امام جعفر صادق رضی ﷲ عنہ

Article By Yasir Arfat Shah Qureshi Hashmi
آپ امت مصطفیﷺ کے بادشاہ، حجت نبیﷺ کی دلیل، سچے عامل، تحقیق عالم، اولیاء اللہ کے دلوں کا میوہ، سید الانبیاءﷺ کے لخت جگر، اولاد علی وارث نبی، عارف عاشق حضرت سیّدنا امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ ہیں۔
(تذکرہ الاولیاء)
نام ونسب
حضرتِ امام جعفر صادِق رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی
وِلادت۱۷ ربیع الاوّل ۸۳ ہجری، پیر شریف کےدن مدینۂ منورہ میں ہوئی۔ ( بعض جگہ پر آپ کی ولادت ۸۰ ہجری بھی ہے۔ “سیر اعلام النبلا”)
حضرت امام جعفر صادق رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی کنیت ابو عبداللہ اور ابو اسماعیل جبکہ لقب صادق ، فاضل اور طاہر ہے۔ حضرت امام جعفر صادق رَضِیَ اللہُ عَنْہ حضرتِ امام محمد باقر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے بڑے صاحبزادے ہیں۔ حضرت امام جعفر صادق رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی والدہ محترمہ کا نام حضرت سیدتنا اُمِّ فَرْوَہ ہے جو کہ امیرُالمؤمنین حضرت ابوبکرصدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی پوتی ہیں۔
(شرح شجرہ قادریہ ، ص ۵۸)
جبکہ آپ کے والدِ گرامی کا نام مبارک حضرت امام محمد باقر ہے جو امام زَیْنُ الْعَابِدِین کے بیٹے ہیں، یوں آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ والدہ کی طرف سے امیرُالمؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ عَنْہ اور والد کی طرف سے حضرت علی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے جا ملتے ہیں۔ یعنی آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ والدہ کی طرف سے ’’صدیقی‘‘ اور والد کی طرف سے ’’علوی و فاطمی‘‘ ہیں۔
(شرح العقائد،ص۳۲۸)
تعلیم و تربیت
آپ نےمدینۂ مُنَوَّرہ کی مشکبار عِلمی فضا میں آنکھ کھولی اور اپنے والدِ گرامی حضرت سیّدنا امام ابو جعفر محمد باقِر، حضرت سیّدنا عُبَيۡد الله بن ابی رافع، نواسۂ صدیقِ اکبر حضرت سیّدنا عُروہ بن زُبَير، حضرت سیّدنا عطاء اور حضرت سیّدنا نافع عَلَیْہِمُ الرََّحْمَۃ کے چَشْمۂ عِلْم سے سیراب ہوئے۔
(تذکرۃ الحفاظ،ج۱ ، ص۱۲۶)
دو جَلیلُ القدر صحابۂ کِرام حضرت سیّدنا اَنَس بن مالک اورحضرت سیّدنا سہل بن سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی زیارت سے مُشَرَّف ہونے کی وجہ سے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ تابعی ہیں۔
(سیر اعلام النبلا،ج ۶، ص۴۳۸)
دینی خدمات
کتاب کی تصنیف سے زیادہ مشکل افراد کی علمی، اَخلاقی اور شخصی تعمیر ہے اور اُستاد کا اِس میں سب سے زیادہ بُنیادی کِردار ہوتا ہے۔ حضرت سیّدنا امام جعفر صادِق رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی صحبت میں رَہ کر کئی تَلامِذہ(شاگرد) اُمّت کے لئے مَنارۂ نور بنے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے عِلمی فیضان سے فیض یاب ہونے والوں میں آپ کے فرزند امام موسیٰ کاظم، امامِ اعظم ابو حنیفہ، امام مالک، حضرت سفیان ثَوری، حضرت سفیان بن عُیَیْنَہ عَلَیْہِمُ الرَّحۡمَۃ کے نام سرِفَہرِست ہیں۔
