علامہ حافظ سعد حسین رضوی امیر تحریک لبیک پاکستان کی استقامت

Article by Mian MuQarrab NaQshbandi
امیر محترم حافظ سعد بن خادم حسین رضوی کو بطور امیر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے حالات و واقعات پر نظر ڈالتے ہیں اور اسکے لیے پہلے 2020 کا پس منظر سمجھنا ضروری ہے
فرانس (ایک دہشتگرد ملک) نے 2020 سرکاری سطح پر گستاخانہ خاکے چھاپنے کا اعلان کیا، فرانس کی سرکاری عمارتوں پر آقا کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گستاخانہ خاکے لگا دیے گئے، قلبِ عاشق مچل گیا، علامہ خادم حسین رضوی علیہ الرحمہ بے قرار ہو گئے، محبوب کے متعلق عاشق کب کچھ بُرا سن سکتے ہیں، آپ رحمتہ اللہ علیہ کی دلی خواہش تھی کہ فرانس کی گستاخی کا جواب پاکستانی ریاست کی جانب سے سرکاری سطح پر دیا جائے اور کم از کم فرانس کے سفیر کو ملک بدر کر دیا جائے، آپ پاکستانی ریاست سے مطالبہ کرتے رہے کہ “فرانس کا سفیر ملک سے باہر نکالو” انکے سفیر کی پاکستان میں کوئی جگہ نہیں، آپ کا جلال بھرا انداز آج بھی آنکھوں کے سامنے ہے، “او فرانس دا سفیر کڈو” لیکن فرنگیوں کے پاؤں پڑنے والی حکومت پر کچھ اثر نا ہوا پھر آخر کار آپ نے احتجاج کا راستہ اپنایا اور فیض آباد تشریف لے گئے، راستے میں موجودہ حکومت نے ہزاروں کی تعداد میں مظاہرین پر وہ شیل برسائے جن کی مدت ختم ہو چکی تھی اور کچھ مواقع پر سیدھی فائرنگ بھی کی جس کی زد میں آ کر چند کارکنان زخمی بھی ہوئے,
امیرالمجاہدین علیہ الرحمہ نومبر کی یخ بستہ تیز ہواؤں اور تیز بخار کے ساتھ فیض آباد کی کھلی فضاؤں میں پوری رات تشریف فرما رہے یہ امیرالمجاہدین رحمۃ اللہ علیہ کا عشق تھا جو آپ کو وہاں ثابت قدم رکھ رہا تھا، پھر حکومت کو آپ کی شرائط کے سامنے سر جھکانا پڑا اور حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جس کی ایک شق کی رو سے حکومت 2 سے 3 ماہ کے اندر پارلیمنٹ سے فیصلہ سازی کے ذریعے فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرے گی،
اس معاہدے کے بعد آپ اس دنیا فانی سے تشریف لے گئے اور آپ کے بڑے صاحبزادے حافظ سعد بن خادم حسین رضوی کو تحریک لبیک پاکستان کا نیا امیر مقرر کیا گیا، جب آپ کو تحریک لبیک کا امیر مقرر کیا گیا تو لوگوں میں مختلف آراء قائم ہوئیں، کوئی کہنے لگا “یہ لڑکا کیا کرے گا” کوئی کہنے لگا کہ “تحریک لبیک کا وجود ختم ہو جائے گا” کوئی کہنے لگا “سعد رضوی سیاست کا تجربہ نہیں رکھتا وہ نہیں چل سکے گا” لیکن سعد رضوی نے اپنے والد کے سوئم کے ختم پر اس امر کا عہد کیا کہ ” آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس اور ختم نبوت کا دفاع کریں گے” اور آپ نے اس جملے کو ثابت کر دیا,
چہلم کے ختم شریف پر حکومت کو یاد دلایا کہ آپ کا ہمارے ساتھ معاہدہ ہو چکا ہے لیکن حکومت وقت نے پھر اس اہم مسئلے کو اہمیت نہ دی انکا خیال تھا کہ یہ نوعمر لڑکا ہمارے مقابل نہیں آئے گا لیکن امیر المجاہدین علیہ الرحمہ کا تربیت یافتہ یہ نوعمر لڑکا ڈٹ گیا اور یاد دلاتا رہا کہ تمہارے ساتھ ہمارا معاہدہ ہے اور ہم 16 فروری تک اسکے پابند ہیں، حکومت ٹال مٹول کرنے لگی اور مزید ٹائم مانگا، امیر محترم حافظ سعد حسین رضوی نے اتمام حجت کے لیے مزید ٹائم بھی دے دیا جو کہ 2 ماہ کا عرصہ تھا اور معاہدے کی توسیع کا اعلان وزیراعظم پاکستان نے خود کیا لیکن حکومت کی غیر سنجیدگی کا عالم جوں کا توں رہا،
