معاشرہ اور فسادات
Article by Hafiz Muhammad Rehan
حضور اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا
الدین النصیحہ
ترجمہ: دین خیر خواہی کا نام ہے۔
مسلم شریف
اسی بات کو شعار بناتے ہوئے پہلے نبی کریم صلی الله تعالی علیہ وآلہ وسلم کے پیارے ارشاد مبارک کو یاد کرتے ہیں جو ہماری لیے زندگی کے ہر موڑ پر مشعل راہ ہے اور اس پرفتن دور میں اس ارشاد پاک پر عمل کی بہت زیادہ اہمیت ہے
آپ صلی الله تعالی علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے
من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلیقل خیرا او لیصمت
ترجمہ: جو کوئی اللہ پر اور آخرت کے دن پر یقین رکھتا ہے پس اسے چایئے کے وہ اچھی بات کہے یا پھر خاموش ہوجائے۔
بخاری و مسلم شریف
اس حدیث کو سامنے رکھتے ہوئے مجھے اور ہر شخص کو اس چیز پر استقامت کی ضرورت ہے کے جو شریعت کے احکام ہیں ان کو مظبوطی سے تھامے اور اچھی بات کہنے پر ڈٹ جائیں یا خاموشی اختیار کرنے پر ڈٹ جائیں لیکن غلط بات منہ سے کبھی نہ نکالیں اور نہ ہی غلط رائے دیں اور نہ ہی غلط رائے دینے والوں کا ساتھ دیں لیکن ماضی بعید و قریب میں بد قسمتی سے اچھی نیک بات پر ڈٹ جانے والوں کو محل تضحیک بنایا گیا اور بنایا جاتا ہے یوں لگتا ہے کے ادب عربی کی مشھور کتاب البخلاء صفحہ ۱۳ پر یہ عبارت ایسے ہی لوگوں کے لیے لکھی گئی ہوگی
أول العيب أن تعيب ما ليس بعيب
ترجمہ: سب سے بڑی عیب کی بات یہ ہے تو عیب نکالے اس چیز میں جس میں عیب نہ ہو۔
افسوس کہ بعض لوگ ایسے ہیں قرآن پاک اور حدیث پاک میں بیان کردہ صریح احکام کے آگے اپنی عقلوں کے گھوڑوں کو دوڑاتے ہیں اور اپنی کم عقلی اور بے وقوفی اور چرب زبانوں کے ساتھ گمراہی کی دلدل میں لوگوں کو لے جانے کا سبب بنتے ہیں۔
کچھ تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر طعن وتشنیع کرتے دکھائی دیتے ہیں جن سے رب نے فرمایا (رضی اللہ عنہ ورضوا عنہ) ترجمہ: اللہ راضی ہوا ان سے اور وہ راضی ہوئے اس سے۔
اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ ان کو اور کچھ نہ ملے تو وہ اولیاء کرام اور علماء کرام کے لئے نازیبا الفاظ بولتے ہیں اور ناعلمی کی بنیاد پر دینی مسائل میں بحث و مباحثہ کرتے ہیں اور افسوس کے کچھ تو لوگوں کو ناعلمی اور جہالت کی وجہ سے بات بات پر مشرک اور بدعتی بنائے جاتے ہیں۔
اللہ تعالی محفوظ رکھے۔
المختصر مزید اپنے موضوع کے قریب آتے ہیں اور ایک عربی کا قصہ ترجمہ کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کے ایک لومڑی کی دم پر پتھر گرتا ہے جس کی وجہ سے اسکو اپنی دم کاٹنی پڑ جاتی ہے پھر اسنے سوچا کے دوسری لومڑیوں نے جب مجھ کو دیکھا تو وہ میرا مذاق اڑائیں گی۔ تو اس نے ایک ترکیب سوچی ۔ ایک دوسری لومڑی کا وہاں سے گزر ہوا اور اس نے دم کٹی ہوئی لومڑی کو دیکھا تو تعجب کرتے ہوئے سوال کیا یہ کیا ماجرا ہے؟ اس پہلی لومڑی نے کہا تم کو کیا بتاؤں دم کٹوا کر کتنا مزا آیا ہے!! دوسری نے کہا کیا واقعی ایسی بات ہے!!؟ اس نے کہا آپ بھی کٹوا کر دیکھ لو جب دوسری نے دم کٹوائی تو اسکو سوائے تکلیف کے کچھ مزا نہ آیا اسکے بعد مذاق و تمسخر سے بچنے کے لیے جو بھی لومڑی آتی اسکو کہا جاتا کے اتنا مزا آتا ہے دم کٹوا کر جب اکثریت دم کٹی لومڑیوں کی ہوگئی