(تذکرۃ الحفاظ ،ج۱، ص۱۲۵، سیر اعلام النبلا ،ج۶ ،ص۴۳۹)
امام اعظم ابوحنیفہ فرماتے ہیں
اگر میں دو سال امام جعفر صادق کے پاس نہ رہتا تو ابو حنیفہ ہلاک ہو جاتا۔
قابلِ رشک اوصاف و معمولات
خوش اَخلاقی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی طبیعت کا حصہ تھی جس کی وجہ سے مبارک لبوں پر مسکراہٹ سجی رہتی مگر جب کبھی ذکرِ مصطفےٰ ہوتا تو (نبیِّ کریمﷺکی ہیبت وتعظیم کے سبب) رنگ زَرد ہوجاتا، کبھی بھی بے وضو حدیث بیان نہ فرماتے، نماز اور تلاوت میں مشغول رہتے یا خاموش رہتے، آپ کی گفتگو ”فضول گوئی“ سے پاک ہوتی
(الشفا مع نسیم الریاض،ج۴، ص۴۸۸ملخصاً)
آپ کے معمولاتِ زندگی سے آباء و اجداد کے اَوصاف جھلکتے تھے، آپ کے رویّے میں نانا جان نبیِّ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی معاف کر دینے والی کریمانہ شان دیکھنے میں آتی، گُفتار سےصدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی حق گوئی کا اظہار ہوتا اور کردارمیں شجاعتِ حیدری نظر آتی، آپ کے عفو و دَرگُزر کی ایک جھلک مُلاحَظَہ کیجیے: (حکایت) ایک مرتبہ غلام نے ہاتھ دُھلوانے کے لئے پانی ڈالا مگر پانی ہاتھ پر گرنے کے بجائے کپڑوں پر گر گیا، آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اسے نہ تو ڈانٹا نہ ہی سزا دی بلکہ اسے معاف کیا اور شفقت فرماتے ہوئے اسے آزاد بھی کردیا۔
(بحرالدموع،ص۲۰۲ ملخصاً)
امام جعفر صادق کا علم اور خصائص
حنفیوں کے امام، حضرت امامِ اعظم ابوحنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ جو خود علم کے سمندر تھے آپ بھی حصولِ علمِ دین کیلئے دو سال تک حضرت امام جعفر صادق رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی صحبتِ بابَرَکت میں رہے۔ حضرت امامِ اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ خود فرماتے ہیں
لَو لَاالسَّنَتَانِ لَہَلَکَ النُّعْمَانُ
اگر میری زندگی میں یہ دوسال (جو میں نے امام جعفر صادق رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی خدمت میں گزارے) نہ ہوتے تونعمان ہلاک ہوگیا ہوتا۔
(آدابِ مرشدکامل ، ص۱۷۰)
چنانچہ ایک بزرگ کابیان ہےکہ میں ، حضرتِ سیِّدُنا ابنِ ابولیلیٰ اورحضرتِ سیِّدُنا امامِ اعظم ابوحنیفہ رَحْمَۃُاللہِ عَلَیْہ کے ساتھ حضرتِ سیِّدُنا جعفر بن محمد صادق رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضرتِ سیِّدُنا امام جعفر بن محمد صادق رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے حضرتِ سیِّدُنا امام اعظم ابوحنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے پوچھا: آپ کا نام کیا ہے؟ عرض کی: نعمان۔ پوچھا: اےنعمان! کیا آپ نے اپنے سر کو ناپا ہے؟عرض کی: میں اپنے سر کو کیسے ناپ سکتا ہوں؟ پھر پوچھا: کیا تم آنکھوں کی نمکینی، کانوں کی کڑواہٹ، نتھنوں کی حرارت اور ہونٹوں کی مٹھاس کے بارے میں کچھ جانتے ہو؟ عرض کی: نہیں۔ پوچھا : تم وہ کلمہ جانتےہو جس کااوّل کفر اورآخرایمان ہے؟ حضرتِ سیِّدُنا ابنِ ابولیلیٰ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے عرض کی: اے اِبْنِ رَسُولُ اللہ! جن چیزوں کے بارے میں آپ نے پوچھا ہے ان کے بارے میں ہمیں آگاہ کیجئے۔ فرمایا : میرےدادا (امام زین العابدین رضی اللہ عنہ ) سے مروی ہے کہ آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک نے اپنے فضل واحسان سے نمکینی ابنِ آدم کی آنکھوں میں رکھی کیونکہ یہ دونوں چربی کے ٹکڑے ہیں، اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ پگھل جاتے۔
