پاکستان کا مطلب کیا
Article by Ali Abbas Rizvi
اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی ہر طرف جشن آزادی اور برصغیر کی تقسیم زیر بحث آتی ہے، جھنڈے لہرائے جاتے ہیں، گلیاں سجائی جاتی ہیں لیکن جس مقصد کے لیے مملکت خداداد حاصل کی گئی اس کا ذکر یا تو سرسری سا ہوتا ہے یا حالات کا رونا رو کر خود کو انہی حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے. پرانی نسل کو پھر بھی ہجرت کی تکالیف تقسیم ہند پر ہونے والے مظالم اور تحریک پاکستان بارے معلوم تھا مگر نئی نسل سمجھتی ہے کہ ہمیں یہ ملک پلیٹ میں رکھ کر دیا گیا ہے شاید۔ اور اس ملک بنانے کا مقصد شاید روٹی کا حصول، نماز روزے کی اجازت یا گائے ذبح کرنے تک کے لیے ہوا ہے۔ آزادی کے روز موٹر سائیکل سے سائلنسر نکال کر یوں ادھم مچاتے ہیں کہ لگتا ہی نہیں لاکھوں مسلمان عورتوں نے اس کے حصول کے لیے عزتیں نیلام کروائیں۔
لا الہ الا اللہ کے نام پر بننے والے مسلم پاکستان میں محمد رسول اللہ ﷺ کا نظام کیوں قائم نہ ہو سکا؟ مصور پاکستان کا خواب ادھورا کیوں ہے؟ مقصد تقسیم کیا تھا؟ مستقبل کیا ہوگا؟ یہ سب ایک چشم دید گواہ کی زبانی سنتے ہیں
میرے والد محترم 76 سال کے ہیں، ان کے ایک دوست دھوبی گھاٹ گراؤنڈ کے قریب ہی رہتے ہیں، شہید پائلٹ یونس کے والد ہیں اور عمر80 سال کے لگ بھگ ہے۔ کہتے ہیں جولائی میں فسادات شروع ہوگئے تھے ہمارے محلے کے لوگ ہجرت کرگئے تھے لیکن کچھ مجبوریوں کی وجہ سے پیچھے رہ گئے ہر طرف خوف کا عالم تھا ایک دن خبریں آئیں کہ قافلے کی عورتوں کی عصمت دری کی گئی ہے، والد صاحب نے میری بڑی بہن کو ذبح کرکے رضائی میں لپیٹا سامان باندھا اور ہم چھپتے چھپاتے لاہور پہنچ گئے راستے میں گلتی سڑتی لاشوں سے تعفن اٹھ رہا تھا، خون کی ندی پار کرکے ہم پاکستان پہنچے۔ خوش تھے کہ اپنا ملک بنا لیا ہے یہاں اسلام نافذ کریں گے۔ 1954 میں پہلی بار احساس ہوا کہ ہمارے ساتھ زمانہ چال چل گیا انگریز جاتے جاتے منکرین ختم نبوت کو ہمارے اوپر مسلط کرگئے، دس ہزار مسلمانوں کے خون سے رنگین سڑکیں چیخ چیخ کر کہہ رہی تھیں کہ تم الگ ہوئے ہو آزاد نہیں۔ خیر یہ ایک لمبی داستان ہے قوم کو روٹی، کپڑا اور مکان، موٹر ویز کے پیچھے لگادیا گیا۔ دانشور اور مذہبی راہنما خریدے گئے، قوم کو مقصد سے ہٹا دیا گیا۔ جو کوئی تھوڑی بہت غیرت ملی باقی تھی وہ سود کھلا کر ختم کر دی گئی۔ جس طرح بنی اسرائیل جہاد کے لیے نکلے تو رب تعالیٰ نے منع کیا ندی سے پانی نہیں پینا انہوں نے ممانعت کے بعد حلال پانی پیا تو ان میں بزدلی پھیل گئی، وہیں بیٹھ گئے۔ ہم نے قطعی حرام کھایا کیسے راستے پر چل سکتے تھے؟ جو جہاں تھے وہیں بیٹھ گئے۔ گھپ اندھیرا چھا گیا ایک وقت آیا مشرف نے سیکولرازم پھیلانا شروع کر دیا، لگتا تھا لا الہ الا اللہ پہ بنایا گیا ملک اب ملحدوں کے پاس چلا جائے گا۔
