عشقِ مصطفیﷺ کی شمع جلائی جس نے

Article by Aqsa Bint Hassan
وہ کون تھا جو زمانے میں ہلچل مچا گیا, نبی ﷺ کے دیوانوں کو جگا گیا ، جو ناموس رسالت ﷺ کی حفاظت کے لیے ناتواں بدن کے ساتھ وقت کے فراعین کو للکارتے ہوئے ٹکرا گیا ۔توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کی جاتی ہے تو وقت کے بڑے بڑے جید اشتہاری، درباری، سرکاری، سیاسی، خوشامدی ملاں خاموشی اختیار کر لیتے ہیں مگر ایک 52 سالہ عاشق رسول ہاتھ میں ’’تحفظ ناموس رسالت ﷺ‘‘ کا پرچم تھامے وہیل چیئر پر اپنے ساتھیوں سمیت شاہراہوں پر نکلتا ہے تو پولیس لاٹھی چارج کرتی اور انہیں گرفتار کر کے جیل بھیج دیا جاتا ہے ۔’’تحفظ ناموس نبی ﷺ‘‘ کے لیے پابند سلاسل ہونا کتنے اعزاز کی بات ہے اس بات کا اندازہ تو آپ عاشقان رسول ﷺ کے عشق سے لگا سکتے ہیں۔ وہ ایک جید ،دلیر ، نڈر ایک عظیم صوفی تھا ۔
علامہ خادم حسین رضوی رحمتہ اللہ علیہ صوبہ پنجاب کے ضلع اٹک سے تعلق رکھتے تھے ۔حافظ قرآن تھے اور عربی ’اردو اور فارسی کی زبان پر انہیں عبور حاصل تھا۔ علامہ خادم حسین رضوی نے ساری زندگی عشق مصطفی ﷺ کا چراغ روشن کیے رکھا اور وقت کے اٹھنے والے ہر فتنے کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ وہ ایک ممتاز عالم کے ساتھ ساتھ ختم نبوت اور ناموس رسالتﷺ کے عظیم داعی بھی تھے۔
علامہ خادم حسین رضوی کا کہنا تھا کہ وہ زندگی ہی فضول ہے اگر مسلمان اپنے آقا حضور ﷺ کے ناموس رسالت کے لیے کھڑا نہ ہو اور اس کی حفاظت میں نہ آئے۔ سارا عالم بیکار ہے جس میں آقا حضور نبی اکرم ﷺ کی عزت نہ ہو۔ تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں ہر دور میں ایسی شخصیات وقتاً فوقتاً سامنے آتی رہیں اور اپنے حصے کا کام اپنے کردار و عمل کے ساتھ سر انجام دے کر اس دار فانی سے رخصت ہو گئیں۔ لیکن تاریخ میں ان کا کردار آج بھی انمٹ نقوش کے ساتھ سنہری الفاظ میں درج ہے۔
چاہے وہ معتزلہ کے خلاف اٹھنے والے امام ابو الحسن اشعری ؒہوں یا فتنہ خلق قرآن کے خلاف آواز بلند کرنے والے امام احمد بن حنبلؒ‘ باطنیت اور فلاسفہ کو رد کرنے والے امام غزالیؒ ہوں یا دین اکبری کے خلاف اعلان جنگ کرنے والے شیخ احمد سرہندیؒ ’مراہٹہ کے خلاف ابدالی کو آواز دینے والے شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ ہوں یا پھر ہندوستان میں عشق رسول ﷺ کی شمعیں روشن کرنے والے امام احمد رضا خاں فاضل بریلویؒ‘ فتنہ قادیانیت کے زہر کو ختم کرنے والے پیر مہر علی گولڑویؒ ’ہوں یا پستی کے دور میں مسلمانوں کو عروج کا خواب دینے والے ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمہم اللہ ہوں۔
ہر دور میں اللہ تعالیٰ نے اس روئے زمین پر ایسی شخصیات ضرور پیدا کیں جنہوں نے دین محمدی ﷺ کا علم اٹھا کر اسلام کے خلاف اٹھنے والے فتنے کو نہ صرف رد کیا بلکہ اپنے عمل سے باطل قوتوں کا مقابلہ بھی کیا اور انھیں یاد دلایا ہے کہ غلام جب تک زندہ ہیں ان فتنوں کا سر کچلا جاتا رہے گا۔ دور حاضر میں جہاں اور بہت سے حوالوں سے دین اسلام کے خلاف سازشیں کی جا رہی ہیں ان میں سب سے زیادہ نازک مسئلہ ناموس رسالت ﷺ کا ہے حضور ﷺ کی ناموس جیسے نازک معاملے کو لے کر کفار نے ماضی میں بھی ہرزہ سرائیاں کیں جن پر ان ادوار کی ناموس رسالت کی پاسدار شخصیات نے کفار کو منہ توڑ جواب دیا اور اب موجودہ دور میں تو یہ معاملہ کئی حوالوں سے شدت اختیار کر چکا ہے۔ آئے روز اس نازک معاملے پر امت مسلمہ کے جذبات سے کھیلنا کفار کا وطیرہ بن چکا ہے۔
