میں بھی ممتاز قادری ہوں

Article by Bint E Hassan
کی محمدﷺ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
وقت کے عاشق کی کہانی شروع ہوئی اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے اس شعر سے “وہ ممتاز تھا، وہ ممتاز ہے اور ہمیشہ ممتاز ہی رہے گا” وہ ایک ممتاز مقصد کے لیے چن لیا گیا تھا، جس کے نام اور کام سے ملکِ پاکستان کے سوئے ضمیر جاگ اٹھے، جس کے کام نے مسلمانوں میں ایک انقلابی روح پھونک دی۔
انقلاب عموماََ معاشرے کی وہ حالت جس سے انسانی اقدار میں اضافہ ممکن ہو سکے، جس سے معاشرے کے جوانوں کو ایک مقصد ملے، جس سے نوجوانوں میں ایک جوش و ولولہ بیدار ہو۔ جب معاشرے زوال کا شکار ہونا شروع ہوتے ہیں اور انسانی اقدار ختم ہونے لگتے ہیں تو انقلاب کے لیے حالات سازگار ہو جاتے ہیں۔ انقلاب حادثاتی طور پر نہیں آتے بلکہ یہ معاشرے میں پپنتے بگاڑ کے وجہ سے آتا ہے۔ پاکستان چوں کہ ایک ایسی ریاست ہے جس کی بنیاد اسلام کے سنہری اصولوں پر رکھی گئی۔ عرصہ دراز سے یہاں(مکمل ضباط حیات)اسلام کےقوانین سے چھیڑ چھاڑ جاری تھی۔ ایسی سنگین چھیڑ چھاڑ نے پاکستان کے مسلمانوں کو ایک انقلابی نعرے کی طرف گامزن کر دیا ۔
جہاں اندرونِ خانہ پاکستان کی تمام حکومتیں سیاسی پیچ و خم کے کھیل رچا رہی تھیں وہیں ساتھ ساتھ اسلامی اقدار میں رد و بدل کرنے کی بھی ناکام کوششیں کی جارہی تھیں۔ عقیدہ ختم نبوت اور ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کچھ پلید نگاہیں گاڑے کھڑے تھے ۔
کئی سالوں سے دشمنانِ اسلام، اسلام کو طرح طرح کے طریقوں سے نقصان پہچاننے کی کوششوں میں تھے بلاآخر وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوتے دکھائی نہ دئیے تو نئے ہتھکنڈے ایجاد کر لیے، انہی سازشوں میں 2010 اور 2011 کا سال مسلمانوں پر پہاڑ بن کر ٹوٹا، دین بیزار طبقہ اور اسلام دشمن قوتیں، کفار اور شاتم رسولﷺّ گروہوں نے بیک وقت اسلام، پیغمبر خاتم رسل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمانوں کے خلاف باقاعدہ ایک مہم شروع کردی۔ مختلف طریقوں سے مسلمانوں کے قلوب و اذہان کو چھلنی کیا جانے لگا، سارے معلون ایک ساتھ ہتھیار لیس ہوئے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے۔ دیکھنے والوں کو کوئی میدان جنگ نظر نہیں آ رہا تھا لیکن مسلمانوں کے دلوں اور دماغ پر برچھیاں برسائی جانے لگیں، پوری امہ مسلم کے دل بری طرح سے زخمی کیے جانے لگے۔
مسلمانوں میں غم و غصے کی ایک لہر دوڑ گئی۔ پے در پے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخیاں اور گستاخوں کی حمایت میں بظاہرے مسلمان کا لبادہ اوڑھے کئی کوفی کردار سامنے آنے لگے۔
ہر غیرت مند مسلمان اسی تگ و دو میں تھا کسی طرح سے وہ شاتم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ناپاک و بدبودار وجود کا قصہ تمام کر کے اللہ کی سرزمین کو پاک کر دے، لاکھ کوششوں کے باوجود دنیا کے معلونوں تک تو کوئی غازی نہ پہنچا سکا لیکن معلون سلمان تاثیر سابق گورنز پنجاب تک ایک غازی نے رسائی حاصل کر لی اور یوں پاکستانی تاریخ میں 4 جنوری2011 وہ تاریخی دن ثابت ہوا جب شہید ناموس رسالت غازی ممتاز قادری رحمتہ اللہ علیہ نےاپنے رسول کریم کی شان اقدس میں کی جانے والی گستاخیوں کا بدلہ لیتے ہوئے اسلام آباد کوہسار مارکیٹ کے باہر معلون سلمان تاثیر کو 27 گولیاں مارکر اپنے اور تمام مسلمانوں کے سینے کی آگ کو گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لہو سے بجھایا۔
ممتاز قادری صاحب کے عمل سے تمام عُشاق رسولﷺّ مسرور ہوئے، کفرکے ایوانوں میں زلزلہ برپا ہوا اور پاکستانی آئین (295-C)میں ترمیم کے حوالے سے پاکستانی پارلیمنٹ میں جمع کروائی گئی قرارداد سمیت ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف اٹھنے والی تمام آوازیں ایکدم سے تھم سی گئیں۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے اس عظیم اقدام سے اٹھنے والے سب فتنے تھم گئے، گستاخان پر زمین تنگ ہونے لگی اورجو سیاسی گماشتے اس قانون کوختم کرنےکی قراردادیں پیش کر رہے تھے ان کی زبانیں گُنگ ہوگئیں پھروہ بھی اس قانون کے تحفظ کی باتیں کرنے لگے ۔ پاکستان کے مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، سارے مسلمانوں کا قرض و فرض ایک غازی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے چکادیا۔ محافظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وقت کے یزیدوں نے تخت دار پر لٹکا کر اغیار کو خوش کیا، غازی صاحب اپنے لہو سے کئی بے جان عاشق روحوں کو سیراب کر گئے۔