ان تاریکیوں میں کہیں کہیں کوئی دیا روشن ہوتا جسے ہم امید کی کرن سمجھ کر اس کے پیچھے چلتے تو کوئی سراب ثابت ہوتا تو کوئی وقت کی بے رحم ہواؤں سے ساز باز کر لیتا۔ کچھ مشعلیں جلتی رہیں اور 75 سال سے فرزندان توحید کا لٹا پٹا قافلہ ان کی قیادت میں اسلام کے نفاذ کیلئے بڑھتا رہا، پھر اندھیرے کے سوداگروں اور سیاہی پسند چمگادڑوں نے وہ کام کیا جو پروانوں کیلئے ریڈ لائن ثابت ہوا۔ سلمان تاثیر کی گستاخی پر پہلی بار مسلمانان پاکستان کو شدت سے نظام مصطفےٰ ﷺ کی اہمیت کا اندازہ ہوا. رب تعالیٰ نے ان کی رہنمائی کیلئے اس بار ایسا فانوس بھیجا جو عشق رسالت ﷺ کے ایندھن سے جلتا تھا. وہیل چیئر پر بیٹھ کر اس مرد حُر نے ہر فتنے کی سرکوبی کی۔ سوئی ہوئی قوم کو اقبال قلندر لاہوری رحمتہ اللہ علیہ کے افکار سے جگایا اب تو یہ روشنی اتنی پھیل گئی ہے کہ پاکستان کے ہر محلے سے نظام مصطفےٰ ﷺ کے پروانے رحمتہ اللعالمین مسجد میں جمع ہو کر عہد کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ دین تخت پہ لائیں گے۔ میں نے اپنی پوری زندگی میں پہلی بار قوم میں جذبہ جہاد دیکھا، پہلی بار قوم کو دین کے لیے سنجیدہ ہوتے دیکھا، قوم کو جگانے والا چلا گیا تو لگتا تھا ہمارے ساتھ پھر وقت نے چال چل دی مگر اس فانوس کا فیضان ابھی ختم نہیں ہوا تھا وہی جذبہ لیے انگریز کے لے پالکوں کے خلاف پہلی بار قوم کو صف آراء دیکھا ہے اور پہلی بار سعد بن خادم حسین رضوی کے منہ سے سنا ہے کہ وطنیت نہیں دین کے نام پر میں علیحدہ ہوئے بنگلہ دیش کو بھی ساتھ ملا سکتا ہوں، یہی تو وہ نظریہ تھا جس پر یہ وطن لیا گیا تھا میں نے جب سے یہ بیان سنا ہے مجھے لگتا ہے ہماری منزل بہت قریب آگئی ہے، میں نے زمانے کا سرد گرم دیکھا تحریکیں بنتی اور بکھرتی دیکھی ہیں مگر پہلی بار وہیل چیئر والے بابے کی قیادت میں وہ لوگ دیکھے جنہیں موت دیکھ کر پیچھے ہٹ گئی تھی۔ یہی وہ لوگ ہیں جو پاکستان کے ادھورے مشن کو پورا کر سکتے ہیں۔ قوم سے کہتا ہوں اپنے حق کے لیے جلدی کھڑے ہو جاؤ ورنہ بعد میں قربانیاں زیادہ دینی پڑیں گی۔ اٹھو ملک میں شریعت کے نفاذ کی بات کرو ورنہ شہدائے پاکستان قیامت والے دن تمہارا گریبان پکڑیں گے۔ اپنے وطن کو رنگین نعروں کے ملمع میں لپٹے سودخوروں اور یورپی استعمار کو برقرار رکھنے والے نظام سے نکالو ورنہ تقسیم ہند کا مقصد فوت ہو جائے گا۔ یاد رکھو ہم نے یہ وطن روٹی کپڑا اور مکان کیلئے نہیں رسول اللہﷺ کے دین کے لیے حاصل کیا تھا
اس ساری روداد کے دوران میرے ذہن میں بار بار جاوید راز کے امیر المجاہدین نور اللہ مرقدہ کی زبانی پڑھے گئے اشعار گونج رہے تھے
دل تے ہتھ رکھ سچ سچ دس
ہے پاکستان دا مطلب کیا
وت ہندوستان ای ٹھیک ہاسے
اتنے نقصان دا مطلب کیا
تحریر: علی عباس رضوی