ہم اُس دور سے گزر رہے ہیں
Article By Ehsan Shahani
میں یہ تو نہیں کہتا کہ ہم غلط وقت پر پیدا ہوگئے مگر اتنا ضرور ہے کہ پیدا ہونے کے بعد ہم اُس دور سے گزر رہے ہیں کہ ہم کسی کی مدد نہیں کر سکتے ۔ ہم اُس دور سے گزرے ہیں کہ جب عراق کے صدر صدام حسین کو عید والے دن ہی پھانسی دے دی گئی اور ہم کچھ کر نا سکے۔ اور امریکہ نے یورپی یونین سمیت عراق کو کھنڈر بنا ڈالا ، اور جوہری اثاثے کی موجودگی کا ڈھونگ رچا کر عراق پر قیامت برسا دی اور قیمتی خزانہ لوٹ کر پھر چلتا بنا۔
ہم اُس دور سے گزر رہے ہیں کہ امریکہ نے مُلک شام پر چڑھائی کر دی اور 15 لاکھ شامی مسلمانوں کو شہید کر دیا جس میں 10 لاکھ عورتیں بیوہ ہو گئیں ، لاکھوں بچے یتیم ہوگئے اور شام کی بچیوں نے دیواروں پر لکھ دیا کیا دوبارہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہیں آنا ؟ حضرت عمر فاروق نے رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو نہیں آنا تھا مگر ہم نے مدد کرنا تھی جو کہ نا کر سکے۔ شام آج بھی تباہی کا شکار ہے اور آج بھی شامی بہن بھائی کھلی چھت کے نیچے سوتے ہیں اور سردی گرمی کھلے آسمان کے نیچے بنیادی سہولتوں کے بغیر گزار رہے ہیں مگر ہم مدد نہیں کر سکتے۔
ہم اُس دور سے گزر رہے ہیں کہ برما کے ہزاروں روہنگیا مسلمان بھائیوں کو بدھ مت زندہ چیرتے پھاڑتے رہے اور انکے جسم کی اعضاء نکال کر کباب بناتے رہے اور اپنے مذہبی خنزیروں کے ساتھ ڈھولک بجا کر کھاتے رہے اور ہم دیکھتے رہے لیکن مدد نا کی اور یہ سلسلہ اب دوبارہ شروع ہوچکا ہے جہاں روہنگیائی مسلمانوں کے 200 گھر جلا دیے گئے اور ہم بے حس ہو کر دیکھ رہے ہیں۔ ہم اس دور سے گزر رہے ہیں کہ جب لیبیا کے صدر حافظ معمر قذافی کو شہید کر کے اسکی پُشت میں چھریاں گُھسیڑ دی گئیں اور لیبیا کو بھی آدھ موا کر دیا گیا مگر ہم مدد نا کر سکے۔
ہم اُس دور سے گزر رہے ہیں کہ امریکہ نے پوری یورپی یونین کے ساتھ مل کر افغانستان پر چڑھائی کر دی اور مسلمان بچوں کے جسموں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلی مگر ہم نے مدد نا کی ، اور اتنا بمباری کی کہ افغانستان کے پہاڑی علاقے تورا بورا اور قلعہ جھنگی کی پہاڑیوں کے نیچے سے پانی نکل آیا ، اور پھر افغانستان کے مسلمانوں کو کنٹینر میں بند کرکے نیچے سے آگ لگا کر گندم کے دانوں کی طرح بھون دیا مگر ہم مدد نا کر سکے۔
ہم اُس دور سے گزر رہے ہیں کہ یمن پر بمباری کی گئی مگر ہم مدد نہیں کر سکے، ہم اُس دور سے گزر رہے ہیں کہ جب یورپی ملک فرانس نے ہمارے آقا مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی سرکاری سطح پر توہین کی ، گستاخانہ خاکے سرکاری عمارتوں پر لگا کر ٹی وی پر چلوائے مگر ہم بے بس ہو کر دیکھتے رہے مگر ہم گستاخی رکوا نا سکے، پھر سویڈن ، ڈنمارک ، ناروے میں قرآن مجید کو عید کے موقع پر سرعام جلایا جارہا ہے مگر ہم بے حس ہو کر دیکھ رہے ہیں لیکن رُکوا نہیں پا رہے ۔
اب ہم ایسے قرب اور انتہائی مشکل دور سے گزر رہے ہیں کہ جب ہمارے سامنے ہماری فلسطینی ماؤں کی عزتیں لوٹی جارہی ہیں ، دودھ پیتے بچوں کو شہید کیا جارہا ہے، نوجوانوں پر میزائل برسائے جارہے ہیں ، بوڑھی ماؤں کے کلیجے چھینے جارہے ہیں، لاکھوں مسلمان در بدر ہوچکے ہیں ، مسلمانوں کی املاک ، عمارتیں ، سکول ، مساجد ، مدارس، ہسپتالوں کو بھی زمین بوس کر دیا گیا مگر ہم مدد نہیں کر پا رہے ۔ ہزاروں مسلمان شہید کر دیے ہیں گئے ، جو زخمی ہیں اُنکو درد کی گولی ضرورت ہے ،پینے کےلیے پانی کی ضرورت ہے ، کھانے کےلیے روٹی کی ضرورت ہے، مگر ہم سوائے دیکھنے اور افسوس کرنے کے انکی مدد نہیں کر پا رہے ۔
ستاون اسلامی ممالک کی افواج اتنا ہے کہ اسرائیل کی آرمی بس ہاتھوں میں مسل جائے گی مگر ہم اپنے ضمیر ڈالوں کے ہاتھوں بیچ کر اور گنگے شیطان بن کر دیکھ رہے ہیں ۔ ستاون اسلامی ممالک کی افواج ہو یا حکمران یا پھر علمائے کرام ہوں یا پھر عام مسلمان اگر فلسطین کےلیے بروزِ محشر پوچھ گچھ ہوگی تو وہاں جھوٹے بہانے کام نہیں آئیں گے اور نا ہی وہاں عُذر پیش ہونگے بلکہ فلسطینی بچوں کے ہاتھ ہمارے گریبانوں پر ہونگے اور ہم سر جھکائے کھڑے ہیں۔ اس لیے خدارا غزہ کے ، رفح کے اور فلسطینی معصوم بچوں کی مدد کرو اور انہیں مشکلات سے نکالو ۔
تحریر:محمد احسان شہانی