کچھ متاثرین ایسے بھی ہیں

Article by Umm-e-Abeer
کچھ لوگوں کی جدائی کسی سانحہ سے کم نہیں ہوتی۔ ازالہ تو درکنار اس غم کو کم کرنا بھی تقریبا ناممکن ہوتا ہے اور اس کا اثر کسی فردِ واحد یا چند اشخاص پر ہی نہیں بلکہ لوگوں کی کثیر تعداد پر ظاہر ہوتا ہے۔
اپنے انہی دکھوں، غموں اور تکلیفوں کا بعض لوگ اظہار کرنا بہتر گردانتے ہیں جبکہ بعض اسے متاع جان کی طرح سینوں میں دفن رکھتے ہیں مگر یہ مدفون خزانہ کبھی گھٹن کا باعث بھی بن جاتا ہے۔
پھر یوں بھی ہوتا ہے کہ اس گھٹن کو کم کرنے کے لئے کچھ تو گوشہء تنہائی کے متلاشی ہوتے ہیں کہ دو آنسو بہا لئے جائیں اور کچھ دوسروں پر غصہ کے اظہار کی صورت میں غم غلط کرنے کی سعی کرتے نظر آتے ہیں۔
مگر کچھ ایسے بھی متاثرین ہوتے ہیں کہ جنکو اس گھٹن سے چھٹکارے کے لئے نہ تو تنہائی میسر ہوتی ہے اور نہ ہی انکا منصب انہیں اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ قلب میں موجزن طوفان طلاطم خیز کو دبانے کے لئے کسی پر اظہار برہمی کا راستہ اختیار کرلیں۔ شاید اسکی وجہ انکا یہ ادراک بھی ہوسکتا ہے کہ وہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے لئے امید ہیں اور یوں بکھر کر وہ انہیں مایوس نہیں کرنا چاہتے۔
کبھی خود کو انکی جگہ پہ رکھ کر سوچیں کہ کیا ہم بھی اتنا بوجھ لیئے اسی خندہ پیشانی اور مسکراتے چہرے سے لوگوں کو خوش آمدید کہہ سکتے ہیں؟
پھر دیجئے نا داد انکے حوصلے کی اگر نہیں دے سکتے تو کم از کم ہر بات پر کٹہرے میں تو نہ لا کھڑا کریں ۔ وہ بھی انسان ہی ہیں ہوجاتی ہیں غلطیاں بھی۔
نظر انداز کیجئے اور دعا کرتے رہئے کہ انکے حوصلے یونہی بلند رہیں کیونکہ اقبال کے شاہین بے دار ہی اچھے لگتے ہیں ۔ آمین
تحریر: اُم عَبیر
