صحافت یا سیاست
Article by Bint E Hassan
صحافت یا غلاظت؟
صحافی یا لفافی؟
صحافی یا ترجمانی؟
صحافی یا چاپلوسی؟
جہاں ان لفظوں کی ادائیگی میں مماثلت ہے ویسا ہی اتفاق آج پاکستان میں ان دونوں شعبوں میں دیکھنے میں آرہا ہے ۔ آج کا صحافی مکمل سیاست دان بن چکا ہے یا کسی خاص پارٹی کا ترجمان بن چکا ہے جبکہ اسے جو بننا تھا وہ کہیں بہت پیچھےرہ گیا ہے یا ماضی کا حصہ بن رہ کر گیا ہے۔ پاکستان میں ان دِنوں جہاں سیاسی تقسیم واضح ہے، وہیں صحافت اور صحافی بھی دو حصوں میں بٹے نظر آتے ہیں۔ برعکس دونوں ہی اصل فرائض سے نابلد دکھائی دیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ یہاں سبھی اپنے فرائض ایمانداری سے نبھانے کی بجائے دوسروں کے کام میں ٹانگ دینا فرضِ عین سمجھتے ہیں۔
ہمارے ہاں سیاست ہو یا صحافت، یہ مکمل کاروبار کا روپ اختیار کر چکی ہے۔ ہر کوئی اپنے پیشے کا ٹھیکیدار بیوپاری بن چکا ہے۔ سیاست دان سیاست کے نام پر حرام خوریاں کرتے ہیں اور صحافت پیشہ افراد انہی سیاست دانوں کی حرام خوریوں کو حلال طریقے میں پیش کرنے کا دھندہ کرنے کو صحافت کہتے ہیں۔
کہنے کو تو دونوں ہی سماجی و فلاحی کام کرتے ہیں لیکن ہر جگہ، ہر کام میں دونوں میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ سیاست دان بھی اصل روپ چھپا کر عوام کو بیوقوف بناتے ہیں اور صحافی حضرات بھی انہی سیاست دانوں کی جھوٹی سماجی و فلاحی خدمات پر لفافہ دھندہ سرکار کی غلاظت کے ساتھ پردہ ڈالتے دکھائی دیتے ہیں۔
یعنی لُب لُباب بنتا ہے کہ “سیاسی غلاظت کے بعد اب پیشِ خدمت ہے صحافی غلاظت۔”
صحافت کی جی حضوری میں جتنے جلدی مسائل حل ہو جاتے ہیں کہ کبھی کبھار گمان گزرتا ہے کہ ہم رات سو کر اٹھیں گے تو صبح جاپان کی بلٹ ٹرین ہمارے سراہنے سے ہوکر گزر گئی ہو گی۔
کبھی کہا جاتا تھا ملک کا پانچواں اور سب سے مضبوط ستون صحافت ہے، لیکن آج کل یہی صحافی پیشہ ور حضرات اس ملک کے سب سے بڑے دشمن بن چکے ہیں۔ بلاشبہ صحافت ایک مقدس پیشہ ہے اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں، مگر صحافت کے کچھ راہنما اصول ہیں جن پر پورا اُترنا کسی بھی صحافی کے لیے ضروری ہے۔
کوئی بھی شخص اگر صحافت کے شعبے سے منسلک ہے تو اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ صحافت کے مخصوص اصولوں پر عمل پیرا ہو، جن کو صحافت کے اصول کا علم ہی نہ ہو ایسے بلیک میلرز کو خود ساختہ صحافی بلکہ سینئر صحافی بن کر صحافت جیسے مقدس پیشے کو بدنام کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔
صحافت کے بنیادی اُصولوں میں سے ایک ہے کہ کوئی بھی خبر آجائے تو تحقیق کرنا ہے۔ حقیقت ہے، افواہ ہے یا جھوٹ ہے۔ اللّٰه تعالٰی بھی قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے مفہوم کچھ یوں ہے کہ؛
اے ایمان والو اگر کوئی منافق آپ کے پاس خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کرو۔
اس آفاقی اصول کے پیش نظر کسی بھی خبر کو پھیلانے سے پہلے خوب تحقیق اور جانچ پڑتال کرنا کسی بھی صحافی کی اولین ذمہ داری ہونی چاہیے۔ لیکن آج کوئی ایک صحافی بھی اس اصول پر عمل پیرا دکھائی نہیں دیتا۔ سبھی یا تو کسی خاص پارٹی کے ترجمان بن چکے ہیں یا پھر جھوٹ پھیلا کر عوام الناس کا جینا دو بھر کر رہے ہیں۔ ان لاتعداد ٹی وی چینلز اور اخبارات نے انسان کو ذہنی مریض بنا کر رکھ دیا ہے۔
