حجاب

Article by Syeda Rubab
آج شاید زندگی میں پہلی مرتبہ عصرہ نے شلوار قمیص پہنی تھی اور کافی کوشش کے بعد بھی اسکی چادر درست نہیں ہو پائی۔
اسے آج عشاء کے ساتھ اسکے جامعہ جانا تھا وہ عجیب سی خوشی محسوس کر رہی تھی مگر چادر نے اسکو اچھا خاصا غصہ دلا دیا تھا۔ خیر وہ اسی طرح عشاء کے پاس گئی اور اس سے چادر ٹھیک کروائی۔ وہ پہلی دفعہ خود کو اتنی خوبصورت لگی تھی اس لیے دو تین مرتبہ اس نے خود کو آئینے میں دیکھا اور مسکرائی۔
عصرہ اور عشاء دونوں ایک ہی خاندان کی دو بالکل مختلف لڑکیاں ہیں، عشاء ایک جامعہ کی طالبہ ہے اور عصرہ ابھی کچھ دن پہلے ہی آسٹریلیا سے چھٹیاں گزارنے یہاں آئی ہے۔ وہ اس ماحول سے واقف تو ہے مگر بچپن سے ملک سے باہر رہنے کی وجہ سے وہ بہت سے طور طریقے نہیں اپنا پاتی۔
دونوں گھر سے نکلیں تو عصرہ نے کچھ عجیب محسوس کیا مگر وہ سمجھ نہیں پائی، وہ پرسکون تھی عجیب سی خوشی تھی اسکے سنگ اور کچھ بہت مختلف معاملہ تھا آج کے دن جسے وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی۔ عشاء نے راستے میں اسے زیادہ اور اونچا بولنے سے منع کیا تھا جسکی وجہ وہ اسے جامعہ پہنچ کر بتانے والی تھی اور اس کے لیے عصرہ کافی پرجوش بھی تھی۔
جامعہ پہنچ کر سب سے پہلے عشاء نے عصرہ کو اپنی اساتذہ سے ملوایا پھر وہ اسے بتانے لگی کہ اگر راستوں میں اور سڑکوں پر ہم اونچی آواز میں ہنسیں یا غیر ضروری باتیں کریں تو ہمارا حجاب کرنے کا مقصد بہت حد تک اپنی قیمت کھو دیتا ہے۔ عصرہ چونکہ حجاب نہیں کرتی تھی اس لیے وہ اسے سمجھ ہی نہیں پائی اور اس سے پہلے کے وہ سوال کرتی عشاء کی کلاس کا وقت ہو گیا۔
اب عصرہ حال میں اکیلی تھی۔ کافی دیر بیٹھنے کے بعد اس نے خود ہی عشاء کے فارغ ہونے تک جامعہ دیکھنے کا سوچا اور وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ جامعہ کی عمارت تو بہت عمدہ نہیں تھی مگر اسے سجایا بہت ہی نفاست، محبت اورعمدگی سے گیا تھا۔ وہ حیرت و خوشی کے ملے جلے تاثرات سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی کہ انتہائی خوبصورت آواز نے اسکے قدم روک لیے۔
وَقُل لِّلْمُؤْمِنَٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَٰرِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ ءَابَآئِهِنَّ أَوْ ءَابَآءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَآئِهِنَّ أَوْ أَبْنَآءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَٰنِهِنَّ أَوْ بَنِىٓ إِخْوَٰنِهِنَّ أَوْ بَنِىٓ أَخَوَٰتِهِنَّ أَوْ نِسَآئِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَٰنُهُنَّ أَوِ ٱلتَّٰبِعِينَ غَيْرِ أُوْلِى ٱلْإِرْبَةِ مِنَ ٱلرِّجَالِ أَوِ ٱلطِّفْلِ ٱلَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُواْ عَلَىٰ عَوْرَٰتِ ٱلنِّسَآءِ ۖ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ وَتُوبُوٓاْ إِلَى ٱللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ ٱلْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
(النور – 31)
اور ایمان والی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہ نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو جگہ اس میں سے کھلی رہتی ہے، اور اپنے ڈوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رکھیں، اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہر یا اپنے باپ یا خاوند کے باپ۔ اور اپنے پاؤں کو زمین پر زور سے نہ ماریں کہ ان کا مخفی زیور معلوم ہو جائے، اور اے مومنو! تم سب اللہ کے سامنے توبہ کرو تا کہ تم نجات پاؤ۔
