مزدور یعنی مجبور

Article by Zain Rizvi
جبر سہہ لیتا ہوں مجبور ہوں میں
میرا مطلب ہے کہ “مزدور” ہوں میں
“مزدور “کی زندگی ایک گدھے کے برابر تھی ایک جانور کی طرح مزدور سے کام لیا جاتا تھا اور تنخواہ بھی کچھ خاص نہیں تھی اوور ٹائم کا تصور ہی نہیں تھا ڈیوٹی کے دوران اگر کوئی مزدور زخمی ہو جاتا یا مر جاتا تو اس کے تمام اخراجات خود مزدور کے زمے تھے فیکٹری یا مل کی طرف سے ایسا کوئی قانون نہیں تھا کہ مزدور کو زخمی ہو جانے کی صورت میں اس کا علاج کروایا جاتا۔ مزدوروں کی ملازمت کا فیصلہ مالک کی مرضی پر ہوتا وہ جس کو چاہتا ملازمت پر رکھتا اور جس کو چاہتا ہٹا دیتا
چھٹی کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔
ان تمام مسائل کو حل کرنے کے لیے امریکہ، یورپ میں مزدوروں نے مختلف تحریکیں چلائیں۔
1884ء میں فیڈریشن آف آرگنائزڈ ٹریڈرز اینڈ لیبر یونین
federation of organized trades and labor unions
نے اپنا اجلاس منعقد کیا جس میں انہوں نے ایک قرارداد پیش کی اس قرارداد میں کچھ مطالبے رکھے جن میں سب سے اہم مطالبہ مزدوروں کے اوقات کار کو 16 گھنٹوں سے کم کر کے 8 گھنٹے کیا جائے۔
مزدوروں کا کہنا تھا کہ 8 گھنٹے کام کےلئے 8 گھنٹے آرام کےلئے اور 8 گھنٹے ہماری مرضی کے یہ مطالبہ “یکم مئی” سے لاگو کرنے کی تجویز پیش کی گئی لیکن اس مطالبے کو قانونی راستوں سے منوانے کی کوشش ناکام ہونے کی صورت میں” یکم مئی” کو ہی ہڑتال کا اعلان کیا گیا اور جب تک مطالبات نہ مانے جائیں یہ تحریک جاری رہے گی۔
16، 16 گھنٹے کام کرنے والے مزدوروں میں 8 گھنٹے کام کرنے کا نعرہ بہت مقبول ہوا۔ اسی وجہ سے اپریل 1886ء تک 2 لاکھ 50 ہزار سے زیادہ مزدور اس ہڑتال میں شامل ہونے کے لیے تیار ہو گئے۔
اس تحریک کا آغاز امریکہ کے شہر شکاگو سے ہوا، اس ہڑتال سے نپٹنے کے لیے جدید اسلحے سے لیس پولیس کی تعداد شہر میں بڑھا دی گئی۔ یہ جدید اسلحہ پولیس کو مقامی سرمایہ داروں نے مہیا کیا تھا۔ تحریک کا آغاز” یکم مئی” سے شروع کیا گیا۔ پہلے روز ہڑتال بہت ہی کامیاب رہی، دوسرے دن یعنی 2 مئی کو بھی ہڑتال کامیاب اور پُرامن رہی، لیکن تیسرے دن 3 مئی کو ایک فیکٹری کے اندر پولیس نے پُرامن نہتے مزدوروں پر فائرنگ کر دی جس کی وجہ سے 4 مزدور ہلاک اور بہت سے زخمی ہو گئے۔
اس واقعہ کے خلاف تحریک کے منتظمین نے اگلے ہی روز 4 مئی کو ایک بڑے احتجاجی جلسے کا اعلان کیا، اگلے روز جلسہ پُرامن جا رہا تھا لیکن مقرر کے خطاب کے دوران پولیس نے فائرنگ کر کے بہت سے مزدور ہلاک اور زخمی کر دیئے۔
پولیس نے یہ الزام لگایا کہ مظاہرین میں سے ان پر گرنیڈ سے حملہ کیا گیا جس کی وجہ سے ایک پولیس افسر ہلاک اور کئی زخمی ہو گئے۔
اس حملے کو بہانہ بنا کر پولیس نے گھر گھر چھاپے مارے اور مزدور رہنماؤں کو گرفتار کر کے ایک جعلی مقدمے میں آٹھ مزدور رہنماؤں کو سزائے موت دے دی گئی۔
البرٹ پارسن، آگسٹ سپائز، ایڈولف فشر اور جارج اینجل کو 11 نومبر 1887ء کو پھانسی دے دی گئی لوئیس لنگ نے جیل میں خودکشی کر لی اور باقی تینوں کو 1893ء میں معافی دے کر رہا کر دیا گیا۔
موت کو گلے لگاتے ہوئے مزدور رہنماؤں نے آنے والی محنت کش نسلوں کو پیغام دیتے ہوئے کہا۔
” ہم خوش ہیں کہ ہم ایک اچھے مقصد کے لیے اپنی جان پیش کر رہے ہیں”
مئی کی اس مزدور تحریک نے آنے والے دنوں میں طبقاتی جد وجہد کے مطابق شعور میں انتہائی اضافہ کیا۔
ایک نوجوان لڑکی ایما گولڈ نے کہا۔ ” مئی 1886ء کے واقعات کے بعد میں محسوس کرتی ہوں کہ میرے سیاسی شعور کی پیدائش اس واقعے کے بعد ہوئی ہے”