پھر آپ نے 11 اپریل کو اعلان کیا کہ ہم 20 تک معاہدے کے پابند ہیں، اور 21 کو رات 12 بج کر 1 منٹ پر امیر المجاہدین علیہ الرحمہ کے قدموں سے مارچ کا آغاز ہو گا آپکے اس اعلان سے حکومت ڈر گئی اور بزدلی اور آمریت کا ثبوت پیش کرتے ہوئے امیر محترم حافظ سعد حسین رضوی کو 12 اپریل کو گرفتار کر لیا، چونکہ آپ کی گرفتاری کے ساتھ ہی حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان جو معاہدہ تھا وہ منسوخ ہوگیا لہذا ملک بھر میں احتجاج شروع ہو گیا جو کہ تحریک لبیک کا آئینی حق تھا، گرفتاری کے بعد احتجاج کو ختم کرنے کے لیے کارکنان پر تاریخ کی بدترین شیلنگ کی گئی اور نہتے کارکنان پر سیدھی گولیاں برسائی گئیں جس کی وجہ سے تحریک لبیک پاکستان کے 25 سے زائد کارکنان کو روزے کی حالت میں رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں شہید کیا اور ہزاروں کی تعداد میں زخمی بھی ہوئے اور پاکستان کا الیکٹرانک میڈیا سچ دکھانے کی بجائے حکومتی پریشر کی وجہ سے تحریک لبیک کے خلاف پراپیگنڈہ کرنے, جھوٹی اور من گھڑت خبریں پھیلانے اور یک طرفہ خبریں چلانے میں پیش پیش رہا، امیر محترم سعد رضوی کے نام کے جھوٹے خط شائع کیے گئے اور پھر اس سے بھی جب بات نہ بنی اور مرکزی مجلس شوریٰ نے دھرنا ختم نہ کیا تو علماء کا ایک وفد بھی امیر محترم سے ملاقات کے لیے بھیج دیا گیا، جب وہ بھی امیر محترم کا سر جھکانے سے قاصر رہے تو مجبوراً حکومت نے اسمبلی میں قرارداد پیش کر دی جس پر دھرنا ختم ہو گیا لیکن سعد رضوی کو غیر قانونی طور پر نظر بند رکھا گیا، 3 ماہ کی نظر بندی ختم ہونے کے بعد امیر محترم کو کورٹ میں پیش کیا گیا جو کہ حکومت کی مجبوری تھی، امیر محترم کے کورٹ میں پیشی کے مناظر انتہائی جذباتی بھی تھے اور فخر سے بھرپور بھی کہ فرنگیوں کے تلوے چاٹنے والے ہمارے امیر کا جوتا تک نہ خرید سکے اور قائد کی ثابت قدمی اور مسکراہٹ نے جہاں کارکنان کے سینے ٹھنڈے کیے وہیں کفار اور انکے حامیوں کے دلوں پہ چھریاں چل گئیں، کورٹ میں امیر محترم نے اپنے دلائل خود دیے اور کورٹ نے یہ بات تسلیم کر لی کہ سعد رضوی بے قصور ہیں اور امیر محترم سعد رضوی کو رہا کرنے کا حکم دیا اور جب رہائی کا دن آیا تو حکمرانوں نے طاقت کے نشے میں ڈی سی او کے ذریعے ایک نئے قانون کے تحت نظر بندی کو مزید بڑھا دیا لیکن وہ شیر ابن شیر نہ بِکا، نہ جھکا اور نہ ڈرا بلکہ جیل میں گزرنے والا ہر سانس امیر محترم کو ناقابلِ تسخیر بنا رہا ہے، سعد رضوی چاہتے تو چند سیٹیں لے کر سکون کی زندگی گزارتے، کچھ ارب لے کر بیرون ملک رہائش پذیر ہو جاتے لیکن بابا جی امیر المجاہدین علیہ الرحمہ کا یہ شیر بیٹا یہی کہتا ہے کہ “مر ہی جاؤں جو اس در سے جاؤں دو قدم” اور جو بازار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں بک چکے ہوں انہیں پھر کون خرید سکتا ہے؟ امیر محترم سعد رضوی کی استقامت پہ لاکھوں سلام امیر محترم ہمارے سروں کو فخر سے بلند سے کرنے پر آپکا بے حد شکریہ۔!
میاں مقرب نقشبندی