ختم نبوت ایمان کا مسئلہ
Article by Bint E Hassan
ختم نبوت نہ تو کسی مولوی کا مسئلہ ہے نہ ہی کسی فرقے کا مسئلہ ہے، اصل میں ختم نبوت ہر مسلمان کے ایمان کا مسئلہ ہے۔ ختم نبوت ﷺ دین اسلام کا جزو نہیں بلکہ اس پر اسلام کی پوری عمارت کھڑی ہے، اس میں رتی برابر شک کی گنجائش نہیں اگر ہوئی تو ایمان کی پوری عمارت زمین بوس ہو جائے گی۔
کلمہ طیبہ کے نام پربننے والی ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان اپنے وجود کے پہلے30 سال تک انتہائی گھمبیر مسائل کا شکار رہی جہاں ایک طرف بنگلہ دیش کی صورت میں ملک دولخت ہوگیا تو دوسری جانب قادیانی احمدی جماعت کی وجہ سے ختم نبوت ﷺ جیسے عظیم عقیدہ پر مسلمانان پاکستان کی ناختم ہونے والی بے چینی مملکت میں آئے روز فسادات، قتل و غارت جیسے واقعات ہوئے۔ حد تو یہ تھی کہ عقیدہ ختم نبوت ﷺ کی پیروی کرنے کی پاداش میں اسلامی ریاست پاکستان میں خود صحیح العقیدہ مسلمانوں کو ہی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں یہاں تک کہ جیدءعلماءکرام کو پھانسی کی سزائیں بھی سنائی گئیں۔ بالآخر ماہ ستمبر 1974 میں پارلیمنٹ کی جانب سے آئین پاکستان میں متفقہ طور پر ترمیم کرکے اس مسئلے کو ابدی طورپر حل کردیا گیا۔بندی ناچیز اپنی اس تحریر میں ریاست پاکستان کے آئین و قانون کی روشنی میں ختم نبوت ﷺ پر چند معروضات پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہی ہوں۔ پاکستان کے تمام مسلمانوں کے لئے آئین و قانون میں درج ان معلومات بارے آگاہی بہت ضروری ہے۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل1 (1) کے مطابق :
مملکت پاکستان اک جمہوریہ ہوگی جس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہوگا۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل 2 کے مطابق:
اسلام پاکستان کا ریاستی مذہب ہوگا۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل 2 (a) کے مطابق:
قراد داد مقاصد 1949 کو آئین پاکستان کا preamble یعنی تمہید بنا دیا گیا۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل 260 (3) (a) کے مطابق:
مسلمان کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:
”مسلمان“ سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کی وحدت و توحیدقادر مطلق اللہ تبارک تعالیٰ اور خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کی ختم نبوت پر مکمل اور غیر مشروط طور پر ایمان رکھتا ہواور ایک نبی یا مذہبی مصلح کے طور پر کسی ایسے شخص پر نہ ایمان رکھتا ہواور نہ اسے مانتا ہوجس نے حضرت محمد ﷺ کے بعد اس لفظ کے کسی بھی مفہوم یا کسی بھی تشریح کے لحاظ سے پیغمبرہونے کا دعویٰ کیا ہو یا جو دعویٰ کرے۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل 260 (3) (b) کے مطابق :
غیر مسلم کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:
”غیر مسلم“ سے ایسا شخص مراد ہے جو مسلمان نہ اور اس میں عیسائی، ہندو، سکھ،بدھ یا پارسی فرقے سے تعلق رکھنے والا شخص، قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ کا (جو خود کو ’احمدی‘ یا کسی اور نام سے موسوم کرتے ہیں) کوئی شخصی یا کوئی بہائی، اور کسی درج فہرست ذاتوں سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص شامل ہے۔
آئین پاکستان میں ختم نبوت ﷺ اور مسلمان کی واضح تعریف کے بعد کس بھی قسم کے غیر آئینی اقدام کی روک تھام کے لئے مجموعہ تعریزات پاکستان یعنی پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 298 میں 1984 میں ایک آرڈیننس کے تحت ترمیم کی گئی ۔
پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 298 (B) (1) کے مطابق:
قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ کا کوئی بھی فرد (جو اپنے آپ کو “احمدی” کہتے ہیں یا کسی دوسرے نام سے جو الفاظ کے ذریعے، یا تو بولے یا لکھے، یا ظاہری نمائندگی کے ذریعے درج ذیل افعال کرے:
(الف) حضرت محمد ﷺ کے خلیفہ یا صحابی کے علاوہ کسی بھی شخص کو ”امیر المومنین”، ”خلیفۃ المومنین”، خلیفۃ المسلمین”، ”صحابی” یا ”رضی اللہ عنہ” کے طور پر منسوب یا مخاطب کرے۔
(ب) حضرت محمد ﷺ کی کسی زوجہ محترمہ کے علاوہ کسی ذات کو ”ام المومنین” کے طور پر منسوب یا یا مخاطب کرے۔
(ج) حضرت محمد ﷺ کے خاندان ”اہل بیت” کے کسی فرد کے علاوہ کسی بھی فرد کو ”اہل بیت” کے طور پر منسوب یا مخاطب کرے۔
)د) اپنی عبادت گاہ کو ”مسجد” کے طور پر منسوب کرے یا موسوم کرے یا پکارے۔
درج بالا جرائم کی صورت میں اس شخص کو قید کی سزا دی جائے گی جو کہ تین سال تک ہو سکتی ہے، اور جرمانے کے قابل بھی ہوگا۔
پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 298 (B) (2) کے مطابق:
قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ کا کوئی بھی فرد (جو اپنے آپ کو ”احمدی” یا کسی اور نام سے پکارتا ہے) جو الفاظ کے ذریعے، یا تو بولے یا لکھے، یا ظاہری نمائندگی کے ذریعے، اپنے مذہب میں عبادت کے لئے بلانے کے طریقے یا صورت کو اذان کے طور پر منسوب کرے یا اس طرح اذان دے جس طرح مسلمان دیتے ہیں۔ اسے دونوں میں سے کسی ایک صورت میں قید کی سزا دی جائے گی جو کہ تین سال تک ہو سکتی ہے، اور جرمانے کے قابل بھی ہو گا۔
پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 298 (C) کے مطابق:
قادیانی گروہ یا لاہوری گروہ کا کوئی فرد (جو اپنے آپ کو ‘احمدی’ یا کسی اور نام سے پکارتا ہے)، جو بالواسطہ یا بلاواسطہ خود کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے، یا اپنے عقیدے کو اسلام کہتا ہے، یا اپنے عقیدے کی تبلیغ کرتا ہے یا اس کی تبلیغ کرتا ہے، یا دوسروں کو اپنے عقیدے کو قبول کرنے کی دعوت دیتا ہے، الفاظ کے ذریعے، یا تو بولے یا تحریری، یا ظاہری نمائندگی کے ذریعے، یا کسی بھی طریقے سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کی صورت میں کی قید کی سزا دی جائے گی جس کی مدت تین سال تک ہو سکتی ہے اور جرمانہ بھی ہو سکتا ہے۔
اللہ کریم ہم سب کو پکا سچا مسلمان بنائے اور زندگی کے آخری سانس تک عقیدہ ختم نبوت ﷺ پر قائم دائم اور اس عقیدہ کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
لیڈر نہیں اپنے ایمان بچائیے۔
تحریر: بنت حسن