البرٹ پارسن کی بیوی لوسی پارسن نے کہا ” دنیا کے غریبوں کو چاہیے کہ اپنی نفرت کو ان طبقوں کی طرف موڑ دے جو انکی غربت کے ذمہ دار ہیں یعنی سرمایہ دار”
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائی سادگی سے کھا گیا مزدور مات
ڈاکٹر اقبال رحمہ اللہ
مزدوروں پر فائرنگ ہو رہی تھی تو اچانک ایک مزدور نے اپنا سفید جھنڈا ایک زخمی مزدور کے خون میں سرخ کر کے ہوا میں لہرا دیا اس کے بعد مزدور تحریک کا جھنڈا ہمیشہ سرخ رہا۔
1889ء میں ریمنڈ لوین کی تجویز پر یکم مئی 1890ء کو ” یوم مئی” کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا اس دن کی تقریبات بہت کامیاب رہیں، اس کے بعد یہ دن عالمی “یوم مزدور یا لیبر ڈے” کے طور پر منایا جانے لگا سوائے امریکہ ، کینیڈا اور جنوبی افریقہ کے.
نسل پرست حکومت کے خاتمے کے بعد جنوبی افریقہ میں بھی یہ دن منایا جانے لگا۔
مزدور اور دیگر استحصال زدہ طبقات کی حکومت لینن (Vladimir Lenin) کی سربراہی میں اکتوبر کے انقلاب کے بعد سوویت یونین میں قائم ہوئی۔ اس کے بعد مزدور تحریک بڑی تیزی سے پھیلتی چلی گئی اور یوں چالیس پچاس سالوں میں دنیا کی تقریباً نصف آبادی پر مزدور طبقے کا انقلابی سرخ پرچم لہرانے لگا۔
اب دنیا بھر میں دوسرے ممالک کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے سرمایہ دار ممالک بھی اس دن کو بڑے اہتمام کے ساتھ مناتے ہیں اور بڑے بڑے عالمی لیڈر یکم مئی کی جدوجہد کا ذکر کر رہے ہوتے ہیں۔
یہ دن عام طور پر دنیا میں مزدوروں کی کامیابی کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔
جہاں تک ترقی یافتہ ممالک کی بات ہے وہاں یقیناً مزدور کے لیے بنیادی سہولتوں میں کافی آسانیاں ہوئی ہیں، صحت اور تعلیم پر انسان کا بنیادی حق ہے اور اس میں چھوٹے یا بڑے کا کوئی فرق نہیں۔ وہاں مزدوروں کو جو بنیادی اجرت دی جاتی ہے اس سے ان کا اور ان کے بچوں کا گزارا آرام سے ہو جاتا ہے۔
اگر بات کی جائے پاکستان میں تو اس دن کو پاکستان میں متعارف کرانے کا سہرا ذولفقار علی بھٹو کے سر پر ہے۔ بھٹو صاحب نے روٹی، کپڑا اور مکان کا دلکش نعرہ لگا کر پورے پاکستان کے مزدوروں کو اپنے ساتھ ملا لیا لیکن افسوس بھٹو صاحب مزدوروں کی حالت تو کیا بدلتے، ان کے دور میں صنعتوں، بنکوں، اور دوسرے ذرائع پیداوار حکومتی تحویل میں لینے سے مزدوروں کو نقصان ہی پہنچا۔ بعد میں دو مرتبہ ان کی بیٹی بینظیر بھٹو اور ایک مرتبہ ان کا داماد آصف علی زرداری بھی روٹی، کپڑا اور مکان کا دلکش نعرہ لگا کر بر سرِ اقتدار رہے مگر مزدوروں کی حالت بد سے بدتر ہوتی چلی گئی ۔ بھٹو کے بعد ضیاء الحق سے آج شریف خاندان ( نواز شریف) تک ہر حکومت یکم مئی مناتی رہی ، مگر مزدوروں کے حالات میں کوئی بہتری نہیں آئی۔
حکومتی سطح پر بہت سارے وعدے کئے جاتے ہیں لیکن اگلے یکم مئی کو مزدوروں کی حالت پہلے سے بدتر ہوتی ہے۔ یکم مئی کے بارے میں کمال احمد جو ایک جوتوں کی دوکان پر کام کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ” انہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یکم مئی کو “یوم مزدور” منایا جاتا ہے مزدوروں کے اس دن کی ان کی زندگی میں کوئی اہمیت نہیں ہے
” یوم مزدور “میرے لئے صرف کاغذ پر ہے کیونکہ مجھے اس دن چھٹی نہیں ملتی اور اگر اس روز چھٹی کر لوں تو اس دن کے پیسے تنخواہ میں سے کاٹ لئے جائیں گے”