اِبْنِ آدم پر فضل واحسان اور مہربانی کرتے ہوئے اللہ پاک نے کڑواہٹ اس کے کانوں میں رکھی جو کیڑے مکوڑوں کے لئے رکاوٹ ہے کیونکہ اگر کوئی کیڑا کان میں داخل ہوجائے تو دماغ تک پہنچ جائے لیکن جب کڑواہٹ چکھتا ہے تو نکل بھاگتا ہے۔
اللہ پاک نے اپنے فضل واحسان اور رحمت سے حرارت اِبْنِ آدم کے نتھنوں میں رکھی جس سے وہ بُو سُونگھتا ہے اگر یہ نہ ہو تو دماغ بدبُودار ہو جائے۔
اللہ پاک نے اِبْنِ آدم پر مہربانی اور فضل واحسان کرتے ہوئے مٹھاس اس کے ہونٹوں میں رکھی جس کے ذریعے وہ ہر چیز کا ذائقہ چکھتا ہے اور لوگ اس کی گفتگو کی مٹھاس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
(الفوائد لتمام الرازی، ۱ / ۱۱۱، حدیث: ۲۶۲)
عبید بن رافع فرماتے ہیں
کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی زیارت کی ہے۔ آپ درمیانہ قد، خوبصورت جسم، اور چہرہ ایسا حسین کہ جیسے سورج آپ کے چہرہ انور میں گردش کر رہا ہو۔ کالی سیاہ زلفیں اور ان زلفوں میں چہرہ ایسے نظر آرہا تھا جیسے اندھیری میں رات میں چودہویں کا چاند نظر آتا ہے۔
عمرو بن مقدام رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
کہ جب میں امام جعفر صادِق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھتا تھا، تو آپکے چہرہ انور کی زیارت کرتے ہی یہ خیال آتا کہ اس نورانی شخصیت کا تعلق انبیاء کے پاک گھرانے سے ہے۔
سراج الامہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
کہ میں نے اہل بیت میں امام جعفر بن محمد سے بڑھ کر کسی کو فقیہ نہیں دیکھا۔
مشہور محدث حضرت سفیان ثوری فرماتے ہیں
کہ میں نےآپ جیسا عالم ،زاہد، حسین اور سخی نہیں دیکھا۔
حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
کہ میں حضرت امام جعفر صادق کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا۔ آپ کی ذات اخلاق و عاداتِ مصطفیٰ ﷺ اور حسنِ مصطفیٰ ﷺ کا حسین امتزاج تھی اور تمام علوم میں درجہ کمال حاصل تھا۔ تمام نسبتوں اور فضیلتوں کے باوجود آپ سب سے زیادہ خوفِ خدا کے مالک تھے۔
خوف خدا
حضرت امام جعفر صادق رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بچپن سے ہی خوفِ خدا سے سرشار تھے اور ان کی شان یہ ہے کہ انہیں دیکھ کر دوسروں میں خوفِ خدا پیدا ہو جاتا۔ آپ کے بارے میں منقول ہے کہ رات کو قبرستانوں میں تشریف لے جایا کرتے اور فرماتے کہ اے قبر والو! کیا بات ہے کہ میں تم لوگوں کو پکارتا ہوں تو تم لوگ کوئی جواب نہیں دیتے ہو؟ پھر آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے: افسوس! کہ میرے اور تمہارے درمیان ایسا حجاب(پردہ) ہوگیا ہے۔ لیکن آئندہ میں بھی تمہارے ہی جیسا ہوجانے والا ہوں۔ آپ یہی کلمات فرماتے رہتے یہاں تک کہ صبحِ صادق نمودار ہوجاتی اور آپ نمازِ فجر کے لیے مسجد میں تشریف لے جاتے۔
