضربِ کلیم)
تصویرِکائنات میں رنگ بھرنے والی ہستی نے صرف شرار افلاطون ہی کو جنم نہیں دیا اور نہ فقط اس شرار سے افلاطون کا فلسفہ و حکمت ہی وجود میں آیا بلکہ علوم و فنون کے کم و بیش تمام چشمے یہیں سے پھوٹتے رہے ہیں۔ عصر حاضر کی جدید علمی تہذیب نے اسے ایک اٹل حقیقت تسلیم کر لیا ہے۔
اک زندہ حقیقت ہے مرے سینے میں مستور
کیا سمجھے گا وہ جس کی رگوں میں ہے لہو سرد
نہ پردہ نہ تعلیم، نئی ہو کہ پرانی
نسوانیتِ زن کا نگہبان ہے فقط مرد
جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا
اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد
(ضربِ کلیم)
اسلام کی آمد عورت کے لئے غلامی، ذلت اور ظلم و استحصال کے بندھنوں سے آزادی کاپیغام تھی۔ اسلام نے ان تمام قبیح رسوم کا قلع قمع کردیا جو عورت کے انسانی وقار کے منافی تھیں، اور عورت کو وہ حیثیت عطا کی جس سے وہ معاشرے میں اس عزت و تکریم کی مستحق قرار پائی جس کے مستحق مرد ہیں۔
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ (سورہ النحل،آیت ۹۷)
ترجمہ:جو کوئی نیک عمل کرے (خواہ) مرد ہو یا عورت جبکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے ضرور پاکیزہ زندگی کے ساتھ زندہ رکھیں گے
اسلام نے عورت کو وہ مقام عطا فرمایا جو کسی بھی قدیم اور جدید تہذیب نے نہیں دیا۔ حضورنبی اکرمﷺنے اہل ایمان کی جنت ماں کے قدموں تلے قرار دے کر ماں کو معاشرے کا سب سے زیادہ مکرم و محترم مقام عطا کیا، اور ایک بیٹی کو احترام و عزت کا مقام عطا کیا، اسلام نے نہ صرف معاشرتی و سماجی سطح پر بیٹی کا مقام بلند کیا بلکہ اسے وراثت میں حقدار ٹھہرایا، حضورﷺ نے اس دنیا میں عورت کے تمام روپ اور کردار کو اپنی زبانِ مبارک سے یوں بیان فرمایا کہ جس دور میں عورت ہو، جس مقام پر ہو اور اپنی حیثیت کا اندازہ کرنا چاہے تو وہ ان کرداروں کو دیکھ کر
ایک حدیث مبارکہ میں رسول اللہﷺ نے چار عورتوں کی طرف اشارہ فرما کر حقیقت میں چار بہترین کرداروں کا بتایا
ایک ماں کا کردار حضرت مریم بنت عمران علیھما السلام
ایک عظیم بیوی کا کردار حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ عنہا
ایک عظیم بیٹی کا کردار حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اﷲ عنہا
ایک عظیم عورت کا کردار حضرت آسیہ علیہا السلام
(ابن حبان، الصحيح، ۱۵ : ۴۰۱، رقم : ۶۹۵۱)
ان چاروں کرداروں پر نظر دوڑا کر مصطفوی مشن کی ہر عورت اپنی حیثیت کو پہچان کر اپنے کردار کو متعین کرسکتی ہے
اب آپ اسلام میں عورت کو دیکھیں جو عزت و احترام اسلام نے دیا ہے وہ کسی مذہب اور تہذیب میں نہیں دیا گیا ہے ان کو وہ سب حقوق دیے گئے جس کی عورت مستحق تھی اور اگر اسی عورت میں آپ ماں کا کردار دیکھ لیں تو اللہ پاک نے ماں کے قدموں میں جنت رکھی ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا
“بیشک جنت ماؤں کے قدموں میں ہے”
اسلام نے ماں کی گود کو سب سے پہلی درسگاہ کا درجہ دیا۔بیٹیوں کو گھر کے لیے رحمت بنا کر بھیجا انکی اچھی پرورش پر دنیا و آخرت میں انعامات کا کہاں گیا۔
اور حالیہ عورت مارچ کے حوالے سےڈاکٹر اشرف آصف جلالی صاحب کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ایک بار پھر عورت مارچ کی اجازت دے کر شرم و حیاء کی چادر کو تار تار کیا گیا۔ لاہور میں تقریب سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ عورت مارچ کے ذریعے اسلام کیخلاف مغرب کے بیہودہ ایجنڈے کو مکمل کرنے کی سازش کی جا رہی ہے، اسلام سب سے بڑھ کر حقوق نسواں کا علمبردار ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسلام نے عورت کو صرف ایک وجہ سے ہی نہیں، بہت سے رشتوں کی بنیاد پر حقوق دیئے ہیں، قرآن مجید کی ایک مکمل سورت سورۃ نساء اور دوسری سورتوں کی متعدد آیات اور ہزاروں احادیث خواتین کے حقوق کے بارے میں ہیں۔ علامہ اشرف آصف جلالی کا کہنا تھا کہ لوگوں کو خواتین کے حقوق کا عالمی دن مناتے ہوئے بارہ دہائیاں گزر چکی ہیں، مگر اس کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا، اصل میں اس سلسلہ میں اسلامی احکام کو پڑھ کر ان پر عملدرآمد کروانا ضروری ہے۔
آپ دیکھ لیں دنیا کے تمام مذاہبِ اور تہذیبیں وہ حقوق اور احترام نہ دے سکیں جو اسلام نے عورت کو کمتری اور بے حسی سے نکال کر عورت کی صورت میں ماں کے قدموں تلے جنت رکھ دی اور وہ بیٹی جو پیدا ہوتے ہی زمانہ جہلیت میں زندہ درگور کر دی جاتی اس کو اسلام نے گھر کے لیے رحمت بنا دیا۔
آج کل کی نام نہاد عورت آزادی مارچ کی علمبردار جو سڑکوں پر اپنے دوپٹے، شلوار اور قمیض لٹا کر یہودوں نصاریٰ کی ایجنٹی کرکے ہم ان کو خوش کر لیں گے یہ کبھی نہیں ہو سکے گا ان شاءاللہ عزوجل ہم اپنی تحریک لبیک یا رسول اللہﷺ پاکستان پر پورا یقین ہے کہ وہ ہر اسلام مخالف کاروائی کا منہ توڑ جواب دے۔
تحریر: یاسر عرفات شاہ قریشی ہاشمی