یہ کہانی صرف کمال احمد کی ہی نہیں بلکہ اس طرح کے لاتعداد مزدوروں کی ہے جو سبزی فروخت کرتے ہیں یا رکشہ چلاتے ہیں یا روز مزدوری کرتے ہیں، یہ آپکو ملک کے گوشے گوشے میں مل جائیں گے۔
افسوس کا مقام ہے کہ ایسے پریشان حال مزدوروں کی تعداد ہمارے ملک میں بہت زیادہ ہے، ملک میں شاید ہی کوئی ایسا مقام ہو جہاں مزدوروں کا استحصال نہ ہوتا ہو۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے اور افسوس کا مقام ہے کہ جو دن مزدوروں کے لیے مخصوص کر دیا گیا اس دن بھی انہیں سکون میسر نہیں۔
ایک طرف جہاں روزانہ کی آمدنی کی مزدوروں کو یہ فکر ہوتی ہے کہ کام نہیں کرے گے تو گھر کا چولہا کیسے جلے گا وہیں مہینے میں تنخواہ پانے والے مزدور ایک دن کی تنخواہ کٹنے سے خوفزدہ رہتے ہیں اور یکم مئی کو بھی کام پر چلے جاتے ہیں۔
ایک عام مزدور جو چوک پر اپنی مزدوری کا انتظار کرتا ہے اور رات کو اس کا چولہا جلتا ہے کسی بھی سرکاری یا پرائیویٹ چھٹی کے ساتھ ہی اس کے گھر میں فاقے کی آمد ہوتی ہے ایسے مزدوروں کی زندگی میں” یکم مئی” کی کیا اہمیت ہو گی؟
آج صورتحال یہ ہے کہ!
حکومتی سطح پر یکم مئی کو عام تعطیل ہوتی ہے۔ حکومتی اور عوامی سطح پر بڑے بڑے اجلاس ہوتے ہیں ۔ اور سیمنارز کا انقعاد بھی کیا جاتا ہے لیکن اس کا فائدہ مزدوروں کو ہرگز نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے ذریعے مزدوروں کےلئے شروع کئے گئے منصوبے بھی صرف دھوکہ ثابت ہوتے رہے ہیں، مزدوروں کی آواز اٹھانے کے لیے کئی ادارے بھی ہیں لیکن یہ ماضی کی بات ہو گئی ہے کہ خلوص نیت کے ساتھ مزدوروں کے مفاد کی بات کریں زیادہ تر ٹریڈ یونینوں کے لیڈر بد عنوان سیاسی نظام کا حصہ بن چکے ہیں یہ مزدور لیڈران اسٹیج پر بآواز بلند مزدوروں کے مفاد کی بات کرتے ہیں لیکن تنہائی میں کمپنی یا کارخانہ مالکان سے سودے بازی کر کے مزدوروں کی پریشانیوں میں اضافہ کرتے ہیں۔
ہمارے ملک میں مزدوروں کی حالتِ زار سے سبھی واقف ہیں۔ آج حالات یہ ہیں کہ بہت سے مزدوروں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ یکم مئی کے روز ” یوم مزدور” منایا جاتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی بھی منصوبہ یا کوئی بھی قانون مزدوروں کو اس کا حق دلانے میں کامیاب نہیں۔
مزدور کل بھی کمزور تھے
اج بھی کمزور ہیں
مزدور کل بھی مفلوک الحال تھے، آج بھی مفلوک الحال ہیں۔
مزدور کل بھی مظلوم تھے،
آج بھی مظلوم ہیں۔
شاید کہ ڈاکٹر اقبال رحمہ اللہ نے اسی لیے یہ فرمایا ہے کہ
تو قادر و عادل ہے مگر ترے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات
پاکستان میں جہاں 50٪ سے زائد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہو وہاں مزدور اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کی فکر میں ہی یوم مزدور عام دنوں کی طرح گزار دیتا ہے لیکن دوسری طرف اس ملک میں یوم مزدور کو بڑی بڑی کمپنیوں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز اور آرام دہ آسائش کی زندگی بسر کرنے والے سرکاری اداروں میں کام کرنے والے صاحب لوگ یہ ضروری جانتے ہیں کہ یکم مئی کے روز چھٹی ہوتی ہے لیکن یہ بھی صرف اتنا ہی جانتے ہیں کہ اس روز چھٹی ہوتی ہے۔ یوم مزدور کیوں منایا جاتا ہے؟ اور اس کے کیا مقاصد ہیں ؟ اس سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔
اور اخر میں یہی کہوں گا کہ اس ملک کے مفلوک الحال اور مظلوم مزدور شاید یہ سمجھتے ہوں گے کہ یکم مئی ” یوم مزدور” صاحب لوگوں کے آرام کا دن ہوتا ہے اور اس دن صاحب لوگ آرام کرتے ہیں۔
تحریر: زین رضوی