تو پھر وہ لومڑیاں جس بھی صحیح وسالم لومڑی کو دیکھتیں اسکا مذاق اڑاتی
افسوس کہ یہ ہی حال اب ہمارے معاشرے کا ہوتا جا رہا ہے جو صحیح وسالم لوگ ہیں ان کو ہی معاشرے میں برا کہا جانا شروع ہوگیا ہے ماضی قریب و حال اس کے شاہد ہیں دنیا کی ہر فیلڈ میں اپنی ناکامی کا مدعا دوسروں پر ڈالنا عام سی بات ہے جیسے آج یہ بات عام سننے کو مل جاتی ہے کے ترقی میں بڑی رکاوٹ دینی مدارس و علماء ہیں ان کی وجہ سے ملک کی ترقی نہیں ہورہی جب کے ایک بھی عالم ایسا نہیں کے اس نے کہا ہو دنیا کی دوڑ میں پیچھے رہو یہ سب کچھ اسی وقت ہوتا ہے جب معاشرے میں فساد زیادہ ہوجائے کیونکہ پھر جو سیدھے سادے لوگ ہونگے لوگ ان میں عیب و نقص اور ان میں طعنہ زنی کریں گے کیونکہ وہ اپنے عیوبوں پر نہ تو توجہ دیں گے اور نہ ہی صحیح کرنے کی کوشش کریں گے جیسے اس کہانی میں جب دم کٹی لومڑیاں زیادہ ہوئیں تو جو صحیح وسالم تھیں اس پر نکتہ چینی ہنسی مذاق اڑایا جانے لگا۔ آج بھی معاشرے میں جو صحیح وسالم لوگ ہیں زیادہ مذاق انھی کا اڑایا جاتا ہے انھی کو زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والا کہا جاتا ہے حالانکہ نہ وہ پیچھے ہیں اور نہ ہی زندگی کی دوڑ میں پیچھا رہنا پسند کرتے ہیں ہاں یہ کہتے ہیں درست سمت درست راستے کو نہ چھوڑو۔
اسلیے معاشرے میں صحیح وسالم لوگوں پر جب طعنہ زنی دیکھ لو سمجھ جاؤ کے معاشرے میں فساد کی لہر دوڑ رہی ہے۔ وہ صحیح وسالم لوگ علماء کرام اولیائے صالحین اور زندگی کے ہر شعبے کا فرد ہوسکتا ہے جو صحیح سمت چل رہا ہو۔ اور اس کے مدمقابل فساد والے موجود ہوں گے جنکی مثال اوپر بیان ہوئی ایسے ہی لوگ علماء پر آوازیں کستے ہیں آپ نے اور میں نے ان دم کٹی لومڑیوں سے بچنا پے اور دوسروں کو بچانا ہے اور خود کو دم کٹی لومڑی بننے سے بھی بچانا ہے ہمیشہ اپنا ناطہ علمائے کرام صالحین سے وابستہ رکھنا ہے جو ہمیں ہر فتنہ سے آگاہی اور اس سے نمٹنے کا طریقہ بتاتے ہیں۔اور کبھی بھی علمائے کرام فقہاء کرام کی شخصیات پر پر بدزبانی نہ کرنا ورنہ رسوائی و اور خسارہ کے کچھ نہیں۔
اللہ تعالی میری آپکی حضور اکرم صلی الله تعالی علیہ وآلہ وسلم کی ساری امت کی ہر فتنہ وفساد سے حفاظت فرمائے آمین۔
دورد شریف زیادہ سے زیادہ پڑھا کریں جس کی برکت سے آپ اور میں ہر فتنہ کی لہر سے بچے رہیں گے۔
وصلی اللہ تعالیٰ علی سیدنا ومولانا محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین والحمد للہ رب العالمین۔
والسلام۔
الکاتب: حافظ محمد ریحان