ان حالات میں علامہ خادم حسین رضوی علیہ الرحمہ نے جو کردار اپنی بلند آہنگ آواز کے ساتھ ادا کیا ایسی آواز کی اشد ضرورت تھی جو شدت کے ساتھ اس معاملے کو اٹھاتی اور مسلمانوں کو اس نازک مسئلے کا احساس دلاتی۔ جس سے کم از کم امت مسلمہ کے دلوں میں وہ شمع ضرور روشن رہتی جس کو کفار صدیوں سے بجھا دینا چاہتے ہیں۔ ناموس رسالت کا معاملہ اگر اتنا اہم نہ ہوتا تو صلاح الدین ایوبیؒ جیسا سپہ سالار جو میدان جنگ میں دشمن پر رحم کرنے کی مثالیں پیش کر چکا ہے رینالڈ جیسے بد باطن بادشاہ کی گردن اڑانے کی قسم نہ کھاتا اور پھر سلطان صلاح الدین ایوبی علیہ الرحمہ نے یہ کر بھی دکھایا۔
ناموس رسالت ﷺ کا معاملہ ہر دور میں امت مسلمہ کے لیے نازک ترین رہا اور آج کے دور میں بھی اس نزاکت ماضی کی طرح برقرار ہے۔ اب بھی کفار مختلف حیلوں کے ذریعے جب مسلمانوں کے جذبات مجروح کر رہے تھے تو علامہ خادم حسین رضوی جیسی شخصیت کی اشد ضرورت تھی جو صرف اور صرف امت مسلمہ کی آواز بنے۔ علامہ خادم حسین رضوی علیہ الرحمہ سیدالانبیا‘ سید المرسلین ’خاتم النبین‘ شفیع المذنبین ﷺ کے ایک ادنی سے پیرو کار تھے انہوں نے اپنی زندگی کو حضور ﷺ کی محبت میں ڈھال کر کامیابی کی ضمانت بنا رکھا تھا۔ وہ اس ہستی کا سپاہی تھا جس کے سر وجہ تخلیق کائنات کا سہرا ہے جس کو اللہ تعالی نے اس روئے زمین کے ذرے ذرے کا نبی بنا کر بھیجا۔
کفار اسلام پر شدت پسندی کا الزام لگا کر دراصل اسلام دشمنی میں اندھے ہو چکے ہیں۔ علامہ خادم حسین رضویؒ کی شخصیت ان کے انداز بیاں’ گفتگو اور اپنے مطالبات منوانے کے طریقہ کار سے لوگوں کو ہزار اختلاف سہی لیکن انہوں نے اپنا فرض پورا کیا ان کی نیت پر شک نہیں کیا جاسکتا ۔ علامہ خادم حسین رضوی سے سب سے زیادہ اختلاف ان کی شدت پسندی کی وجہ سے کیا جاتا تھا۔ لیکن تاریخ اس بات کی آج بھی شاہد ہے کہ جب منگول عالم اسلام کی دیواریں پھلانگ کر صحن میں اتر آئے اس وقت شیخ نجم الدین کبریٰ علیہ الرحمہ اور خواجہ فرید الدین عطار علیہ الرحمہ جیسے گوشہ نشین صوفیا بھی تلواریں سونت کر گلیوں میں یہ کہتے ہوئے نکل آئے کہ منشاء الٰہی یہی ہے۔
علامہ خادم حسین رضوی سے اس کی شدت پسندی پر اختلاف رکھنے والے یہ بات بھی ذہن میں ضرور رکھیں کہ بعض معاملات میں شدت پسندی ہی مومن کا وطیرہ ہوتی ہے۔ یہ قول بھی تو عالم اسلام کے سب سے بڑے جرنیل سلطان صلاح الدین ایوبی کا ہی ہے کہ؛
”مجھے نہیں معلوم اسلام اخلاق سے پھیلا یا تلوار سے لیکن میں اسلام کی حفاظت میں تلوار ضرور اٹھاؤں گا۔“
بس یہی بات اسلام نے بڑھ کر حملے میں پہل کا درس نہیں دیا لیکن دفاع کا سبق ضرور سکھایا۔ دور حاضر میں کوئی اور ایسی شخصیت نہیں آئی جس نے ناموس رسالت ﷺ کے معاملے کو زبان زد عام کیا ہو اور ایک عام مسلمان کے ذہن کو بھی اس نازک ترین معاملے کی فہم پہنچائی ہو۔ علامہ خادم حسین رضوی علیہ الرحمہ اپنے حصے کا جو کام تھا وہ کر گئے باقی جن کو اختلاف ہے جو کسی بھی معاملے پر ہو سکتا ہے؛ اس سے انھیں کوئی سروکار نہیں تھا وہ بس اپنا کام کر گئے اور اعتراض کرنے والے اعتراض کرتے ہی رہ گئے۔
اللہ تعالیٰ علامہ خادم حسین رضوی علیہ الرحمہ کے درجات بلند کرے اور ان کی قبر کو منور فرمائے (آمین)
تحریر: اقصیٰ بنت حسن


