جب دین تخت پر تھا

Article by Maria Ibadat Awan from Islamabad
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ صرف دین اسلام ہی ایک ایسا کامل و اکمل ضابطہٕ حیات ہے جس کے اندر بشریت کی ہمہ جہت راہنمائی کی اہلیت و صلاحیت موجود ہے۔ شریعت الٰہی وہ راستہ ہے جو انبیاء و مرسلین نے ایک کامیاب دنیاوی و اخروی زندگی گزارنے کے لیے دکھایا۔ اسلام وہ دین ہے جو ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام سے لے کرحضور خاتم النبیین ہادی المرسل ﷺ تک تمام نمائندگان الٰہی کے درمیان نقطۂ وحدت ہے۔ یہ دین فطرت ہے جس میں دنیا کے تمام انسانوں کے جینے کا حق محفوظ ہے۔ سب کے لیے امن، انصاف، شرف و عزت پیکر ہے ۔ یہ دین انسانوں کو خوشحالی ترقی اور وقت کے ساتھ آگے بڑھنے کی راہیں دکھاتا ہے۔
اور اسی دین پر عمل پیرا ہو کر مسلمان برسوں حکمرانی کرتے رہے ان کے رعب کا یہ عالم تھا کہ ان کے نام سے ہی کفار کانپ اٹھتے تھے
ایسا کیوں تھا ؟؟؟ ایسا اس لیے تھا کہ اس وقت حاکمِ وقت کفار کے احکامات نہیں بلکہ “وحدہ لا شریک لہ” کے حکم کی تعمیل کرتا تھا، وہ کفار کی خوشنودی حاصل کرنے کے بجائے تاجدارِ مدینہ ﷺ کے نقش قدم پر چلتا تھا،
جب دین تخت پر تھا تو رعایا میں سے کوئی بھی کھڑا ہو کے حاکم وقت سے یہ سوال کرنے کا حق رکھتا تھا کہ جب ہمیں ایک ایک چادر ملی ہے اور آپ کو بھی ایک ہی چادر ملی ہے اور آپ کا کرتہ ایک چادر سے نہیں بن سکتا تو پھر دوسری چادر کہاں سے آئی؟
جب چادر کے بارے میں امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ سے سوال ہوتا ہے تو وہ اپنے بیٹے کو بلا کر اپنی صفائی پیش کرتے ہیں لیکن یہاں نام نہاد ریاست مدینہ میں ڈیم کے نام پر کروڑوں روپے کوئی کھا جاتا ہے اور سوال کرنے پر جواب ملتا ہے کہ
میں نہیں بتاؤں گا
جب دین تخت پہ تھا تو امیر المومنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ نے اپنا وظیفہ اس لیے کم کروا دیا کہ جب وہ گھر گئے تو دیکھا ان کی بیوی نے حلوہ بنا رکھا ہے تو پوچھا یہ کہاں سے آیا تو آپ کی بیوی نے کہا کہ جو وظیفہ مقرر ہے اس میں سے بچا بچا کر رکھتی رہی ہوں جب یہ سنا تو آپ نے عمال کو بلا کر اپنا وظیفہ کم کروا ديا
لیکن نام نہاد ریاست مدینہ میں حکمران وقت ایک عالیشان زندگی گزارنے کے باوجود یہ کہتا ہے کہ “میری تنخواہ میں میرا گزارہ نہیں ہوتا”
جب دین تخت پہ تھا تو مصر کے عامل عیاض بن غنم کو اس وجہ سے ان کے عہدے سے دستبردار کر دیا جاتا ہے کہ وہ ریشمی قبا پہنتے تھے،
لیکن نام نہاد ریاست مدینہ میں ایک MPA بغیر پروٹوکول کے گھر سے نہیں نکلتا۔
جب دین تخت پر تھا تو وقت کے امیر المومنین نے فرمایا تھا کہ اگر فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک و پیاس سے مر جاتا ہے تو اس کا ذمہ دار حاکم وقت ہوگا،
لیکن اس کے بر عکس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں صوبہ سندھ کے حکمران کی بیٹی اپنی شادی پر کروڑوں کا لہنگا پہنتی ہے لیکن اسی سندھ کے علاقے تھر میں غریب کے بچے پیاس سے سسک سسک کر مر جاتے ہیں لیکن ان کے خون کا حساب دینے والا کوئی موجود نہیں۔
جب دین تخت پر تھا فاروق اعظم رضی اللّٰہ عنہ جو امیر المومنین ہیں قیصر و کسری پر جن کی دہشت ہے وہ اپنے کندھوں پہ اناج کی بوری اٹھا کر لاتے ہیں اور اپنے ہاتھوں سے پکا کر کھلا رہے ہیں۔
ریاست مدینہ میں گھر میں چھ بچوں کو فاقوں سے بھوکا مرتا دیکھ کر ان کی بھوک کی تاب نہ لاتے ہوئے بے روزگار صحافی باپ خود کشی کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے مگر نام نہاد ریاست مدینہ میں کوئی سوال اٹھانے والا نہیں ہے۔
اور جب دین تخت پر تھا تو فاروق اعظم جو امیر المومنین ہیں جن کے سامنے قیصر و کسری کے خزانوں کے انبار لگے ہیں وہ جب منبر پر خطبہ دینے آتے ہیں تو ان کے عمامہ پر 12 پیوند لگے ہوئے ہیں
