ہمارے بچے

Article by Shehla Noor
بچے تو سب کے ہی سانجھے ہوتے ہیں اور سب ہی کو پیارے ہوتے ہیں، میری مراد ان بچوں سے ہے جو اسکول میں تعلیمی مراحل سے گزر رہے ہیں۔ عصرِ حاضر کے یہ بچے ذہنی طور ہوشیار و تیز ہیں حاضر جواب بھی ہیں۔ لیکن افسوس کے ساتھ ان کی تیزی، ہوشیاری اور حاضر جوابی درست سمت کی طرف نہیں، گھر اور اسکول بلکہ ہر جگہ یہ بچے نئی نئی باتیں اور انوکھے کام کرکے ہمیں حیران تو کردیتے ہیں لیکن یہی بچے تربیت میں پیچھے کی طرف جارہے ہیں۔ گھریلو غیر ضروری ڈھیل، لاڈپیار اور پھر اسکول میں بھی والدین کا اساتذہ سے تقاضا کہ بچے پر سختی نا کی جائے نا ہی ڈانٹ ڈپٹ۔
ایسا بچہ جو گھر میں پہلے ہی من مانی کرتا ہو پھر اسکول میں بھی اسے اسی طرح کا ہی ماحول چاہیے ہو تو اس کی تربیت کہاں ہوگی؟ دوسری طرف آج کے اسکولز میں بھی بچوں کو تعلیم بلکہ مناسب ہوگا کہ یہ کہا جائےکہ نصاب کی تکمیل تو کروادی جاتی ہے لیکن ان کی اصل تعلیم، تربیت، تادیب، تزکیہ پر توجہ نہیں (مگر شاذو نادر) اسکول انتظامیہ اساتذہ رکھتی بھی تو ایسے جو استاد کے مرتبے سے واقف نہیں ہوتے، اپنے مقام اور ذمہ داری سے آگاہ نہیں ہوتے، وہ بچوں کی تربیت نہیں کرپاتے۔انتظامیہ کم تنخواہ دینے کی خاطر اساتذہ کے چناؤ پر خاص توجہ نہیں دیتے، یا اگر اچھے اساتذہ موجود بھی ہوں تو انھیں خاطر خواہ سہولیات و تنخواہ نہیں دی جاتی جس سے وہ بد دل ہوکر پڑھاتے ہیں، مجبوری کی خاطر، ساتھ ہی بچوں کے ہاتھوں میں موبائل اور سوشل میڈیا کا بے دریغ استعمال ان پر بُرے اثرات مرتب کررہا ہے۔ والدین بچوں کو موبائل دےکر ان کی ذہنی و جسمانی اور روحانی تربیت داؤ پر لگارہے ہیں۔ نتیجہ کیا سامنے آرہا؟
بچے بد تمیز ہوتے جارہے ہیں۔ بے ادب ہورہے ہیں، والدین کو اساتذہ کو جواب دیتے عار محسوس نہیں کرتے، خود کو بڑی شے سمجھتے ہیں، بات نہیں سنتے، من مرضی سے چلتے ہیں، برداشت میں کمی آگئی ہے، اساتذہ ، والدین کی ڈانٹ ڈپٹ کو بے عزتی خیال کرتے ہیں ، پیٹھ پیچھے برائیاں کرتے ہیں، بعض بچے تو سامنے سے زبان بھی چلاتے ہیں۔
دس، گیارہ، بارہ سال کے بچوں کے اپنے فیس بک اکاؤنٹس ہوں، وہ ٹک ٹاکرز ہوں، ان کے فالوورز ہوں تو ایسے بچے، خود کو بچے اور بڑوں کو بڑا کہاں سمجھتے ہیں؟
خدارا والدین اور اساتذہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں، اپنے بچوں کی فکر کیجیے کہ وہ موبائل کو ماں باپ اور استاد نا بنائیں۔
تحریر: شہلا نور