(النور – 31)
عصرہ نے پوری آیت رک کر سنی، آیت اور اسکے ترجمے کے بعد آپی کچھ دیر کو رکیں اور پھر گویا ہوئیں۔ یہ عجیب منظر تھا یوں جیسے عصرہ کے دل کے پلٹنے کا احکامات اوپر آسمان پر جاری کر دیے گئے ہوں۔ عصرہ کے قدم رک چکے تھے اور وہ آیت کے زیر اثر وہیں کمرے کے باہر زمین پر بیٹھ گئی۔
آپی نے سلسلئہ کلام دوبارہ شروع کیا اور کہنے لگیں۔
“آپ نے کبھی ایمان بالغیب پر غور کیا ہے؟
اچھا میں آپکو بتاتی ہوں مجھے کیا ملا ایمان بالغیب پر غور کرنے سے، اسکا مطلب ہے بغیر دیکھے ایمان لے آنا یا اس چیز پر ایمان لے آنا جو ظاہر نہیں ہے۔”
آپی کا اس جگہ پر ایمان بالغیب کا ذکر کرنا کسی کو بھی سمجھ نہیں آیا مگر یہ لہجہ اس قدر خوبصورت اور پر تاثیر تھا کہ کوئی روک کر سوال بھی نا کر سکا۔
“آپکو پتا ہے میں کیا سوچتی ہوں اس بارے میں اسکا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اللہ پاک کے ہر ہر حکم اور ہر ہر فیصلے کے پیچھے کوئی وجہ اور کوئی حکمت ضرور ہوتی ہے، اللہ کے فیصلے اور اسکے حکم ہمیں بچانے کے لیے آتے ہیں مگر یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ہمیں وہ حکمت اسی وقت یا جلد معلوم ہو جائے مگر ایمان پتہ ہے کیا ہے کہ جب حکم آگیا فیصلہ آگیا تو وجہ اور حکمت پوچھے بغیر اسے جانے بغیر بس مان لیا سر کو جھکا دیا اور حکم پر پورے دل سے لبیک کہہ دیا سمجھ میں آیا یا نہیں کچھ پلے پڑا یا نہیں بس مان لیا۔ صدیق اکبر نے ایمان کے سامنے آجانے پر کوئی سوال نہیں کیا بس مان لیا اور افضل الخلق بعدالرسل کہلائے اور فرعون نے ڈوبتے ہوئے یہ مان لیا کہ میں رب نہیں ہوں اور موسی و ہارون کے رب پر ایمان لانے کا اعلان کر دیا مگر قبول کیوں نہیں ہوا کیونکہ تقاضا ایمان بالغیب کا ہوا ہے جبکہ وہ حقیقت کو دیکھ کر مان رہا ہے”
عصرہ اپنی جگہ پہ بلکل ساکت بیٹھی ہے الفاظ اسکی روح پر کسی ساشار کر دینے والی بارش کی طرح پڑ رہے ہیں۔
_اب دیکھیں پردے کا حکم آیا ہے سورہ نور میں اب یہ امتحان ہے یہاں صرف حکم ہے اور محبت کا تقاضا ہے کہ حکم پر لبیک کہا جائے حالانکہ آگے سورہ الاحزاب میں اس حکم کی وجہ بھی بیان کر دی جائے گی مگر یہاں پر حکم دے کر دیکھا جائے گا کہ کون سے دل اس پر آنکھیں بند کر کے ایمان لاتے ہوئے لبیک کہیں گے۔” آپی لمحہ بھر کو رکیں۔
عصرہ کی آنکھوں کے سامنے اپنی بیس سالہ زندگی کسی فلم کی طرح چلنے لگی۔ پردہ تو کہیں بھی نہیں تھا اسکی زندگی میں، حالانکہ وہ نماز اور قرآن پابندی سے پڑھتی تھی اور یہ آیت ترجمے کے ساتھ کئی مرتبہ پڑھ چکی تھی۔ اس نے اپنی آنکھیں سختی سے بند کیں شائد وہ خود کو اس شرمندگی سے بچانا چاہ رہی تھی جو خود اسی سے اسکو ہونے جارہی تھی۔
بات کو آگے بڑھاتے ہوئے آپی کہنے لگیں
“چلیں اب میں اپنی پیاری بیٹیوں کو اس حکم کی وجہ سمجھا دیتی ہوں۔
سورة الأحزاب ۔ آیت نمبر ۵۹
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا (الأحزاب – ٥٩)
اے نبی! اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں ۔ اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی پھر نہ ستائی جائیں گی اور اللہ تعالٰی بخشنے والا مہربان ہے ۔
(الأحزاب – ٥٩)
لیجیے حکم کی پوری وجہ آپکے سامنے بیان کر دی گئی ہے۔ میں نے شروع میں بتایا تھا نا حکم جو بھی آئے گا وہ آپکے فائدے کے لیے ہوگا۔ اب ذرا میری بات کا جواب دیں ایک خاتون چست لباس پہنے سڑک پر جارہی ہے اور ایک نے مکمل پردہ کیا ہوا ہے تو آوازیں کس پر کسی جائیں گی؟
پوری کلاس یک زبان ہو کر بولی چست لباس والی خاتون پر!