اس کے بر عکس اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سابق و نااہل حکمران کی بیٹی عوام کے پیسوں پر عیاشی کرتے ہوئے لاکھوں کے سینڈل پہنتی ہے لیکن اسے کوئی پوچھنے والا نہیں۔
جب دین تخت پہ تھا تو گستاخ رسول ﷺ کو اس کے عبرت ناک انجام تک پہنچایا جاتا تھا
لیکن نام نہاد ریاست مدینہ میں عاشقانِ رسول ﷺ پر شیلنگ اور سیدھی گولیاں برسا کر ایک گستاخ رسول ﷺ ملعونہ کو اپنے کفار مالکوں کی خوشنودی کیلئے پرائیویٹ جیٹ میں بٹھا کر سات سمندر پار عزت و حفاظت کے ساتھ بھیجا جاتا ہے۔
جب دین تخت پر تھا تو گستاخ رسول ﷺ کو جہنم واصل کرنے والوں کو بہشت کی بشارتیں دی جاتی تھیں،
لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں غازیان ناموس رسالت ﷺ کا نام استعمال کر کے حکومت میں آنے کے بعد کفار کی خوشی کیلئے غازی ناموس رسالت ﷺ کو راتوں رات شہید کر دیا جاتا ہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔
اور جب دین تخت پر تھا تو اسلامی قوانین کا نفاذ تھا اور ان کی خلاف ورزی کرنے والوں کو اسلامی قوانین کے مطابق سزائیں دی جاتی تھیں
جب کہ نام نہاد ریاست مدینہ میں بھنگ کی کھلم کُھلا کاشت کی اجازت اور شراب کی بوتل کو شہد کی بوتل بنا دیا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ جس کے پاس سے شراب کی ایک بوتل برآمد ہو گی اس پر کوئی کاروائی اور کوئی جرمانہ نہیں ہو گا۔
جب دین تخت پر تھا تو صحابہ کرام ، اہلبیت کرام اور دیگر مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی کرنے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا
جب کہ نام نہاد ریاست مدینہ میں آئے دن صحابہ کرام ، اہلبیت عظام اور مقدس ہستیوں کی سر عام توہین کیے جانے پر کوئی کچھ کہنے والا موجود نہیں
اور خود نام نہاد ریاست مدینہ کے وزیر فرشتوں کی شان میں سر عام گستاخی کر رہے ہیں لیکن کوئی انہیں پوچھ تک نہیں رہا۔
اور جب دین تخت پہ تھا تو ایک بہن کے خط پر 17 سالہ نوجوان اس کی مدد کو سندھ پہنچ جاتا ہے
لیکن نام نہاد ریاست مدینہ میں سر عام بنت حوا کی آبرو ریزی کی جاتی ہے لیکن مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بجائے بنت حوا کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے
بچوں کے سامنے ماں کی عصمت دری کے مجرم کو پکڑنے کے بجائے ماں کو قصور وار ٹھہرا کر کہا جاتا ہے کہ رات کو گھر سے نکلی کیوں تھی۔
اور آج بھی دین کا نفاذ قائم ہو سکتا ہے اور اگر ہم دین کے تابع ہو جائیں
جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
اور انشاء الله اب بہت جلد دین تخت پر آئے گا اس کو لانے والے وہ عشاقان رسول ﷺ ہوں گے جنھوں نے فیض آباد کی یخ بستہ ٹھنڈی راتیں نبی ﷺ کے عشق میں سڑکوں پر گزاریں،
اس کو لانے والے وہ ہوں گے جنھوں نے اپنے کندھوں پر آٹھ لاشیں اٹھائیں
اس کو لانے والے وہ ہوں گے جنھوں نے وزیر آباد میں سٹریٹ فائرنگ سے سینے چھلنی کروائے
اس کو لانے والے وہ ہوں گے
جنھوں نے ہر ظلم و ستم کے سامنے صرف ایک ہی نعرہ لگایا
لبیک یارسول اللهﷺ
جنھوں نے اپنے سامنے اپنوں کو جام شہادت نوش فرماتے ہوئے دیکھا تو پھر بھی یہی کہا
ستم گر ادھر آ ہنر آزمائیں
تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں
اور اس کو لانے والے اس عظیم قائد کی قیادت والے ہوں گے جس نے آٹھ ماہ جیل کی صعوبتیں صرف اس لیے برداشت کیں کہ نبی ﷺ کی ناموس پر پہرے کی بات کرتا تھا۔
اس لیے آٹھ ماہ ظلم و ستم برداشت کیا کہ حضور ﷺ کے گستاخ ملک کے سفیر کو نکالنے کا مطالبہ کیا۔
اس عظیم قائد کی قیادت میں دین تخت پر آئے گا جس نے نہ اپنا شباب دیکھا نہ خاندان دیکھا، دیکھا تو صرف حضور ﷺ کی ذات اقدس کو دیکھا
اور بقول اقبال
دنیا کو ہے اس مہدئ برحق کی ضرورت
ہو جس کی نگاہ زلزلۂ عالمِ افکار
اور ان شاء اللّٰہ ہم اس کی قیادت میں دین کو تخت پر دیکھیں گے۔
تحریر: ماریہ عبادت اعوان