غازیِ اسلام،غازیِ ملت، محافظِ ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم، پروانۂ شمعِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ، پیکرِغیرت و حمیت، شہیدِ ناموسِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم، جناب ملک ممتاز حسین قادری شہید رحمۃ اللہ علیہ آپ فنافی الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تھے۔
قارئین محتشم ممتاز قادری صرف نام کا ہی ممتاز نہیں تھا، وہ لاکھوں کام کرنے والوں سے کام بھی ممتاز کر گیا؛ ایسا ابدی کام جو رہتی دنیا تک جب جب عاشقانِ مصطفیﷺ کا ذکر ہو گا تب تب “ممتاز قادری ” کا نام آئے گا۔
وقت کے فرعونوں نے غازی صاحب کو تختہ دار پر لٹکا دیا۔ مذہبی لوگوں میں غیض و غضب کی لہر دوڑ گئی ہر قلوب سخت رنجیدہ ہوا، حکمران طبقہ بھول گیا تھا ۔” اسلام اپنی پاور رکھتا ہے۔” ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی،مذہبی لوگوں پر دہشت گردی کے پرچے کاٹے گئے، آپ کے حق میں احتجاج کرنے والوں کو سنگین دھمکیاں ملنے لگیں، علمائے حق کے نام فورتھ شیڈول میں ڈال دئیے گئے بے جا پابندیاں لگا دی گئی۔
کیا ان پھانسی کے تختوں سے اور بے جا پابندیوں سے مسلمانوں کے دلوں سے جذبہ عشق و وفاِ پیکر کم ہو سکتے تھے؟ قسم بخدا کسی صورت ایسا ممکن ہوتا دکھائی نہیں دیتا تھا۔
چشمِ فلک نے پھر عجب منظر دیکھا کہ پورے ملک سے ہر گھر سے کئی غازی نکل کھڑے ہوئے اور سب نے بلند و بانگ وقت کے ظالم حکمران کو للکارتے ہوئے جواب دیا کہ
میں بھی ممتاز قادری ہوں
تم کس کس پر پابندی لگاو گے؟ تم کس کس کو تختہ دار پر لٹکاو گے؟ پھانسی کے پھندے کم پڑ جائیں گے لیکن عشاقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کم نہیں ہوں گے ۔
اگر آج بھی کوئی کسی قسم کی غلط فہمی میں مبتلا ہے تو وہ اپنی سوچ کا زوایہ درست کر لے کیوں اگر ایسا ممکن ہوتا تو حضرت غازیِ ملت ممتاز قادری شہید علیہ الرحمہ کاجنازہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا۔ جس میں حکومتی رکاوٹوں، میڈیا کی بےغیرتی کے باوجود ایک محتاط اندازے کے مطابق 60 لاکھ افراد شریک ہوئے۔ غازی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو پھانسی دینے والے آج ذلیل و خوار ہو رہے ہیں اور گستاخوں کے حامی ذلیل خوار ہوتے رہیں گے ساٹھ لاکھ کا ممتاز قادری صاحب کا نمازِ جنازہ وہ بھی بنا کسی میڈیا کوریج کے جو اس بات کے لیے کافی ہے کہ اسلام مخالف گٹھ جوڑ توڑ کرنے والے اور اداروں کی کالی بھیڑیں کسی بھول میں نہ رہیں اور وقت رہتے اپنی آنکھیں کھول لیں، وہیں دوسری جانب ایک وطن کے پلید ذہنیت رکھنے والے اور اغیار کے نظام کے متوالے سیاستدانوں کے لیے ان کے “بڑے” کا جنازہ نشانِ عبرت ہے۔
پورے ملک میں جنازہ پڑھانے کو کوئی تیار نہ تھا، بالآخر پیپلزپارٹی کے ایک باریش کارکن کے ساتھ علامہ کا لاحقہ لگا کر چالیس سیکنڈ میں جنازہ پڑھایا گیا۔ آج چند موم بتی والی آنٹیاں، اور لنڈے کے کوٹ پہننے والوں کےعلاوہ کوئی گورنر سلمان تاثیر ملعون کا نام لیوا نہیں ہے اورغازیِ ملت رحمۃ اللہ علیہ لاکھوں مسلمانوں کے دل کی دھڑکن ہیں، اس بات کی گواہی ان کا جنازہ دے چکا ہے، غازی حق پر تھا اس کا فیصلہ آپ کے جسدِ خاکی کو دیکھ کر کیا جاسکتا ہے عموماً جن کو تختہ دار پر لٹکایا جاتا ہے ان کی زبان اور آنکھیں باہر نکل آتی ہیں لیکن عاشق مصطفیﷺ کے کیا کہنے کس قدر طمانیت سے سو گیا چہرے پر نور اور ایک خوش کن مسکراہٹ نے احاطہ کیا ہوا تھا۔
ممتاز قادری شہید رحتمہ اللہ علیہ کی کہانی زمانہ فردِ یوں سناتا ہے
عزت سے نہ مر جائیں کیوں نامِ محمدﷺ پر
ہم نے کسی دن یوں بھی دنیا سے تو جانا ہے
تحریر: بنت حسن