اس لمحے عصرہ کو اپنا وجود شرم سے پانی پانی ہوتا محسوس ہوا۔ کتنے ہی سال اس نے ایسی بد تمیزیاں برداشت کی تھیں اور اب تو اسے عادت ہو چکی تھی۔
اور اس کے مہربان رب نے بارہا اسکے سامنے یہ آیت لا کر اسے احساس دلایا تھا مگر وہ نا سمجھی۔
بلکل ٹھیک یہ قدرتی عمل ہو گا کہ نگاہیں اسی کی طرف اٹھیں گی اور اسی کو ستایا جائے گا جو بن سنور کر زینت ظاہر کر کے اپنے گھر سے نکلے گی، آپی نے مسکراتے ہوئے کہا۔ تو کیا اب میرے بچوں کو یہ سمجھ آگیا ہے کہ پردہ حجاب یہ سب عورت کی حفاظت کے لیے ہیں؟
سب نے یک زبان خوشی سے کہا جی آپی جان۔
آج ان کے ساتھ ساتھ عصرہ کو بھی سمجھ آچکی تھی کہ اسکی زندگی کے بہت سے مسائل کا حل تو صرف پردہ تھا۔ آج وہ بھی جان گئی کہ اسکے مہربان رب نے ایسا کبھی کوئی حکم نہیں دیا جس میں اسکی بقا نا ہو۔ وہ یونہی بیٹھی آنسو بہائے گئی اور اللہ سے اسکے حکم کو مان لینے کا وعدہ کیا۔ اور اب اسے محسوس ہوا کہ جامعہ آتے ہوئے اسے جو خوشی اور سکون مل رہا تھا وہ اسی وجہ سے تھا کہ آج اس نے زمانہ جاہلیت کی طرح اپنی زینت نہیں دکھائی تھی اور نا ہی اس پر کسی نے بری نگاہ ڈالی تھی۔
آپی نے اب خوشی سے کہا
“ایک اور بات یاد رکھیں حکم کی وجہ تو آپکو مل گئی لیکن پردہ آپ نے صرف اسی لیے کرنا ہے کیونکہ یہ اللہ کا حکم ہے، اس سے آپکو اپنی پارسائی ثابت نہیں کرنی بلکہ یہ اس بات کی دلیل ہونا چاہیے کہ آپ نے اپنے کریم رب کی ایک آیت اسکے ایک حکم کو تھام رکھا ہے”
یہ کہتے ہوئے انہوں نے کلاس کو سلام کیا اور کمرے سے باہر آ گئیں جہاں عصرہ بیٹھی آنسو بہا رہی تھی۔ آپی سمجھ نہیں پائیں کہ وہ کیوں رو رہی ہے لیکن انہوں نے اسے گلے ضرور لگا لیا اور پیار سے اسے چپ کروانے لگیں۔
ایسے ہی ہوتے ہیں خوبصورت رہنما لوگ اور اسلام ایک کامل مذہب ہے۔
کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ کے زیر سایہ گروپ کی طرف سے کرائے گئے رائیٹنگ مقابلے میں سیدہ رباب کے اس آرٹیکل نے پہلی پوزیشن حاصل کی ہے، ہماری ٹیم سیدہ رباب صاحبہ کو اس کامیابی پر مبارکباد پیش کرتی ہے اور دعا گو ہیں کہ اللہ عزوجل آپ کو اور کامیابیاں عطا فرمائے۔آمین
تحریر: سیدہ رباب