بد قسمتی سے آج جدید ڈیجیٹل میڈیا دور میں خود ساختہ صحافی اور سوشل میڈیا چینلز، گروپس، پیجز وغیرہ اتنے زیادہ ہیں کہ ان کی پہچان کرنا انھیں پڑھنا اور اعتبار کرنا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ گلی کی ہر نکڑ پر دو تین مفت کے صحافی بیٹھے نظر آئیں گے۔ یقین نہیں آتا تو ٹویٹر جیسی ورلڈ وائیڈ ایپ کھول کر بغور مشاہدہ کیجیے اور بدقسمتی سے ایسا صرف ہمارے ہاں ہی ہے اور ان کی خبروں کے انداز کچھ یوں ہوتے ہیں، غالب نے کہا تھا نا کہ:
اک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحہءِ غم ہی سہی نغمہءِ شادی نہ سہی
یعنی کوئی غلیظ خبر پھیلا دو۔ کوئی حادثہ کر کے اس کو پھیلا دو۔ سارا دن الٹ پلٹ خبریں ہی چلاتے رہو۔ بس یہ کہ رونق برقرار رہے۔ لوگوں کو بحث و مباحثہ کے لیے نت نئی من گھڑت کہانیاں ملیں اور وہ حقیقت جاننا درکنار اس پر سوچنا بھی جرم سمجھیں۔
بات اتنی ہی نہیں کہ صحافی لفافی بنتے کتنی دیر لگاتا ہے بلکہ اپنی ایمانداری کو ثابت کے لیے کرنے ایڑھی چوٹی کا زور لگا دیتا ہے یہاں تک اپنے خاص لیڈر کو حق سچ پر ثابت کرنے کے لیے اپنے مطابق متراجم کر کے قرآنی آیات و احادیث کا حوالہ جات تک دے دیا جاتا ہے، جس سے عام عوام الجھ کر رہ جاتی ہے ۔ سیاسی پیچ و خم میں اس وقت عام عوام کی زندگی کو متاثر کرنے والے چند قلم فروش صحافی حضرات ہیں جو اپنا حلف تک بھول چکے ہیں۔ سیاہ کو سفید کی آمیزش پر سچ کو چھپا کر جھوٹ کی دہکتی آگ پر قلم کو جلا چکے ہیں ۔
ترسنا بلکنا ، بلک کر ترسنا
لفافہ صحافت کا ہے شاخسانہ
بڑھتے ہیں چند چمچے حکمرانوں کی جانب
لفافہ صحافت کی یہی خاص ادا ہے
کرتے نہیں حق بات جو پیسے کی خاطر
ترسنا، بلکنا ہی فقط ان کی سزا ہے
سچ جو جھوٹ ہے” جیسے صحافی حضرات جو صحافت کے بنیادی اصولوں اور صحافت کی “ص ” سے بھی واقف نہیں ان سے عرض ہے پہلے صحافت جیسا مقدس پیشہ سیکھ لیں ۔
جھوٹ کو اگر بہت کثرت سے دہرائیں تو وہ سچ بن جاتا ہے؛ اس مقولے پر کام کرنے والے چند صحافی اپنا پیشہ ورانہ دھندہ چھوڑ کر آخرت کے بارے میں بھی سوچ لیں اور اس ملک کے حال پر رحم کریں۔ وطن عزیز میں یوں تو ایوان اقتدار سے لے کر منبر ومحراب تک ہی افراتفری، نارسائی، بدعنوانی اور لوٹ کھسوٹ خود رُو جڑی بوٹیوں کی طرح اُگی ہوئی ہیں، مگر جس قدر صحافت جیسے مقدس اور محنت طلب شعبے میں کالی بھیڑیں دَر آئی ہیں، یہ بذات خود المناک ہی نہیں بلکہ شرمناک بھی ہے۔ المیہ تو یہ ہے انھیں اس قبیح عمل پر شرمندگی بھی نہیں ہوتی ۔
ہائے وہ صحافی جو صحافت کی قبائے دلفریب اوڑھ کر لفظوں کا تقدس پامال کرتے ہیں؛ وہ کسی پیشہ ور مجرم سے کم نہیں۔
بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اپنے صحافتی فرائض کی انجام دہی کے لیے سچے دل سے کوشاں ہوں گے۔ کئی جگہ دیکھا گیا ہے کہ شہر یا قصبے میں ایک صاحب خبر لکھنے کا کچھ سلیقہ رکھتے ہیں تو باقی ”صحافی” انہیں سے لکھوا کر اپنے اپنے اخبارات کا پیٹ بھرتے ہیں۔
تحریر : بنت حسن