کیا ہم پاکستانی ہیں؟
Article by Rabia Basri
کیا ہم پاکستانی ہیں، کیا ہم اس قابل ہیں کہ خود کو پاکستانی کہیں؟
کیا ہم نے کبھی اپنے ملک کے لئے کوئی ایسا قدم اٹھایا جس سے ہمارے ملک کو فائدہ ہو؟
کیا کوئی ایسا کام کیا جس سے ملک کی ترقی میں اضافہ ہوا ہو؟
کیا ہم نے ایک اچھے نمائندے کا انتخاب کیا؟
کیا ہم صرف 14 اگست کو ایک “پاکستان زندہ باد” کا نعرہ بلند کرنے سے پاکستانی بن جاتے ہیں؟کیا سال میں وطن کے لئے ایک ہی دن محبت پیدا ہوتی ہے؟
آخر کیوں؟ یہ محبت صرف ایک دن ہی کیو؟ہر دن یہ جذبہ کیو نہیں ہوتا؟کیا صرف ہماری فوج ہی ملک کی حفاظت کی ذمہ دار ہے؟کیا ہمارا فرض نہیں ہے؟
کیا چہرے پر چاند اور ستارہ بنا لینے سے پاکستانی ہونے کا حق ادا ہو جاتا ہے؟کیا موٹر سائیکلوں پر جھنڈا لگا لینے سے ہم پاک وطن کے حق دار بن جاتے ہیں؟ کیا گھروں میں،گلیوں میں جھنڈے اور جھنڈیاں لگانے سے وطن سے محبت کا حق ادا ہو جاتا ہے؟
نہیں ہرگز نہیں۔۔۔۔
وطن سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ وطن سے گندگی صاف کی جائے،مطلب وه لوگ جو ہمارے وطن میں رہ کر ہمارے ہی وطن کو کھوکلا کر رہے ہیں ان کا ساتھ دینے کے بجاۓ انھیں سزا دلوائی جائے۔ہر قسم کا نشہ بیچنے والے جو ہمارے ہم وطنوں کو نشے کی عادت ڈال کر خراب کر رہے ہیں انھیں کڑی سے کڑی سزا دلوائی جائے۔نہ کہ ان کے ساتھ مل کر خود بھی غلط کام کریں۔
پیسہ سب کچھ نہیں ہوتا اپنا ملک دیکھیں اپنے لوگوں کو دیکھیں اپنے مسلمان بہن بھائیوں کو دیکھیں اور ان سب کی حفاظت کریں،حفاظت کا ذمہ صرف فوج کا نہیں ہے بلکہ ہر پاکستانی کا ہے۔ہم سب کو مل جل کر اپنے وطن کے لئے کام کرنا ہوگا۔دشمنوں سے اس کی حفاظت کرنی ہو گی۔
نشہ آور ادوایات کی روک تھام کیلئے کام کیا جائے۔اس کے لیے ایسی ٹیم بنائی جائے جو لوگوں کے بیچ رہ کر ان کی حفاظت کرے۔
خود کو آج کے دور میں ہر ہم وطنی نے موبائل کا کر دیا۔کیا موبائل چلانے سے ہمارا ملک ترقی کر رہا ہے؟
صرف موبائل کی حد تک خود کو نہ محدود کریں۔تعلیم حاصل کریں اور غلط صحیح کی پہچان رکھیں۔خود کو اس قابل بنائے کہ اپنے وطن کے لیے ایک اچھے نمائندے کا انتخاب کر سکیں۔
وطن کے لیے جذبہ محبت کوئی سو میں سے دس لوگ رکھتے ہیں اور باقی سب صرف نعرہ لگانے کے لیے میدان میں اترتے ہیں۔
ارے ہمیں تو یہ بھی نہیں علم کہ اپنے ملک کا نمائندہ کس طرح منتخب کرنا ہیں کوئی شہباز شریف کو چور کہہ رہا ہے تو کوئی عمران خان کو برا کہہ رہا ہے۔کوئی شہباز شریف کا دیوانہ تو کوئی عمران خان کا۔