(آئینہ عبرت ص۶۴)
حضرت امام جعفر صادق رَضِیَ اللہُ عَنْہ ظاہری و باطنی علوم کےماہر تھے اور ریاضت و عبادت میں مشہور تھے۔ مالکیوں کےعظیم پیشوا حضرت امام مالک رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں :میں ایک زمانے تک حضرت امام جعفر صادق رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی خدمتِ با برکت میں آتا رہا ۔ میں نے ہمیشہ آپ کو تین عبادتوں میں سےکسی ایک میں مصروف پایا ، یا تو آپ نماز پڑھتے ہوئے نظر آتے یا تلاوتِ قرآن میں مشغول ہوتے یا پھر روزہ دار ہوتے۔
(شفا شریف)
حضرت امام جعفر صادق رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں
اللہ پاک نے دنیا کو حکم اِرشاد فرمایا: اے دُنیا! جو میری عبادت کرے تُواس کی خدمت کر اور جو تیری خدمت کرے تُو اسے تھکا دے۔
(حلیۃ الاولیاء، جعفر بن محمد صادق ۳/ ۲۲۶، رقم:۳۷۸۵)
حضرتِ سیِّدُناعَمْرو بن مِقدام رَحْمَۃُ اللہِ علَیْہ بیان کرتے ہیں
میں جب بھی حضرتِ سیِّدُنا امام جعفرصادق رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو دیکھتا ہوں تو جان لیتا ہوں کہ یہ انبیائےکرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کی اولاد میں سے ہیں۔ مروی ہے کہ حضرتِ سیِّدُنا امام جعفرصادق رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ لوگوں کو اس قدر کھلاتے کہ اہْلِ خانہ کے لئے بھی کچھ باقی نہ رہتا۔
(حلیۃ الاولیاء ، جعفر بن محمد صادق ۳ / ۲۲۵ ، رقم : ۳۷۸۲)
وصال و مَدْفَن
آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا وصال ۱۵رَجَبُ الْمُرَجَّب۱۴۸ ہجری کو 68 سال کی عمر میں ہوا اور تدفین جَنَّتُ الْبَقِیْع آپ کے دادا امام زین العابدینؓ اور والد امام محمد باقِر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہما کی قبورِ مبارَکہ کے پاس ہوئی۔
(الثقات لابن حبان،ج۳، ص۲۵۱،وفیات الاعیان،ج۱، ص۱۶۸)
منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سیدنا داؤدطائی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے حضرت امام جعفر صادق رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی : آپ چونکہ اہل ِ بیت میں سے ہیں ، اس لئے مجھے کوئی نصیحت فرمائیں۔ لیکن وہ خاموش رہے۔ جب آپ نے دوبارہ عرض کی کہ اہل ِ بیت ہونے کے اعتبار سے اللہ پاک نے آپ کو جو فضیلت بخشی ہے ، اس لحاظ سے نصیحت کرنا آپ کے لئے ضروری ہے ۔ یہ سُن کر امام جعفرصادق رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا : مجھے تو خود یہ خوف لاحِق ہے کہ کہیں قیامت کے دن میرے جدّ ِ اعلیٰ (یعنی رسولِ اکرم ، نورِمجسمﷺ) میرا ہاتھ پکڑ کر یہ نہ پوچھ لیں کہ تُو نے خود میری پیروی کیوں نہیں کی؟ کیونکہ نجات کا تعلق نسب سے نہیں اعمال صالحہ پر موقوف ہے۔ یہ سُن کر حضرت داؤو طائی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو بہت عبرت ہوئی کہ جب اہل بیت کے خوف خدا کا یہ عالم ہے تو میں کس گنتی میں آتا ہوں؟
(خوفِ خدا ، ص۱۱۱)
اللہ عزوجل ہمیں حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کا فیضان نصیب فرمائے آمین ثم آمین۔
تحریر: یاسر عرفات شاہ قریشی ہاشمی