یہ ملک اس طرح چلے گا کیا؟کہ سب ایک ہی جگہ ایک ہی ملک کے باشندے ہو کر آپس میں حکمران کے لئے لڑ رہے ہیں۔کیا آپ نے کبھی سوچا کہ آپ لوگوں کی اسی لڑائی کا فائدہ کوئی باہر کا ملک اٹھا رہا ہے آپ لوگوں کو آپس میں ہی لڑوا رہا ہے کیا قائد نے اس دن کے لئے الگ وطن کے لئے جد و جہد کی تھی؟
کتنی قربانیوں سے یہ وطن ملا ہے آج تک سب نے پڑھا ہے سمجھا نہیں نہ محسوس کیا۔
کبھی سوچ کر دیکھنا کہ آپ کی آنکھوں کے سامنے آپ کے کسی اپنے کو مار دیا جائے اور آپ اتنے بے بس ہوں کہ کچھ کر بھی نہ سکیں۔
آپ کے سامنے آپ کی بہن کی عزت لوٹ رہی ہو پر آپ کچھ کر نہ پائے،آپ کے سامنے اگر آپ ہی کے بھائی کو قتل کیا جا رہا ہو،آپ سے آپ کی اولاد چھینی جا رہی ہو،آپ کے سامنے آپ کے پیاروں پر لاٹھیاں برسائی جا رہی ہوں،اور آپ ان کے لئے کچھ نہ کر پا رہے ہوں۔
کچھ اس طرح کی قربانیاں دے کر وطن حاصل کیا گیا ہے۔
سوچا ہے کبھی ایسا درد؟
نہیں۔
کیو نکہ ہم نے کتب کی حد تک قربانی دیکھی اور پڑھی ہے۔
مگر جن لوگوں نے اپنے پیاروں کو گنوا کر یہ وطن جدو جہد سے حاصل کیا ہے صرف وہی جانتے ہیں کہ اس وقت ان پر کیا گزری۔
یہ سب قربانیاں کیو دی گئی؟جدو جہد کیو کی گئی؟
کیوں؟
کیو نکہ الگ وطن کا جنوں تھا۔جہاں سب مسلمان اپنے دین کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔جہاں کوئی انھیں سجدہ کرنے پر قتل نہ کر سکے،جہاں وه اذان کی آواز بلند کر سکے۔جہاں اپنے رسول ﷺ کی سنت پر عمل پیرا ہو سکے۔
اگر آج قائد ہوتے تو وطن کی یہ حالت دیکھ کر خون کے آنسو روتے
کیو نکہ انہوں نے وطن حاصل کیا تھا کہ مسلماں کے دین کی حفاظت ہو سکے۔مسلمان آزادی سے نماز پڑھ سکے آزادی سے اسلام کے مطابق زندگی گزار سکے۔مگر سوچنے کی بات یہ ہے کیا آج ہم دین پر چل رہے ہیں؟کیا انہوں نے جس مقصد کے لئے وطن حاصل کیا تھا وه مقصد پورا ہو رہا ہے؟
نہیں بلکل نہیں۔
بلکہ ہمارے ملک کے باشندے اپنے ملک میں کام کر کے نام روشن کرنے کے بجائے باہر کے ملک جا کر کام کر رہے ہیں۔
ایسا کیوں؟
کیا اب ہمارا وطن روزگار بھی مہیا نہیں کر سکتا؟
ارے ہم نے تو وطن کو تو جنت بنا کر رکھنا تھا نہ ، ہم مسلمان ہیں،اپنے دین پر چلتے ہوئے اپنے ملک کی ترقی کے لئے کام کرتے۔
مگر آج ہمیں نہ اپنا دین یاد ہے اور نہ ہی 1947 میں جو مسلمان بہن بھائیوں نے قربانیاں دی وه یاد۔
خدارا اپنے وطن کی ،اپنی پاک سر زمیں کی قدر کرو۔بہت محنت و مشقت اور قربانیوں سے یہ وطن ملا ہے۔یہاں اپنے دین کے مطابق آزادی سے رہیں اپنے دین کی اور وطن کی حفاظت کرے۔ یہ صرف فوج یا پولیس کا کام نہیں ہر اس شخص کا فرض ہے جو اس وطن کا حصہ ہے جسے اپنا وطن عزیز ہے جسے اپنا دین عزیز ہے۔
اللّه پاک ہم سب کے وطن کی حفاظت فرمائے۔آمین
تحریر: رابعہ بصری